ایم کیو ایم پر پابندی اور مشاورتی کمیٹی کی تجویز

MQM Office Seal

MQM Office Seal

تحریر : محمد اشفاق راجا
حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ کے حوالے سے جو جائزہ کمیٹی تشکیل دی تھی، اس نے طویل غور کے بعد یہ رائے دی ہے کہ متحدہ پر پابندی نہ لگائی جائے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں متحدہ پاکستان نے خود کو لندن سے لاتعلق کرلیا ہے، اسے موقع دینا چاہیے تاہم نگرانی ضرور رکھی جائے، جہاں تک کمیٹی کا تعلق ہے تو یہ ان مطالبات کی روشنی میں بنائی گئی تھی جو 22اگست کے خطاب کے بعد عوامی سطح پر کیا جارہا تھا، تاہم کراچی رابطہ کمیٹی نے تیزی سے بدلتے حالات کے مطابق فیصلے کئے، پہلے تقریر سے لاتعلقی اختیار کی اس کے بعد کراچی رابطہ کمیٹی کو پاکستان کی حد تک خود مختار قرار دیا اور پھر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بانی کا نام بھی غائب ہوگیا اور کمیٹی نے قطعی خود مختاری اختیار کرلی، اگرچہ اس پر شک کا اظہار کیا جارہا ہے تاہم ڈاکٹر فاروق ستار اصرار کرتے ہیں کہ وہ یہ بات ثابت کریں گے کہ متحدہ پاکستان کے لئے اور پاکستان کی ہے اور اس کا کوئی ایسا ویسا تعلق نہیں۔

بہر حال یہ متحدہ والوں کا اپنا عمل ہوگایہاں تو یہ گزارش کرنا ہے کہ یہ بہتر سیاسی فیصلہ ہے اس کے لئے قریباً تمام سیاسی جماعتوں نے ہی رائے دی تھی یوں بھی ماضی میں ایسے تجربے ناکام رہے ہیں آج اے، این،پی سمیت کئی ایسی جماعتیں ہیں جو نام تبدیل کر کے سیاست کرتی چلی آ رہی ہیں، البتہ”واچ لسٹ”میں رکھنا یہ عمل حکومت کے لئے بہتر ہوگا تاہم جہاں تک کراچی یا ملک کے کسی بھی اور شہر کا تعلق ہے تو جراثیم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے اورخود متحدہ کا اپنا بھی فا ئدہ اسی میں ہے کہ وہ جرائم پیشہ عناصر سے نہ صرف قطع تعلق کرے بلکہ ان کے خلاف سیکیورٹی ایجنسیوں سے تعاون بھی کرے کہ پر امن پاکستان ہی میں سیاست بھی ممکن ہے۔

اگر خواہش اور دعا سے کام ہونا ہوتے تو پھر یہاں خرابی نظر نہ آتی، ہماری بھرپور کوشش رہی اور اپنی تحریر سے سیاسی عناصر کو آمادہ بھی کرتے رہے کہ افہام و تفہیم سے کام لیں اور باہمی اتفاق رائے سے انتخابی اصلاحات کریں کہ انتخابات آزاد انہ اورمنصفانہ ہوں اور احتساب کا ادارہ بھی سیاست سے بالاتر خود مختار آزاد اور عدل والا بنالیں جو سب کا احتساب کرسکے یہ ناممکن نہیں کہ پارلیمنٹ ہے اور تمام قوانین اسی سے منظور ہونا ہیں

PTI

PTI

تحریک انصاف اور دوسری جماعتیں پارلیمنٹ میں ہیں(ماسواپاکستان عوامی تحریک) اور ہر قانون ہر معاملے پر پارلیمنٹ میں بات ہو سکتی ہے تو پھر محاذ آرائی کی ضرورت نہیں، لیکن اس کے لئے اہم ضرورت بر سر اقدار جماعت کے اپنے رویے کی ہے کہ پارلیمنٹ ہی کو اہمیت دی جائے ہر معاملہ کو ایوان میں لاکرزیر بحث لایا جائے، ایوان میں لوگ ایسے نہیں کہ بلاوجہ رکاوٹ بنیں، یوں بھی بر سر اقتدار اکثریت میں ہیں وہ اگر خود افہام و تفہیم اور اچھے ہمدردانہ رویے کا مظاہرہ کریں تو ماحول یکدم تبدیل ہوسکتا ہے، افسوس کہ ایسا نہیں ہوا نہ ہو رہا ہے،اب سوال یہ ہے کہ جو ہو رہا ہے یہ کب تک ہو گا اس وقت وزیراعظم اور ان کے رفقا پر اعتماد ہیں۔ان کے خیال میں تحریک نہیں بن رہی اور نہ بن پائے گی۔

عمران خان بضد ہیں۔ اب وہ رائے ونڈ کی بات کرتے ہیں۔ رائے ونڈ میں وزیراعظم محمد نوازشریف کی رہائش گاہ ہے۔ ابتداء میں رائے ونڈ مرکزی سڑک پر جلسے کا تاثر دیا گیا اب رہائش گاہ کا نام ”کیمپ آفس” کہہ کر لیا گیا ہے اس سے کیا مراد لی جا سکتی ہے۔ یوں بھی کپتان کا انداز بیان ہی اپنی طرز کا ہے،اگر باہر چوک میں بھی جلسہ ہو تو شرکاء کی طرف سے جاتی عمرہ کا رخ کرنا عجب نہ ہوگا اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا صورت حال ہوگی ؟ اس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے بہتر عمل یہ ہے کہ جوش پر ہوش غالب آئے اور مسائل پہلے ہی حل کر لئے جائیں۔

اب تو یہ بھی ممکن ہے کہ سینٹ والا اپوزیشن کا بل اور قومی اسمبلی میں سرکاری بل ملا کر ایک قانون بنا لیا جائے اور یہ اتفاق رائے سے ممکن ہے۔بہرحال راستہ نکالا جانا چاہیے۔عمران خان کے ہمدرد ان کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کی تنظیم سازی مکمل کریں۔ پورے ملک میں ہر سطح پر نیٹ ورک بنائیں اور پارلیمان میں قوانین کے لئے جدوجہد کرکے 2018ء کے انتخابات کی تیاری کریں کہ پیپلزپارٹی بھی یہی ارادے ظاہر کررہی ہے۔

Ishfaq Raja

Ishfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا