تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ : سیاستدانوں کا ردعمل

Sit

Sit

تحریر : محمد صدیق پرہار
دھرنا قائدین اور حکومت کے درمیان معاملات طے ہونے کے بعد تحریک لبیک یارسول اللہ کے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی نے دھرناکے مقام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے معاملہ میں ذاتی دلچسپی لے کرجواںمردی کامظاہرہ کرنے اورملک کوبحرانی کیفیت سے نکالنے پرآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور مطالبات سننے کے بعدان کے حل کی یقین دہانی کرانے پرڈی جی رینجرکاشکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ زاہدحامدکے استعفیٰ کے بارے میںمعلوم ہوچکاہے لیکن یہ ہمارے خون کی قیمت نہیں ہے جوحکومتی آپریشن کے دوران بہایاگیاہماری آنے والی نسلیں بھی اس خون نہیں بھلاسکیں گی۔علامہ خادم حسین رضوی نے مطالبات کے بارے میںبتاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہمارے کارکنوںکورہاکرنے اورڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی اوربہترین علاج کے لیے وزرات داخلہ نے یقین دہانی کرائی ہے۔

تحریک لبیک یارسول اللہ کے دوکارکنان بھی تحقیقاتی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔علامہ خادم حسین رضوی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن ایکٹ ترامیم کے ساتھ حلف نامہ لگادیاگیا ہے اوراس کی کاپی بھی ہمیں پہنچادی گئی ہے۔وفاقی اورصوبائی حکومت نے جشن عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی تیاریوںمیں ہمارے مطالبات منظورکیے ہیں۔اس کے علاوہ حکومت اوردھرناقائدین میں جومعاہدہ طے پایااس کے مندرجات بتایا گیا ہے کہ تحریک لبیک ایک پرامن جماعت ہے جوکسی قسم کے تشدداوربدامنی پریقین نہیں رکھتی ہم ختم نبوت اورتحفظ ناموس رسالت میں قانونی ردوبدل کے خلاف اپنانکتہ نظرحکومت کے پاس لے کرآئے مگرحکومت نے مسئلہ حل کرانے کی بجائے طاقت کااستعمال کیا۔ اکیس دن تک مسئلے کومذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جارہے تھے۔وفاقی وزیرقانون زاہدحامدکے مستعفی ہونے کے بعدہماری جماعت ان کے خلاف کسی قسم کافتویٰ جاری نہیںکرے گی۔ہماری جماعت مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت پاکستان الیکشن ایکٹ سال دوہزارسترہ میں سیون بی اورسیون سی کومکمل متن مع اردوحلف نامہ میں شامل کرے قائدایوان راجہ ظفرالحق کی انکوائری رپورٹ تیس دن میںمنظرعام پرلائی جائے اس میںجوبھی ذمہ دارہواس کے خلاف ملک کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔چھ نومبرسے دھرنے کے اختتام تک گرفتارتمام کارکنوں کوضابطہ کارروائی کے مطابق تین دن میںر ہاکیاجائے اوران پرمقدمات اور نظر بندیاں ختم کی جائیں۔پچیس نومبرسال دوہزارسترہ کوہونے والے حکومتی ایکشن کے خلاف ہماری جماعت کواعتمادمیں لے کرایک انکوائری بورڈ تشکیل دیاجائے جو تمام معاملات کی چھان بین کرکے حکومت، انتظامیہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کاتعین کرکے تیس روزکے اندرانکوائری مکمل کرے اورذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کاآغازکیاجائے۔چھ نومبردوہزارسترہ سے دھرنے کے اختتام تک جوسرکاری اورغیرسرکاری املاک کونقصان پہنچاہے اس کاتعین کرکے ازالہ وفاقی اورصوبائی حکومت اداکرے۔حکومت پنجاب سے متعلقہ جن نکات پراتفاق ہواہے ان پرمن وعن عمل کیا جائے۔

پنجاب ہائوس میں مشاورتی اجلاس میں نواز شریف نے فیض آباددھرناختم کرانے میں سول انتظامیہ کی ناکامی پرسخت برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ دھرناختم کرانے کے لیے کوئی حکمت عملی کیوں نظر نہیںآئی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق زاہدحامدکے استعفیٰ پرمسلم لیگ ن میں شدیداختلافات سامنے آگئے ان لیگ کی سنیئرقیادت کے اہم ارکان زاہدحامدکے استعفے کے حق میں نہیں تھے۔سنیئرارکان کاخیال تھاکہ زاہدحامدکااستعفیٰ حکومت کونیچادکھانے کے مترادف ہے مگرشہبازشریف نے ایک گھنٹے کی طویل ملاقات سے زاہدحامدکوملکی مفادکی خاطرمستعفی ہونے پرآمادہ کرلیا۔شہبازشریف کاکہناتھا کہ یہ ملکی معاملہ ہے ملک کونقصان نہیں ہوناچاہیے ۔اگرایک وزیراستعفیٰ دے دے تواس سے فرق نہیں پڑتامگرملکی حالات خراب نہیںہونے چاہییں۔جب کہ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں طے پایاتھاکہ ظفرالحق رپورٹ کے مطابق دووزیراستعفیٰ دیں گے۔کیونکہ دھرنے والوںکامطالبہ زاہدحامدکامستفی ہوناتھاتواسی لیے دوسرے وزراء کوبچانے کے لیے زاہدحامدکی قربانی دیناپڑی۔اورپارٹی معاملات معمول پرلانے کے لیے شہبازشریف تگ ودوکررہے ہیں۔

سرکاری ٹی وی سے انٹرویومیں وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال کاکہناتھا کہ حکومت کے اندراورحکومت سے باہرموجودقیادت کافرض ہے کہ وہ دھرنے سے ہونے والے نقصان کاازالہ کریں اورملک کودوبارہ امن کے راستے پرلے کرجائیں جس قانون کے حوالے سے تمام معاملہ ہوااس کوتمام جماعتوںنے مل کرپاس کیالیکن چندجماعتوںنے اس پرسیاست کی اوران جماعتوںنے معاملے سے خودکوالگ کرکے حکومت کوپھنسانے کی کوشش کی۔ان سیاسی جماعتوںنے تماشائیوں والاکرداراداکیا۔دھرناہمارے کیے بحیثیت قوم بہت سارے سوالات چھوڑ کرجارہا ہے۔دھرنے کے دوران لوگوںکواشتعال دلایاگیااورگھروں پرحملے کیے گئے۔جن کے گھروں پرحملے کئے گئے وہ بھی مسلمان اورختم نبوت پریقین رکھتے تھے ۔ احسن اقبال نے کہاکہ سیاسی قیادت کی اونرشپ کے بغیرآپریشن کیاگیا ۔ایگزیکٹوکوذمہ داریوںکی ادائیگی کے لیے موقع دیاجاناچاہیے تھا۔جب دوسرے ادارے ایگزیکٹوکوموقع نہیں دیں گے توتوکارکردگی بہترنہیں ہو سکتی۔

وفاقی وزیرداخلہ کاکہناتھا کہ سیاستدانوںکافرض تھا کہ زاہدحامدکی پشت پرکھڑے ہوتے، یہ اکیلے زاہدحامدکی ذمہ داری نہیں تھی ، وہ صرف پیغام رساں تھے۔زاہدحامدپارلیمانی کمیٹی کے مسودے کوایوان میں پیش کرنے کے پابندتھے۔وزیرداخلہ نے کہا کہ میرے گھرکے باہرنارووال میں مظاہرہ کیاگیا اورحملے کی کوشش کی گئی اس کی قیادت پی ٹی آئی کے ضلعی صدرکررہے تھے۔دھرنے والوں سے جوباتیں طے ہوئی ہیں ان پرعمل ہورہاہے۔ہم حالت جنگ میں ہیں،دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔پاکستان کے خلاف بیرونی سازشیں کی جارہی ہیں۔ایسے اقدامات سے دشمن خوش ہوتے ہیں۔مظاہرین کے ساتھ معاہدے کوافسوس ناک قراردیتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا کہ فیض آباددھرنے کا اختتام نہ خوشگوارہے اورنہ ہی اس پرفخرکیاجاسکتاہے۔معاہدے کی شقیں دونوں فریقین نے مل کرترتیب دیں کچھ نکات مظاہرین نے دیے اورکچھ حکومت نے ۔دونوں جانب سے تجاویزکورکھ کرمعاہدے کاڈرافٹ تیارکیاگیا۔جب کہ مظاہرین کے خلاف ایکشن میری اجازت سے نہیںہوابلکہ ضلعی انتظامیہ نے عدالتی احکامات پرعملدرآمدکے لیے کارروائی کی اطلاع دی۔دھرنے کی صورت حال خراب کرنے میں چندناکام سیاستدانوںکابھی ہاتھ ہے۔ سول وعسکری اداروںنے ملک کوتباہی سے بچالیا۔ نجی ٹی وی کے ایک پرگرام میں گفتگوکرتے ہوئے راجہ ظفرالحق نے کہا کہ دھرنے والوںسے مذاکرات کی ذمہ داری مجھ پرنہیں ہے ۔

دھرنے والے چونکہ مجھ سے بات کرناچاہتے تھے اس لیے مذاکرات کے لیے ابتدائی قدم اٹھایاتھادھرنے والوںکواپنے گھربلایاجہاں احسن اقبال کوبھی بلا لیا تھا اس کے بعدراولپنڈی اوراسلام آبادکے بڑے مشائخ کوبھی بلالیاگیا،طویل نشست کے بعدکمیٹی کے قیام کافیصلہ ہوا۔کمیٹی کادھرنے والوں سے رابطہ ہوتا رہا لیکن معاملات آگے نہیں بڑھے۔ن لیگ کی طرف سے دھرنے والوں سے مذاکرات کوکسی خاص شخص نے لیڈنہیں کیا۔وزراء کے استعفوں سے معاملہ حل ہوتا ہے تواس میںکوئی حرج نہیں۔بعض لوگوںکوخدشہ ہے کہ ایک دووزراء نے استعفے دے دیے تومطالبات بڑھتے جائیں گے۔چیئرمین سینٹ رضاربانی نے وزیرداخلہ احسن اقبال کی غیرحاضری پرشدیدبرہمی کااظہارکرتے ہوئے انہیں فورا ًایوان میں طلب کیااورکہا کہ وزیرداخلہ عدالت کے بلانے پرپندرہ منٹ میں پہنچ جاتے ہیں تویہاں کیوں نہیںآئے۔وزیرمملکت طلال چوہدری نے بتایا کہ وزیرداخلہ جہازمیں ہیں اوراسلام آبادسے باہرجارہے ہیں۔جس پرچیئرمین نے استفسارکیا کہ وزیراعظم کہاں ہیں توبتایا گیا وہ سعودی عرب میں ہیں۔چیئرمین سینٹ نے طلال چوہدری کوجھاڑپلاتے ہوئے کہا کہ ریاض اجلاس اہم تھا یاکہ ملک کی صورت حال اہم تھی۔کیسی روایت قائم کی گئی ہے۔

چیف آف آرمی سٹاف نے مداخلت کی۔فوج کوآئینی شق ٢٤٥ کے تحت طلب کیااوراس کے لیے سال دوہزارتیرہ کاپرانانوٹی فکیشن جاری کردیاگیا۔ شہداء دھرناکواٹھانے کے لیے معاہدہ ہواہے۔ارکان پارلیمنٹ کے گھروں پرحملے ہوئے ہیں۔حکومت خودسسٹم چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔سینٹ کااجلاس جاری تھاتواسے اعتمادمیںلیناچاہیے تھا۔وزیرداخلہ کیء پاس پندرہ منٹ بھی نہیں ہیں کہ وہ سینٹ آکرآگاہ کردیتے۔وہ عدالت جاسکتے ہیں پارلیمنٹ میںکیوں نہیں آسکتے۔رات کی تاریکی میں معاہدہ کیاگیا،ہائوس کوکسی نے اعتمادمیں نہیں لیا۔انتہائی خطرناک روایت قائم ہوئی ہے۔سیاستدانوں کے سیکٹرکمانڈرزکوارکان پارلیمنٹ استعفے بھجوارہے ہیں۔ان لوگوں کے ساتھ کیسے نمٹاگیا ہائوس کوکیوں اعتمادمیںنہیںلیاگیا۔چیئرمین سینٹ رضاربانی کاکہناتھا کہ حکومت کوٹھیکے پردے دیاجائے۔ریاض اجلاس اہم تھا یاپاکستان کی داخلی صورت حال۔وزیراعظم کوملک سے باہرجانے کی بجائے سینٹ میں آناچاہیے۔وزیرقانون مستعفی ہوچکے ہیں ، سول حکومت نے پسپائی اختیارکی۔سویلین کی طاقت پارلیمنٹ ہے مگرحکومت اس کی اہمیت تسلیم کرنے کو تیارنہیں ہے۔اگرتوہین عدالت کاڈرہے توتوہین پارلیمنٹ بھی ہے میں بھی نوٹس جاری کرسکتاہوں۔سینٹ میں قائدایوان راجہ ظفرالحق نے کہا کہ جوبھی ہوایہ بدقسمتی ہے۔چیئرمین سینٹ رضاربانی نے اجلاس کورولنگ دی کہ کسی بھی صورت میں جمہوری نظام پرآنچ نہیں آنے دی جائے گی۔موجودہ حالات میں ریاستی عملداری کوزک پہنچی ہے۔

تمام سیاسی قوتوںکومل کراس کوبحال کرنے کی کوشش کرنی ہے جوٹرینڈابھرکرسامنے آئے ہیں وہ ریاست اورجمہوریت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔یہ رولنگ انہوںنے ایوان بالامیں ارکان سینٹ کے فیض آباددھرنے کے نتیجہ میں پیداشدہ صورت حال پرنکتہ ہائے اعتراضات کے بعدجاری کی۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ دین کے نام پرسیاست خطرناک ہے۔ہم نے اپنے دورمیںمذہب اورسیاست کوالگ رکھنے کی کوشش کی تھی۔سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کاکہناہے کہ دھرناختم کرانے کاکریڈٹ حکومت کولیناچاہیے تھا۔پی پی دورمیں غلطی کرنے والے وزراء سے استعفیٰ لے لیاجاتاتھا۔اب صورت حال مختلف ہے۔خالدرانجھاکہتے ہیں کہ انتخابی قوانین بارے ترمیم میں ختم نبوت کے حوالے سے تبدیلی غلطی نہیں بلکہ ہوشیاری تھی ۔ پارلیمان میںجتنے بھی قوانین بنتے ہیں ان میں کئی دفعہ ایساہوتاہے کہ آئین میں ترمیم کرتے وقت اس میں اچھی شق کے ساتھ بری شق بھی ڈال دی جاتی ہے تاکہ وہ پاس ہوجائے اوراس طرف کسی کادھیان نہ جائے۔کیونکہ وہ شق اکیلے پاس نہیںہوپاتی۔جیسے الیکشن قانون میں ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کوڈال د یا گیا ۔چونکہ تمام لوگوں کی نظریں الیکشن قوانین پرتھیں اس لیے ان کاخیال یہ تھا کہ کسی کوپتہ چلے بغیریہ شق بھی پاس ہوجائے گی لیکن یہ گزرنہیں پائی بلکہ پکڑی گئی ۔یہ جومذاق انہوںنے کیااچھانہیںتھا۔جتنے بھی لوگ اس قانون میں ترمیم کے حوالے سے مشاورت میں شامل تھے ان سب کوپکڑناچاہیے اوریہ بات یادرکھنی چاہیے کہ جوقانون بھی پاس ہوتاہے اس میںپوری کابینہ شامل اوراس کی ذمہ دارہوتی ہے۔میرے خیال میں ختم نبوت کے حوالے سے ١٩٧٤ء میں جوشق پاس ہوئی تھی اس کویہ کمزورکرناچاہتے تھے۔یہ اس کاپہلامرحلہ تھا۔جس کے بعداس میںمزیدترامیم کاراستہ کھل جاتا۔یہ ایک دانستہ عمل تھا۔پارلیمان کی جوکارروائی ہوتی ہے اس میں ڈرافٹس مین بغیرپوچھے کوئی چیزنہیں ڈالتا۔

تحریک لبیک یارسول اللہ اورحکومت پاکستان کے درمیان معاہدے اورفیض آبادمیں دھرنے کے خاتمے سے یوں لگتاہے کوئی بھی خوش نہیں ہے۔کسی کو پارلیمنٹ کی ساکھ خطرے میںدکھائی دیتی ہے توکوئی آپریشن کی ناکامی پرنالاں ہے۔کوئی حکومت کی طرف سے پسپائی اختیارکرنے پرناخوش ہے توکوئی دھرنے والوں سے رات کی تاریکی میں مذاکرات کرنے پرمعترض ہے۔ایسے لگتاہے کہ دھرنے کے خوش اسلوبی سے خاتمے اوردھرنے کی وجہ سے عوام کی مشکلات ختم ہونے کی کسی کوخوشی نہیں ہے۔چیئرمیں سینٹ رضاربانی کوشکوہ ہے کہ ایوان کوآگاہ کیوں نہیں کیاگیا جب کہ احسن اقبال یہ شکوہ کرتے ہیں کہ سیاستدانوں نے سابق وزیرقانون زاہد حامدکوبے یارومددگارچھوڑدیا۔افسوس کی بات تویہ ہے کہ ختم نبوت کے قانون میںنقب لگائی گئی اس کی توبات ہی کوئی نہیںکرتا۔ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کے ذمہ داروں کے خلاف بروقت کارروائی میں عمل لائی جاتی تویہ حالات نہ دیکھناپڑتے۔کسی نے ختم نبوت قانون میں ترمیم کے ذمہ داروں کی مذمت نہیں کی۔کسی سیاستدان نے ختم نبوت قانون میں ترمیم پرافسوس یاشرمندگی کااظہارنہیںکیا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تحریک لبیک یارسول اللہ کے ساتھ معاہدہ کرنے اورآپریشن کی ناکامی سے ریاست کی رٹ کمزورہوئی ہے۔لیکن یہ پہلاموقع نہیں ہے ۔اس سے پہلے بھی متعددبار پارلیمنٹ کی رٹ سوالیہ نشان بن چکی ہے۔راجہ ظفرالحق رپورٹ کی روشنی میںذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تواس سے شکوک وشبہات اوربڑھیں گے جوکسی بھی نئے سیاسی بحران کاپیش خیمہ ہوسکتے ہیں ۔ اس لیے ذمہ داروںکوبے نقاب کرنااوران کے خلاف کارروائی کرناضروری ہے۔

Muhammad Siddique Prihar

Muhammad Siddique Prihar

تحریر : محمد صدیق پرہار