وسعت اللہ خان کی وسعستیں

Columnist

Columnist

تحریر: میر افسر امان
بی بی سی کے معروف و مشہور کالم نگار کی وسعتوں کا کیا کہنا کہ وہ کہاں کہاں تک مار کرتیں ہیں۔ پہلے کچھ ان سے تعارف کی بات ہو جائے۔ ان سے ہماراغائبانہ تعارف ایک ویب کی طرف سے اس کے لکھاریوں کی ای بکسز کی روہنمائی کے پروگرام کو ترتیب دیتے وقت ، رائٹرز کلب تنظیم کے جنرل سیکرٹیری جن کاتعلق اسلامی ذہن رکھنے والے لکھاریوں سے ہے کے فون کرتے وقت ہوا تھا۔ سیکرٹیری نے ان کوای بکسز کی تقریب جو آرٹ کونسل کراچی میں منعقد ہوئی تھی میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ بوجہ وہ اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ بل مشافہ تعارف اسلامی ذہن کے ہی ایک مستقل لکھاری کی ایک کتاب کی رونمائی، جو فاران کلب کراچی میں ہوئی تھی میں ہوا۔کتاب اور کتاب تحریر کرنے والی شخصیت کے بارے مزاح بھری تقریر سن کو ان سوچ سے آگاہی ہوئی۔ ہم بھی اسلامی ذہن کے لکھاریوں کی فہرست کے ایک ادنہ سے لکھاری ہیں۔اوپر درج شدہ دونوں واقعات کی وجہ سے ہمارے ذہن میں ان کا تعارف بھی ایک اسلامی ذہن رکھنے والے صحافی کے طور پر ہوا۔ اس لیے دل میںاس کے کالم پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ سائوتھ ایشا پلس ویب میں ان کا ا یک طویل مضمون، جو جنگ عظیم پر تھا پڑھنے کا اتفاق ہوا یہ مضمون معلومات کا خزانہ ہے۔ یوم دفاع پاکستان کے حوالے ١٩٦٥ء کی جنگ پر بھی ان کا مضمون دیکھا جس میں ان کی سوچ کی وسعتوں کا اندازہ ہوا۔

روز انہ کی بنیاد پر اخبارات میں اپنے شائع شدہ مضامین کو دیکھنے کی عادت کی وجہ سے کچھ اخبارات میں ان کے مضمون کو بھی دیکھنے کا موقعہ ملتا رہتا ہے۔ ویسے بی بی سی اردوویب پر تو یہ ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ تمام مضامین کافی محنت سے تیار کرتے ہیں۔ جن پر ان کی جتنی بھی تحریف کی جائے وہ کم ہو گی۔ہمیں جس چیزپر ان کے مضمونوں کے کچھ پہراگرافوں پر پریشانی ہوئی جو پاکستان اور تحریک پاکستان کے دشمنوں کے خیالات سے ملتے نظر آتے ہیں ۔ان میں کچھ ہماری کم فہمی کا بھی ضرو ر حصہ ہو گا مگر کیونکہ ہم ایک عام فہم سے اسلام ،پاکستان اور نظریہ پاکستان سے محبت رکھنے والے لکھاری ہیں۔لہٰذا ہماری پریشانی بھی فطری ہے۔ اگر قارئین کے سامنے اس کا مقدمہ پیش کرنا ہو تو چند دن پہلے ملی یکجہتی کونسل کی ملکی حالات پر میٹنگ ہوئی تھی۔ اسی میٹنگ کے متعلق ان کا وسعتوں بھرا مضمون”اخبار بینی صحت کی لیے اچھی ہے” ہی رکھ لیتے ہیں۔ملی یکجہتی کونسل نے اپنی میٹنگ میں وزیر اعظم پاکستان کے لبرل والے بیان کہ” ہمیں لبرل اور جمہوری پاکستان چاہیے” شہید ممتاز قادری ،تحفظ خواتین بل اور پاکستان کا اسلامی تشخص بگاڑنے پر سیر حاصل بعث کی، جو اخبارات میں شائع ہو چکی ہے اور ہر خاص و عام نے پڑھی بھی ہو گی۔انہوں نے اپنے مضمون میں ملی یکجہتی کونسل کے اعلانیہ کی شک وار اپنی وسعتوں کے ذریعے روشنی ڈالی۔

pakistan

pakistan

کہتے ہیں کیا ان حضرات کو لبرل کے معانی معلوم ہیں؟لبرل کے معانی ہے اپنے اپنے مذہب پرقائم رہو دوسرے کے مذہب کو مت چھیڑو۔ قربان جائوں اس تشریح پر جو جناب نے کی ہے۔اول تو یہ تشریح ان لوگوں کو بتائی جا رہی ہے جنہوں نے سالہ سال اپنی زندگیاں لبرازم کے مخالفوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے گزاری ہے۔ یہ لوگ اسلامی نظام کے مقابلے میں لفظ لبرل ازم کو استعمال کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر عوام کی ذہنی تربیت بھی کرتے رہے ہیں۔ جبکہ اسلامی نظام کے مخالف اور لبرازم کے پجاری ، تحریک پاکستان کے دوران پاکستان کا مطلب کیا”لاالہ الا اللہ” کا نعرہ دینے والے قائداعظم کی صرف ایک ١١ اگست ١٩٤٧ء کی تقریر کی رٹ لگانے والے لبرل حضرات محترم قائد عظم کی ٩٠ سے زائد تقریریں جو اسلام اور نظریہ پاکستان کے متعلق کی تھیں کا بلیک آوٹ کر دیتے ہیں۔کیا مضمون نگار کی لبرل کی تعریف قائد اعظم کی تقریروں سے لگا کھاتی ہے؟ نہیں ہر گزً نہیں۔ ٢٦مارچ ١٩٤٨ء چٹاگانگ میں قائد نے فرمایا تھا” اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا” ۔

ملی یکجہتی کونسل والوں کو مذید کہا کہ انٹرنیٹ وغیرہ پر دنیا کی خبریں بھی پڑھ لیا کریں تا کہ تازہ حالت سے آگاہ رہیں۔جہاں تک ہمیں معلوم ہے ملی یکجہتی والوں کی کئی دہایوںکی کوششوں کی محنت کے نتیجے میں، دنیا کے تمام ملکوں میں ان کی فحال تنظیمیں اور خیر خواہ موجود ہیں جو ان کو پل پل کی خبریں پہنچاتے رہتے ہیں۔ مضمون نگار آئین پاکستان، پنجاب حکومت کے تحفظ خواتین بل اور ممتاز قادری شہید کے بارے میں بھی حکومت کی ہم نوائی کرتے نظر آتے ہیں۔ صاحبو! جب سے وزیر اعظم صاحب نے لبرل پاکستان کی بات کی ہے اس کے پیچھے نام نہادلبرل لکھاری اور دانشوروں نے قوالی گانا شروع کر رکھی ہے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگائے پاکستان کو لبرل ثابت کرنے کی بے سود کوششیں کرتے ہیں۔ شاید مضمون نگار کی وسعت اُدھر نہیں گئی۔جب سے وزیر اعظم نے علامہ اقبال کی سالانہ چھٹی ختم کی ہے یہ لکھاری علامہ اقبال کا کردار مسخ کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ جناب کو شاید اس کی بھی خبر نہیں لگی ہو گی ورنہ اس پر بھی ضرور کچھ نصیحت فرماتے۔ یہ نام نہاد لکھاری ٹی وی پر شوز

Allama Iqbal

Allama Iqbal

پر یہ کہتے اور اخبارات میں لکھتے ہوئے سنے گئے کہ علامہ اقبال تو مقامی شاعر تھے خواہ مخواہ ان کو بین القوامی شاعر بنادیا گیا۔ ان میںایک تویہاں کہتے ہیں کہ ان ہی وجہ سے لوگ جہاد کی طرف مائل ہوئے اور ملک کانام بدنام ہوا ہے۔علامہ اقبال کی سالانہ چھٹی ختم کر کے ہولی،دیوالی اور ایسٹر کی چھٹیاں کرنا کیا یہ لبرل ایجنڈا نہیں ہے تو کیا ہے؟کاش کہ ہمارے مضمون نگار ملی یکجہتی کونسل کو لبرل کے معانی بتانے کی بجائے وزیر اعظم کو اس کے بارے میں بتاتے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا ۔ اس کا آئین اسلامی ہے۔یہ اسلامی جمہیویہ پاکستان ہے۔ جس نے علامہ اقبالنے پاکستان کا خواب دیکھا تھا اس کے نام سے پاکستان میں چھٹی ختم کر کے پاکستان کے اسلامی تشخص کو نقصان نہ پہنچائو۔ نہ جانے لبرسازم کو پسند کرنے والے مضمون نگارکی بی بی سی سے وابستگی کی مجبوری ہے کہ وہ اسلامی سوچ میں سے کچھ کچھ سیکولر سوچ کی وسعت بھی نکال لیتے ہیں۔انہیں اپنی ان مخصوص وسعتوں کے ینجرے سے باہر نکل کر قرآن اور سنت کے ذخیرے سے تازہ ہوا لینا چاہیے تاکہ ان کا کچھ فاہدہ ہو۔ دلوں کے حال تو اللہ ہی جانتا ہے یا پھر مضمون نگار ہی جانیں کہ کیا معاملہ ہے۔اللہ مملکت خداداد پاکستان میں اسلامی غلبے کو تقویت پہنچائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسر امان