صبح نو تیرے انتظار میں ہوں

Journalism

Journalism

تحریر: انجینئر افتخار چودھری
برادر مظفر بھٹی ایک نئے اخبار سماء میں چلے گئے ہیں پچھلا اخبار کمال کا اخبار تھا آپ وی کھائو تے سانوں وی کھوائو کے سنہری اصولوں پر کھڑے اس اخبار میں تنخواہ دینا اخبار کی روایت میں شامل نہیں ہے وہ ایک اخبار نہیں اکچر کا یہی حال ہے۔ صحافت میں نئی جہتوں کو متعارف کرانے والے اس جریدے کے دفتر میں حاضری دینے کا موقع ملا تو وہاں ایک گرائیں سے ملاقات ہو گئی۔

اسلام آباد کی پہاڑیوں کے پیچھے ایک نگری آباد ہے ہری پور میں فال کرتی ہے اس اندھیر نگری کے راجائوں نے اسے ابھی تک موئن جو دڑو کے دور سے نہیں نکلنے دیا میں اور عقیل ترین ادھر کے ہی ہیں وہاں راجہ اور ترین حکمرانی کرتے ہیں کبھی کبھار کوئی گجر بھی باری لے لیتا ہے اور باری بھی ایسی کے صدیوں تک لوگ کسی اور گجر کو نمائندگی دینے کی توبہ کر لیتے ہیں یو اندھیر نگری کے چوپٹ راجہ اور بدترین طرز حکمرانی کے حامل ترین اس علاقے کو مشق ستم بناتے رہتے ہیں۔عقیل ترین کے دفتر میں ایک درنیانے قد کے شخص سے تعارف ہوا کشادہ جبیں اس بھائی کا نام امبر رانجھا ہے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں سپیچ تھراپسٹ ہیں زنانہ آواز کو مردانہ میں ڈھلنا ان کے بائیں ةاتھ کا کھیل ہے۔

میری یہ تحریر ادبی تصور نہ کی جائے کیوںکہ اس میں بے ادبی کا تڑکہ بھی لگے گا۔ڈاکٹر امبر رانجھا سے بات چلی ہے جو ان کی خصوصیت کے بارے میں ہے۔مجھے ترین صاحب نے بتایا میں ممزاح کے موڈ میں نہیں ہوں اگر کوئی دوست جس کی آواز نسوانہ ہو تو اسے ضرور بتائیے۔مجھے فورا ایک دوست کا خیال آیا جو کبھی پیپلز پارٹی کے روح رواں تھے پھر جماعت اسلامی میں شرکت کی دل نہ لگا داڑھی سمیت نون میں آ گئے طبیعت میں استقلال نہ تھا اور تحریک انصاف کو منتحب کر لیا۔دیکھئے کب طبیعت مچلتی ہے تو نئے گھوڑے کی سواری کرتے ہیں۔اصحاب خیر ہیں خیر سے اوور سیز سے مال حلال کمایا ہے۔

سب کچھ خدا نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا وہ ڈاکٹر صاحب صاحب کے مریض بن کر گن گرج سے اگلا الیکشن لڑ سکتے ہیں کیونکہ ان میں ٹکٹ حاصل کرنے کی جملہ خصوصیات موجود ہیں ڈاکٹر وی خوش تے او وی خوش ۔علاقہ بھی ایک ہی ہے مگر انہیں بتائے کون؟محسوس کر جائیں گے۔ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر کتاب سے نوازا۔سر ورق زبر دست ہے تصویر کھینچنے والے نے انہیں خوب صورت تر بنا دیا ہے۔سر ورق پر ان کا ایک خوبصورت شعر درج ہے۔

صبح نو تیرے انتظار میں ہوں ہر لمحہ اک نئی بہار میں ہوں

یقین جانئے اس ایک شعر پر ہی بات کر لی جائے تو کافی ہے۔سیاست کے میدان میں سر گرم جوانوں کے لئے کمال لکھا ہے وہ جو ١٢٦ دن کے دھرے کے لوگ تھے ان کے عزم اور حوصلے کے نام یہی ایک شعر کافی ہے۔مایوس اور گبھرائے ہوئے لوگوں کے لئے ایک سبق بھی۔نئے پاکستان کا خواب دیکھنے والوں کی یہ کیفیت ہے وہ جدوجہد بھی کرتے ہیں اورایک نشے میں بھی ہوتے ہیں نئی بہار اور نیا پاکستان اس کے تصور کی بات کر کے امبر رانجھا نے دل موہ لیا ہے۔ایک کتاب انہوں نے عمران خان کے لئے بھی دی ہے۔جو انہیں بھیج دی گئی ہے۔بنی گالہ کی لائبریری مین ڈاکٹر صاحب کی کتاب کا اضافہ ہو چکا ہے۔دیکھئے چیئرمین کب اسے دیکھتے ہیں۔

دکھ بانٹنے کو آتا تھا اک غیر جو کبھی اس کو بھی میرے اپنوں نے مجھ سے جدا کیا

ڈاکٹر صاحب نے عہد حاضر میں گھروں کی تلخیوں کو کیا زبان دی ہے۔اس شعری کیفیت کو خاندان کا ہر ممبر اپنے لئے سمجھتا ہے۔اسی لئے تو مہدی حسن کی غزل اپنوں نے غم دیے تو مجھے یاد آ گیا اک اجنبی جو غیر تھا اور غم گسار تھا۔کسی نے کسی سے پوچھا کہ بھائی اچھے ہوتے ہیں یا دوست تو جواب ملا ہوتا تو بھائی ہی اچھا ہے مگر اسے دوست ہونا چاہئے۔کہاں گئے ہیں اس شہر کے مسافر جو جو دستیاں نبھانا جانتے تھے۔آج کل تو رکھ رکھائو ہے بڑا چھوٹے کا منتظر رہتا ہے کہ کوئی مفت کی کال ہی کر لے اور چھوٹے بڑوں کے انتظار میں۔اشفاق احمد نے کیا خوب کہا تھا اپنے جیسے ڈھونڈو گے تو اکیلے رہ جائو گے۔ویسے ڈاکتر امبر رانجھا بھولے بادشاہ ہیں انہیں بھی عمران خان کی طرح غلط فہمیوں نے گھیر رکھا ہے ان سے وفا کی امید باندھ رکھی ہے جو وفا کے نام سے واقف ہی نہیں۔دار پر چڑھنے والے ہیں اب منصف بھی سنتے ہیں انصاف کا ہر سو غوغا ہے اب شکر کریں جسٹس افتخار چودھری چیف جسٹس نہیں ہیں ورنہ ایک سو او موٹو ہو سکتا تھا۔

Pakistan

Pakistan

ڈاکٹر صاحب ساحر نے کہا تھا کہاں کا مہر منور کہاں کی تنویریں کہ بام و در پے سیاہی ڈھلک رہی ہے ابھی ڈاکٹر صاحب کی دنیا بھی کیا خوب دنیا ہے جب سر شام اداسی کا سماں ہوتا ہے کوئی رنگین مزاجی سے ہنساتا ہے ہمیں اللہ ان کی اس دنیا کو قائم رکھے آمینانہیں پاکستان اور پاکستانیت سے پیار ہے۔محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کو جب نظر بند کیا گیا تو وہ چیخ اٹھے کہتے ہیں

ہم تو کربلا کے وارث ہیں
ہمیں طاغوت سے لڑنا ہے
حق زندہ رکھنے کی خاطر
سینہ تان کر ہی چلنا ہے
ہمیں ظالم سے درانے وال
اب تو خدا را بس کر دو

ڈاکٹر صاحب سے دوستی کرنے کامزہ آئے گا دیکھئے دوستوں کے لئے کیا جذبات رکھتے ہیں

دولت زیست سر عام لٹا دی میں نے
اب تو ہر سانس میری وقف ہے یاروں کے لئے

اللہ کرے انہیں اچھے دوست نصیب ہوں۔ورہ کمین گاہوں کی جانب نظر اٹھائیں تو اکچر دوستوں سے ہی پالا پڑتا ہے۔ہم تو بھگت رہے ہیں۔جب مشرفی دور مین پابند سلال ہوئے تو سب پھر کر کے اڑ گئے کوئی لندن چلا گیا کوئی بچانے کے لئے ایئر پورٹ سے جواب دیتا پکڑا گیا کہ میں تو تمہیں چھڑوانے جا رہا ہوں بڑے بڑے طرم خانوں کی پتلونیں گیلی ہوئیں۔ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔

یہ علامہ اقبالی روح تو دیکھئے ہمارے اس نئے دوست میں
کرگس منڈلا رہے ہیں چاروں طرف
تن بزرگ شاہیں میں جاں نہیں ہے
ہوتا جا رہا ہے سخت پنجہ ء یہود
جاگنے کو تیار پھر بھی مسلماں نہیں ہے

١٤٤ صفحات کی اس کتاب کو روہیل ہائوس آف پبلیکیشنز اقبال مارکیٹ اقبال روڈ راولپنڈی نے چھاپا ہے مجھے تو مفت ملی ہے البتہ آپ کے لئے ٢٢٠ روپے کی ہے۔ (راقم پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات ہیں۔ان سے iach786@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)

Engr Iftikhar Chaudhry

Engr Iftikhar Chaudhry

تحریر: انجینئر افتخار چودھری