ماں ولی

 AMMAN JI

AMMAN JI

تحریر : انجم صحرائی
قارئین کرام ! آج میں جس شخصیت کے حوالے سے اپنی یادوں کو ترتیب دینے لگا ہوں ہر شخص کی اس رشتہ سے جذباتی وابستگی کو ئی انہونی بات نہیں دنیا کے ہر انسان کو اپنی ماں سے پیار ہوتا ہے۔انسان تو انسان دنیائے عالم میں پائے جانے والے ہر چرند پرند یہاں تک کہ چوپائے اور درندے بھی زندگی کے ابتدائی معصوم زمانہ دور میں ممتا کی گود میں ہی پناہ حاصل کرتے ہیں۔تو صاحبو! کرہ ارض پر پائی جانے والی سبھی مخلوقات کی طرح مجھے بھی اپنی ماں سے بہت پیار ہے اس لیے کہ گواسے مجھ سے جدا ہوے ربع صدی ہونے کو ہے لیکن آج بھی جب ان کی یاد آتی ہے تو آنکھوں کے کنارے بھیگ جاتے ہیں۔

میری والدہ بشیراں بی بی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا وہ قیام پاکستان سے پہلے بھی غریب تھا اور قیام پاکستان کے بعد بھی غریب رہا۔والدہ مرحومہ کی شادی جس خاندان میں ہوئی اس کا سانحہ یہ تھا کہ وہ قیام پاکستان پہلے خاصا صاحب اقتدار و اختیار تھا دادا حضور علی حسن اور ان کے پانچ بھائی محکمہ پولیس میں ملازم تھے اور ملازم بھی ایسے کہ سبھی تھانیدار تھے۔ہمارے جدامجد مولوی قلندر بخش اپنے زمانہ میں سمانہ ریاست پٹیالہ کے پہلے مسلمان استاد تھے مولوی صاحب ایک عالم با عمل شخصیت تھے۔

ان کا شمار اپنے وقت کے نہ صرف عمرانی علوم کے معروف اساتذہ میں ہوتا تھا بلکہ انہیں اپنے علاقہ میں ایک خاص مذہبی حیثیت بھی حاصل تھی ان کے کئی ہم عصروں نے ذکر کیا کہ مولوی صاحب نہ صرف انسانوں استاد تھے ان کے سامنے زانوئے تلمیذ کرنے والوں میں کئی جن بھی شامل تھے۔واللہ اعلم بالصواب۔ خدا نے مولوی قلندر بخش کو ان کی زندگی میں ہی اتنا نوازا کہ ان کے چھ میں سے پانچ بیٹے محکمہ پولیس میں تھانے داربنے اور سامانہ میں انکی آبائی حویلی تھانے داروں کی حویلی کہلائی۔پاکستان بنا تو یہ سب بھائی کروفرادراور اختیار واقتدار چھوڑکر پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کے نعرے کا ورد کرتے ہوئے ایسی حالت میں پاکستان کی طرف چلے کہ کسی کی بیٹی قافلے میں بچھڑ گئی اور کوئی اپنے جگرگو شہ سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

دادا حضور علی حسن کی دو بیٹیاں کنیز فاطمہ اور نثا ر فاطمہ اس زمانے میں بی اے کر کے محکمہ تعلیم میں ملازمت کر رہی تھیں اپنے ایک چھوٹے بھائی سلامت اللہ کے ساتھ قافلے سے بچھڑ کر لاپتہ ہو گئیں اوور ایک بیٹے محمدخورشید نے اس زمانے میں وکالت کی تعلیم حاصل کر کے محکمہ مال میں ملازمت کر لی وہ نائب تحصیلدار کی حیثیت سے بمبئی میں مقیم تھے تقسیم کے بعدانہوں نے بوجوہ پاکستان آ نے سے انکار کر دیا یوں اس خاندان نے ایسی بے سروسامانی کی کیفیت میں قیام پاکستان کی خوشیوں کے نوافل ادا کیے کہ اس وقت کے حالات سنتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

جب ا ماں کی شادی ابو سے ہوئی تو اس خاندان کا کوئی معاشی حال نہ تھا۔ کلیموں کی بنیاد پر رقبوں کی الاٹمنٹ کے چکروں نے تو بڑے بڑے ہوشیاروں کو چکرا کے رکھ دیا۔یہ سیدھے سادھے سرکاری ملازمتوں پر انحصار کر کے زندگی گزارنے والے لوگ بھلا کیسے کامیاب ہوتے۔ہوا یوں کہ جو رقبہ ملتا گیا وہ کبھی کسی جواز سے اور کبھی کسی جواز سے ۔میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں میری فکری اور نظریاتی تربیت میں اماں کا بڑا ہاتھ ہے اماں بڑی محنت کش تھیں گو زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں تھیں مگر قرآن مجید با ترجمہ بہشتی زیور اور احوال الآخرت پڑھ کر وہ اس قابل ضرور ہو گئی تھیں کہ جاننے والیوں نے انہیں ”مولون” کہنا شروع کر دیا تھا انہوں نے مولانا مودودی کی کتب ”دینیات اور خطبات” کو بھی پڑھا تھا اور ”پردے ” اور ” حقوق الزوجین” کے بارے میں آگاہ تھیں۔گووہ فکری طور پر دیو بند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی تھیں مگر انہیں میلاد شریف میں نعتیں پڑھنا اور سننا اچھا لگتا تھا۔

جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں ہماری سماجی اور معاشی حالت زیادہ بہتر نہ تھی بلکہ اگر میں کہوں کہ خاصی تنگ دست تھی تو شاید غلط نہ ہو گا اماں اس تنگ دستی کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں کے کپڑے سیا کرتی تھیں بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ اماں نے سردیوں میں لوگوں کی رضائیوں کو معاوضے پردھا گے ڈالے ۔اس ساری تنگ دستی اور حالات کے جبر کے با وجود وہ مجھے ایک کامیاب انسان دیکھنے کی متمنی تھیں انہوں نے کبھی مجھے کسی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا میں بھی اس زمانہ میں اپنے آپ کو کسی سے بھی کم نہیں سمجھتا تھا وہ اس لیے کہ اماں میری ہر خواہش کو پورا کرنا کرتیں۔نئے کپڑے ،نئے جوتے، نئی کتابیں اورنیا بستہ بس میرے پاس کو جوکچھ بھی ہوتا نیا ہوتا۔کتابوں کے دو دو بستے ہوتے ان کی کوشش صرف یہ تھی کہ میں پڑھ جائوںوہ کہا کرتی تھیںکہ ” گیدڑ کے گیارہ بچوں کے مقابلہ میں شیرنی کا ایک ہی کافی ہوتا ہے”۔میں شاید تیسری جماعت میں تھا جب میں نے قرآن مجید ختم کیایہ محنت بھی اماں کی تھی اماں مجھے صبح کاذب کے وقت جگا دیتیں صبح کی اذانوں کے وقت مجھے اپنے استادبا باجی کے گھر قرآن پڑھنے جانا پڑتا اس زمانے میں ہمارے گائوں میں نہ تو بجلی ہوا کرتی تھی اور نہ ہی میٹل روڈ بنے تھے ہمارے گھر سے بابا جی کا گھر ایک فرلانگ کے فاصلہ پر تھاصبح سویرے جب ابھی آسمان پر تارے ٹمٹماتے ہوئے نظر آ رہے ہوتے تھے مجھے اماں جگا دیتیں۔

Mother

Mother

گھر میں لگے ہینڈپمپ سے وضو کراتیںاور قرآن مجید پڑھنے کے لیے گھر سے نکال دیتیں۔بابا جی جن کا اصل نام منشی عدالت خان تھا ہمارے استاد تھے۔باباجی کے ایک برخودارپروفیسرعبدالسلام آج کل محکمہ تعلیم میں تعلیمی فرائض انجام دے رہے ہیں۔باباجی کے پاس گائوں کے لڑکے اور لڑکیاں اکھٹے قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ وہ تھے تو نابینا مگر انکی قوت سماعت اور حس بہت تیز تھی اتنی کہ طلباء و طالبات میں جو بھی قرآن مجید پڑھتے ہوئے غلطی کرتا باباجی کھونٹا اٹھاتے اور غلطی کرنے والے کے سر پر دے مارتے۔یہ کبھی نہیں ہوا کہ غلطی کسی نے کی ہو اور باباجی کا کھونٹا کسی دوسرے کے سر پر لگا ہو۔میں نے باباجی سے ہی قرآن مجید پڑھا ،باباجی کے پاس میں نے اوائل عمری میں ہی سورة یسین سمیت بہت سی سورتیں یاد کیں ، با با جی نے ہی ہمیں بہشتی زیور اور احو ال لآخرت پڑھائی ۔ احو ال لآخرت ایک منظوم کتاب تھی ۔ باباجی قرآن مجید کا سبق سننے ، دینے اور دھرانے کے بعد لڑکے اور لڑکیوں سے باری باری احو ال لآخرت کامنظوم کلام سنتے۔ہم سب لہک لہک کر ترنم میں سنایا کرتے تھے۔

میں نے مکمل بہشتی زیور بھی باباجی کے پاس پڑھا۔اس زمانہ میں ہمیں مسئلے مسائل پر بحث کرنے کا جنون ہوا کرتا تھاہم نماز ، روزہ، حج، زکوات جیسے مسائل پر بحث کرتے اور خوب کرتے گو ہم عمر میں بہت چھوٹے تھے مگر جتنا دین کا بنیادی علم ہمیں حقیقتااس وقت حاصل تھا خدا مجھے معاف کرے سچی بات یہ ہے کہ آج اس کا دسواں بھی مجھے یاد نہیں۔گائوں میں ”اماں” کی حیثیت ایک ورکنگ وومن کی سی تھی۔ سلائی میں اماں ماسٹرنی تھی۔جبھی تو اماں کا حلقہ احباب بھی وسیع تھا۔ میرے ننھیال والوں کا گھر تھا تو کچہ مگرتھا خاصا بڑاکچے کمروںسے علیحدہ صحن میںجانب غرب ایک چھپر بنا ہوا تھا۔ گرمیوں میں یہ چھپرمحلے کی عورتوں کے لئے چوپال کا کام دیتا ۔اماں در میان میں اپنی سلا ئی مشین لے کر بیٹھ جا تیں اور محلے کی عورتیں ایک ایک کر کے وہاں اکٹھی ہو جا تیں ۔ وہاں آ نے والی سبھی عورتیں ورکنگ وومن ہو تیں ۔ کو ئی سویٹر بن رہی ہو تی اور کو ئی خروشئیے کی کڑھا ئی ، کو ئی عورت کجھور کے پتوں سے چنگیری بنا تی اور کوئی ہاتھ کے چر خے سے اون کا دھا گہ بنتی اور یوں اس چھپر کا ما حول ایک سمال ہوم انڈ سٹری کا سا ہو جاتا۔کبھی کبھار عورتوں میں منہ ماری بھی ہو جاتی مگر حالات جلد نارمل ہو جاتے اور یہ جمگھٹا نماز ظہر تک لگا رہتا جونہی اذان کا وقت ہوتا کچھ عورتیں اپنے گھروں کو چلی جا تیں اور کچھ وہیں نماز پڑھ کر گھروں کو سدھارتیں ۔ مجھے یاد ہے انہی دنوں اماں کی طبیعت خراب ہو ئی دوا دارو تو کی ہے لیکن اماں نے اپنا چاندی کا ایک بھاری سا ہار مجھے دے کر کہا کہ میں یہ ہار فروخت کر کے اس سے ملنے والی رقم لاہور میں بننے والی منصورہ مسجد جو ان دنوں زیر تعمیر تھی کو چندہ کے طور پر منی آرڈر کرا دوں ۔اس زمانے میں چا ندی دس بارہ تولے ہو گی یا اس سے بھی کم مجھے اچھی طرح یاد نہیں مگر مجھے یہ یاد ہے کہ ہار چا لیس روپے کا بکا اور میں نے وہ رقم منصورہ لا ہور منی آرڈر کرا دی ۔ چند دنوں کے بعد جماعت اسلامی بیت المال کی طرف سے چندے کی جو رسید مجھے مو صول ہو ئی وہ فقیر حسین ناظم ما لیات کی طرف سے جاری ہو ئی تھی وہ رسید آج بھی میرے پاس مو جود ہے۔

اماں کی بیماری کے ذکر پر یاد آیا ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ اماں کو “ٹی بی” ہے اس زما نے میں ٹی بی ایک مہلک اور ناقابل علاج مرض سمجھی جا تی تھی مجھے اماں کی اس بیماری کا علم اس وقت ہوا جب ابا اماں کا چیک اپ کرانے تھل ہسپتال لے گئے ان دنوں ہم تحصیل روڈ پر ایک چھوٹے سے گھر میںبطور کرایہ دار رہائش پذیر تھے ۔اماں لیڈی ڈاکٹر کے کمرے میں چلی گئیں اور ابو کے ساتھ میں بھی ڈاکٹر کے کمرے کے باہر برآمدے میں پڑی بنچ پر بیٹھ گیا ۔اماں جب واپس آ ئیں تو انہوں نے ابا سے کہا کہ لیڈی ڈاکٹر نے آپ کو بلایا ہے ابھی اماں ابا سے بات کر ہی رہی تھیں کہ سفید کوٹ پہنے ایک خاتون کمرے سے باہر آئیں اور انہوں نے ابا سے کچھ کہا اس دن میں نے پہلی بار کسی لیڈی ڈاکٹر کو دیکھا تھا ۔ڈاکٹر صاحبہ اور ابا میں کیا با تیں ہو ئیں یہ تو مجھے یاد نہیں مگر اس کے بعدہمارے غریب سے کچے گھر میں”ایمر جنسی “نافذ ہو گئی جتنا ممکن ہو سکا اماں کا علاج کرایا اس وقت غالبا مرض ابتدا ئی سٹیج پر تھا اس لئے علاج سے خا صا افا قہ ہوا ۔ اماں بظاہرقدرے بہتر ہو گئیں مگر تنگد ستی اور ھالات کے جبر نے اماں کی صحت کو گھن لگا دیا تھا ۔ سلا ئی مشین کی مشقت اور کبھی کبھار کے علاج نے اماں کو پوری طرح صحت یاب نہیں ہو نے دیا ۔ وفات سے قبل اماں ڈاکٹر شیر محمد خان کے زیر علاج بھی رہیں ان دنوں ڈاکٹر شیر محمد خان جماعت اسلامی کے رکن ہوا کرتے تھے اور میں حلقہ متفقین کوٹ سلطان کا ناظم ۔ گو اماں ڈاکٹر صاحب کی پرا ئیویٹ مریضہ تھیں مگر ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف ہم سے کبھی فیس نہ لی بلکہ گا ہے بگا ہے ادویات بھی خود مہیا کر دیا کرتے تھے۔

بیماری کے آخری دنوں میں اماں نے صحت یا بی کے لئے دعا کی غرض سے مولانا مودودی کو صحت یا بی کے لئے خط تحریر کرایا جس کے جواب میں مو لانا نیمیرے نام لکھے گئے اپنے خط میں تحریر کیا “محترمہ کی بیماری کا علم ہوا مرکز کے تمام رفقاء ان کی صحت کے لئے دعا گو ہیں “مگر جب مو لانا خط مجھے مو صول ہوا اماں اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں میں نے مو لانا کو اماں کی رحلت سے با خبر کرتے ہو ئے لکھا کہ مو لانا آپ کی دعا ئیں قبول ہو چکی ہیں اماں اس دنیا کے تمام آلام و مصائب کو شکست دیتے ہو ئے اپنے رب کے حضور پیش ہو چکی ہیں ۔اماں بڑی متوکل اور خوددار تھیں اپنے رب پر انحصار ان کی بڑی خو بی تھی برے سے برے وقت کا مقا بلہ کر نے سے بھی نہیں گھبراتی تھیں ۔ گو بیماری نے انہیں اندر سے کھو کھلا کر دیا تھا مگر انہوں نے بڑے اعتماد اور وضع داری کے ساتھ زند گی کا سفر پورا کیا ۔وہ جمعہ کادن تھا جب اماں فوت ہو ئیں مجھے اس دن کا ایک ایک لمحہ بڑی صراحت کے ساتھ یاد ہے ۔وہ صبح بڑی اجلی اور روشن تھی سات اٹھ بجے ہوں گے جب اماں نے مجھے اپنے پاس بلا یا اور کہا کہ دروازے سے آنے والی دھوپ انہیں تنگ کر رہی ہے انہیں سا ئے میں لے چلوں میں نے اماں کو سہارا دے کر ایک اور چارپا ئی پر لٹا دیا ۔ اس وقت مجھے اماں بڑی ترو تازہ اور صحت مند لگیں ۔ مجھے ایسے لگا جیسے اماں کے کمزور گال بھر چکے ہوں اور چہرے کا سانولا رنگ بھی سر خی مائل ہو چکا ہے ۔ میں نے بے سا ختہ کہا ۔ اماں دھیرے سے مسکرائیں اور بو لیں” آج جمعہ کا دن ہے نہا کر کپڑے بدل لو ” یہ کہہ کر انہوں نے اپنی موند لیں میں نہا دھو کر جمعہ کی نماز پڑ ھنے چلا گیا اس دن مو لا نا علی محمد مظا ہری مسجد میں آ ئے ہو ئے تھے اور خطبہ جمعہ بھی انہوں نے ہی دینا تھا ۔ میں سنتیں پڑھ کر خطبے کے انتظار میں بیٹھ گیا ۔دفعتا دل بڑا پر یشان ہوگیا جی چا ہا کہ بھاگ کر گھر پہنچوں اور اماں کو دیکھ آ ئوں ، بڑا ضبط کیا مگر بے کلی بڑ ھتی گئی ۔ خطبہ جمعہ میں ابھی دیر تھی میں خا مو شی سے اٹھا اور گھر چلا آیا۔

اماں بستر پر لیٹے زیر لب کچھ پڑھ رہی تھیں اور بہت سی عورتیں چارپا ئی کے گرد جمع غا لبا سورة یسین پڑ ھنے میں مصروف تھیں ،اماں کے پاس عورتوں کا جمع ہو نا میرے لئے کو ئی انہو نے بات نہیں تھی جب سے ہو ش سنبھالی تھی اماں کے گرد میں نے ہمیشہ کام کاج کرتی ، کلام پاک پڑ ھتی عورتوں کا مجمع ہی دیکھا تھا ۔مجھے دیکھتے ہی اماں نے اشارے سیاپنے پاس بلایا میں ان کے قریب ہوا تو نحیف سی آواز میں پو چھا ۔ نماز پڑھ آ ئے ہو ؟ میں نے نفی میں سر ہلایا تو بو لیں جائو نماز پڑھ آ ئو جلدی ۔ میں نے اماں کو دیکھا وہ مجھے بہت کمزور سی لگیں ، بہت ہی کمزور ، نہ جانے کیوں دل چاہ رہا تھا کہ اماںکے سو کھے لبوں پر اپنا چہرہ رکھ دوں ، سینے میں چھپ جائوں اور بلک بلک کے رونا شروع کر دوں میں آ نکھیں بھرنے لگی ہی تھیں کہ مجھے لگا کہ اماں نے ایک بار پھر مجھے کہا ہو کہ نماز پڑھ آ ئو جلدی ۔ اور یوں میں بغیر کچھ کئے اور بغیر کچھ کہے خامشی سے ضبط کئے اماں کو دیکھتے ہو ئے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا۔

اماں سے پہلے میں نے کبھی کسی کو مرتے نہیں دیکھا تھا اور اماں کی موت کا تو تصور ہی نہیں تھا میں یہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ اماں مر سکتی ہیں مگردل میں ایک جوار بھا ٹہ سا لگا تھا ایسے جیسے کہ دل بس ڈوب سا رہا ہوں ۔ نماز کے بعد درس قر آ ن تھا میں بھی بیٹھ گیا بس اس لالچ میں کہ درس قرآن کے بعد مو لوی صاحب سے اماں کی صحت یا بی کے لئے دعا کرائوں گا میری درخواست پر مو لوی صاحب نے اماں کی صحت یابی کے لئے دعا منگوائی میں نے بھی بڑے خلوص اور درد مندی سے اللہ میاں سے اماں کی صحت کے لئے دعا ما نگی دعا مانگتے ہو ئے نہ جانے کیوں بار بار میری آ نکھیں ابلی جا رہی تھیں۔

ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد گھر پہنچا تو سماں بدلا ہوا تھا چھوٹے سے کمرے میں رش بڑھ چکا تھا عورتوں کے سا تھ ساتھ خاندان کے کچھ مرد بھی کمرے میں نظر آ رہے تھے کچھ عورتیںگھٹے گھٹے انداز میں رو رہی تھیں یہ سب دیکھ کر مجھے بہت عجیب سا لگا مجھے محسوس ہوا جیسے کچھ انہو نی ہو نے لگی ہے جو نہی میں نے دروازے پر قدم رکھا مجھے لگا میں نے دیکھااماں کی نظریں دروازے پر لگی تھیں جیسے کسی کی منتظر ہوں ایسے لگا جیسے اماں کی بس آ نکھیں ہی زندہ ہیںچمکتی ،روشن اور جاندار آ نکھیں ۔ مجھے دیکھتے ہی اماںنے ایک بھر پور نظر مجھ پر ڈالی اور آ نکھیں بند کر لیں اور سرہانے کھڑے ما مے نے انا للہ و انا الیہ راجعون کہہ کے اماں کے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ دیا ۔میں نے اپنے اس کالم کا عنوان”ماں ولی “لکھا تو بہت سے سننے والوں نے اس بارے استفسار کیا کہ” ماں ولی” ہی کیوں ؟اب آپ ہی بتا ئیں کہ جب ایک ماں دم آ خر بھی اپنے اکلوتے بیٹے کو سینے سے لگانے اور پاس بٹھا نے کی بجائے نماز پڑھنے کے لئے مسجد بھیج دے اور پھر آخری سانس تک اس کے آنے کا انتظار کرے ، اس ماں کے ولی ہو نے میں کس کو کلام ہو سکتا ہے ؟ یہ” ماں ولی” کی ہی تعلیم وتر بیت کا نتیجہ ہے کہ مجھ سا بے خانماں بھی اپنے قد سے بڑی با تیں کر جاتا ہے۔

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی