موصل میں دولت اسلامیہ کے آٹھ سو سے زائد جنگجو ہلاک

Mosal Security Forces

Mosal Security Forces

موصل (جیوڈیسک) امریکی فوج کا کہنا ہے کہ عراقی شہر موصل میں گذشتہ ہفتے شروع ہونے والے آپریشن میں اب تک خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم کے آٹھ سو سے نو سو کے قریب جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔

امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی حتمی تعداد بتانا مشکل ہے کیونکہ یہ شہر بھر میں اپنی پوزیشنز تبدیل کرتے ہیں اور شہریوں کے درمیان رہتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ ڈیڑھ ہفتے کے دوران آپریشن میں ایک اندازے کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے 800 سے 900 جنگجو مارے گئے ہیں۔

دوسری جانب عراقی فوج نے بدھ کو امریکی کمانڈ کو بتایا تھا کہ آپریشن کے دوران اب تک عراقی فوج کے 57 اہلکار ہلاک اور 250 زخمی ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ خیال ہے کہ اس آپریشن میں 20 سے 30 کرد جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔

فوجی کارروائیوں سے پہلے کیے گئے اندازے کے مطابق موصل میں پانچ ہزار کے قریب دولتِ اسلامیہ کے جنگجو موجود ہیں۔

عراقی اور اتحادی افواج نے امریکی فضائی طاقت کی مدد سے دولتِ اسلامیہ کے خلاف متعدد محاذوں پر کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ کم از کم ایک سو امریکی سپیشل آپریشنز اہلکار عراق فوج کے ساتھ کارروائیو میں شریک ہیں۔

موصل عراق میں دولت اسلامیہ کا آخری گڑھ ہے اور اس کے شدت پسندوں نے سنہ 2014 میں شہر پر قبضہ کیا تھا۔ موصل ہی میں دولت اسلامیہ کے رہنما ابو بکر البغدادی نے عراق اور شام میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں خلافت کا اعلان کیا تھا۔

موصل کو دولت اسلامیہ کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے منصوبہ بندی کئی ماہ سے جاری تھی اور گذشتہ ہفتے عراقی توپخانوں نے موصل پر گولہ باری کا آغاز کیا جس کے ساتھ ہی اس جنگ کا آغاز ہوگیا۔ عراقی اور اتحادی افواج اور کرد پیشمرگاہ کے 30 ہزار جوان اس کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں۔

موصل میں کارروائی کے آغاز پر اقوامِ متحدہ نے شہر میں محصور 15 لاکھ افراد کے تحفظ کے حوالے سے ‘شدید خدشات’ کا اظہار کیا ہے۔

عراقی حکام کا کہنا ہے کہ موصل پر عراقی افواج کا دوبارہ قبضہ ہونا درحقیقت عراق میں دولتِ اسلامیہ کی مکمل شکست کے مترادف ہوگا۔