ایم کیو ایم کے دفاتر گرانے کا سلسلہ وسیع ، عوامی رد عمل پرتشدد ہوگیا

MQM Offices Demolition

MQM Offices Demolition

کراچی (جیوڈیسک) سرکاری اراضی پر غیر قانونی طریقوں سے تعمیر کئے جانے والے ایم کیو ایم کے دفاتر گرانے اور سیکٹر آفس سیل کرنے کا سلسلہ کراچی سے نکل کر اب سندھ کے دیگر شہروں تک پھیل گیا ہے ساتھ ہی دفاتر گرائے جانے پر سیاسی جماعتوں کے اعتراضات اور پر تشدد عوامی رد عمل بھی سامنے آنے لگا ہے۔

انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے 178 یونٹ آفس اور 22 سیکٹر آفس قبضے کی زمینوں پر قائم ہیں ۔ ان میں سے 32 کو فوری طور پر جبکہ باقی دفاتر کو بتدریج گرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ یہ دفاتر اسکولز، پارکس، کھیل کے میدانوں اور واٹر بورڈ وو محکمہ ریلوے کی زمین پر قائم کئے گئے تھے۔

اتوار کی شام تک دو درجن سے زائد دفاتر مسمار اور متعدد سیکٹر آفسز سیل کئے جانے کی اطلاعات موصول ہوئیں ۔ جن علاقوں میںاب تک دفاتر مسمار ہوچکے ہیں ان میں لائنز ایریا، گزری، الہلال سوسائٹی ، پرانی سبزی منڈی، محمود آباد، خداداد کالونی ،لانڈھی ، شاہ فیصل کالونی، گلشن اقبال، گلستان جوہر، فیروزآباد ،نیو ٹاؤن ،پی آئی بی، سولجر بازار شامل ہیں۔

پر تشدد عوامی رد عمل
دفاتر مسمار کئے جانے کی اطلاعات کے ساتھ ہی ایم کیو ایم سے ہمدردی رکھنے والوں کی جانب سے رد عمل بھی سامنے آیا جو ابتدا میں زبانی حد تک محدود رہا تاہم بعد میں پرتشدد ہوتا چلا گیا۔

لائنز ایریا میں دفتر گرائے جانے کے دوران ہی علاقہ مکینوں نے پولیس اہلکاروں اور میڈیا ٹیموں پر پتھراؤ شروع کردیا جبکہ انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے مظاہرین کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور معاملات اس حد تک بڑھے کہ بھگدڑ تک مچ گئی۔

اس دوران کچھ مشتعل مظاہرین نے نجی ٹی وی’ چینل 92‘ کی ڈی ایس این جی وین کو گھیر لیااور پتھراؤ کرکے شیشے توڑ دیئے جبکہ گاڑی میں موجود ڈرائیور ، انجینئر ادر دیگر عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔پولیس بھی اس موقع پر لاچار نظر آئی اور پولیس اہلکاروں نے بھاگ جانے میں ہی غنیمت جانا۔

لائنز ایریا کے علاوہ محمود آباد اور کچھ دیگر علاقوں میں بھی میڈیا ٹیموں اور پولیس اہلکاروں پر تشدد کے واقعات پیش آئے جن کا وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے فوری نوٹس لیا گیا۔ انہوں نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ٹی وی چینلز اور میڈیا نمائندوں کو ہر ممکن سیکورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

دیگر شہروں میں بھی کریک ڈاؤن
کراچی کے ساتھ ساتھ صوبے کے دیگر شہروں میں بھی ایم کیو ایم کے دفاتر منہدم اور سیل کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ سکھر میں سرکاری ڈسپنسری میں قائم دفتر بند کردیا گیا۔جامشورو میں بلدیہ کی زمین پر قائم دفتر مسمار کردیا گیا جبکہ میرپورخاص، ٹنڈوالہٰ یار، ٹھٹھہ، گھارو، کوٹری اور دادو میں قائم دفاتر کو بھی تالے ڈال دیئے گئے۔

سیاسی جماعتوں کا رد عمل
عوامی رد عمل کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی ایم کیو ایم کے دفاتر گرائے جانے پر رد عمل دیکھنے میں آرہا ہے ۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال کا کہنا ہے کہ اس سے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے لئے لوگوں کے دلوں میں ہمدردیاں پیدا ہوں گی۔

پی ایس پی کے دیگر رہنماؤں جن میں رضا ہارون، وسیم آفتاب اور افتخار عالم شامل ہیں انہوں نے وی او اے کے ایک سوال کے جواب میں اس بات سے انکار نہیں کیا کہ ڈاکٹر فاروق ستار سے لاتعلقی کے اعلان کے باوجود الطاف حسین اورایم کیو ایم دو علیحدہ شے نہیں۔

مصطفیٰ کمال نے یہی موقف اپنی پریس کانفرنس میں دوہراتے ہوئے کہا کہ جب تک الطاف حسین زندہ ہیں انہیں ایم کیو ایم سے علحیدہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر فاروق ستاراپنے دیگر ساتھ رہنماؤں عظیم احمد طارق اور ڈاکٹر عمران فاروق سے بڑے لیڈر نہیں ۔ الطاف حسین کو بھی بخوبی اس بات کا علم تھا کہ یہ دونوں افراد ان کی جگہ لے سکتے ہیں۔

پی ایس پی کے ساتھ ساتھ خود فاروق ستار بھی دفاتر سیل کئے جانے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔ سندھ تنظیمی کمیٹی کےاجلاس میں انہوں نے میڈیا کے روبرو دفاتر کو سیل اور مسمار کرنے پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔