مفتی عبدالقوی کا احتساب

Mufti Abdul Qawi

Mufti Abdul Qawi

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
مفتی صاحب پکڑے گئے اور اعتراف بھی کر گئے بلکہ خبر یہ ہے کہ باہر سے آئی ہوئی مشین نے ثابت کر دیا کہ وہ جھوٹے ہیں۔حضور جب یہ مشینیں نہیں بھی تھیں اس پولیس اور ان محکموں کے سامنے بڑے بڑے جغادری بھینس چور بن جایا کرتے تھے اور مان بھی جاتے تھے۔اس پنجاب کا اللہ ہی حافظ ہے ہاتھی بھی اس کے ہاتھ لگ جائے تو اعتراف کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل جاتا ہے ہاں میں چوہا ہوں جی ہاں میں چوہا ہوں۔اس پولیس کے ہاتھ مجھے بھی لگ چکے ہیں چوہتر میں تحریک ختم نبوت میں مجھے اشتعال دلانے کے جرم میں دھر لیا گیا پولیس چوکی جو اب تھانہ یہاں ایک پولسیئے کے ہتھے چڑھ گیا اس نے خوب پھینٹی لگائی تلاشی لی جو دو تین روپے تھے تڑے مڑے نوٹ برآمد کئے انہیں جیب میں اڑسٹے ہوئے کہا وڈا آیا عاشق رسول(ۖ) کرنے عشق مدینے والے نال تئے جیباں خالی(یعنی عش کرتے ہو مدینے والے سے اور جیبیں خالی)۔جی کر لو پولی گرافک ٹیسٹ اور آزما لو سارے نسخے ایک متوسط طبقے کے مفتی کے اوپر۔جی ہاں اس کا آگے پیچھے جو کوئی نہیں ۔یہ ہے میرے ملک کا نظام ۔نظام کو کیا گالی دوں اس ملک کی اشرافیہ کی کرتوتیں مجھے آج حاجی اقبال کا قصہ یاد آ گیا جو فیصل آباد کا بہت بڑا ٹیکسٹائل اونر حج کے بعد پاکستان پہنچا کچھ ہی دن گزرے تو موصوف نے ایک مزدور کی بیٹی کو ہوس کا نشانہ بنا دیا۔غریب کا احتجاج بھی کمال کا غریب ہوتا ہے ہر کوئی جاتا اور کہتا کہ حاجی صاحب آپ نے یہ کیا کیا؟وہ سن سن کر تھک گئے اور جواب میں کہا اوئے باندر دیو پترو میں حج کرنے گیا تھا کوئی نس بندی نہیں کرائی۔مفتی عبدالقوی کی سب سے بڑی بڑی بد قسمتی کے ایک نجی چینیل کے راستے میڈیا میں معروف ہوئے ایک بڑے معروف مولانا کی نقل کرتے کرتے قندیل بلوچ کو رام کرنے اور اسے سیدھا راستہ دکھانے چل پڑے ایک سیلفی کیا بنوائی مارے گئے ۔اور اب ان کے موبائل کی تلاشی لی جا رہی ہے بتایا گیا کہ اس میں کچھ فحش فلمیں بھی موجود ہیں۔

مفتی صاحب سے ایک تعلق بھی تھا جس دن دھرنے میں ایک چیک دینے وہاں گیا تو مفتی صاحب بھی کنٹینر میں ہی تھے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ مسلمان کو نکاح کرنا چاہئے نکاح ہی زنا کے راستے کی دیوار ہے۔مجھ سے دوستی ہو گئی ان کے ساتھ دو ایک تصویریں بھی ہیں فیس بک کا اکائونٹ ڈیسبل ہو گیا ورنہ شیئر کرتا۔آج کا کالم اس لئے نہیں لکھ رہا کہ وہ میرے دوست تھے یا ان کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔مجھے سچی بات ہے یہ مہمیز ایک اینکر دوست نے دلائی کہ کہ کیا مفتی عبدالقوی کا ہی پولی گرافک ہو گا کیا ان جیسے ہی متوسط طبقے کے لوگوں کے اوپر یہ ٹیسٹ کئے جائیں گے۔کیوں نہیں ہو اپولی گرافک اس عورت کا جس نے کہا کہ میری لندن میں کیا پورے پاکستان میں کوئی جائداد نہیں اور اس کا کیوں نہیں جس نے ماڈل ٹائون میں چودہ لوگوں کا قتل کرایا اور جو دندھناتا پھرتا ہے۔جنرل راحیل سے ایک ہی شکوہ ہے کہ وہ کراچی میں تو پولی گرافک کرتے رہے لیکن لاہور فیصل آباد میں ٹھس ہو گئے۔یہی بد بختی پاکستان کی ہے کہ غریب کو دھر لو امیر کو چھوڑ دو۔ ادھر مصلی رسولۖ سے صدا آتی ہے کہ اللہ کے نبیۖ نے کہا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو ہاتھ کاٹ دیتا۔لیکن مفتیان پاکستان منہ میں گنگنیاں ڈالے خاموش ہیں انہیں کیا ان کی پیٹ پوجا جاری و ساری ہے۔ایک کی شکم سیری کی انتہا دیکھئے جب حکومت پھنستی ہے تو نکالنے کے بدلے وزارت لیتے ہیں بھلا ہو شیخ رشید کا اور ہم جیسے کارکنوں کا کہ جب ختم نبوت پر ڈاکہ ڈلا تو چیخ اٹھے موصوف تو حرم کے پردے میں دو روز چھپے رہے اور بعد میں کہہ دیا میرے ایک فون نے معاملہ بدل دیا۔ویسے سچ پوچھیں اس بڑے جھوٹ کی تصدیق کے لئے مولانا فضل الرحمن کا پولی گرافک ہو جانا چاہئے۔

مانسہرہ سے ایک اصلی کپتان کا بھی ہو جائے جو ممتاز قادری کے نعرہ لگاتے ہوئے اسمبلہ ہال پہنچتے ہیں اور وہاں عوام کو بدھو بنانے کے لئے ایک تقریر جھاڑتے ہیں فرماتے ہیں ١٥٠٠ ریال کماتا ہوں جی ہو سکتا ہے کفیل کے پاس کام عامل کا ویزہ ہو تو تنخواہ یہی لکھی ہو مگر جتنا بڑا جھوٹ انہوں نے بولا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے پولی گرافک مشین کے ساتھ ایک ایسی مشین بھی ہونی چاہئے جو بتائے کے سچ یہ ہے اور اگر ایسی کوئی مشین آ گئی تو بول پڑے گی کہ سچ یہ ہے کہ اس ١٥٠٠ ریال والے کے کاروبا چودھری بوٹا گجر کے ساتھ بھی ہیں جدہ میں پرویز قریشی کے ساتھ بھی اور اور یہ مشین یہ بھی بتائے کہ وہ بچہ جو بچپن میں میاں نواز شریف کو پھول پیش کیا کرتا تھا جس کے باپ کا نام ذوق تنولی ہے اسے اسی سچے کپتان میں جدہ جیل میں بند کرایا تھا۔سچ بولنے والی مشین یہ بھی بتائے گی کہ اپر دیر کے منڈا علاقے کے فضل سبحان کو کس کے کہنے پر ڈیپورٹ کرایا گیا۔اور مشینیوں نے سچ اگلا تو انجینئر افتخار چودھری ،شہباز دین بٹ،عظمت نیازی نعیم بٹ ،خواجہ امجد کے چولہے کس نے بجھائے اور کون ارشد خان اور قاری شکیل کو نکال لے گیا؟ مفتی عبدالقوی کے لئے کوئی بولے نہ بولے شبیر تو بولے بولے گا۔

انہیں اس جھوٹ کے سماج کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا جائے گا۔ہماری بد قسمتیاں دیکھئے ہم بیچ منجھدھار میں پھنسے لوگوں کی مدد کو نہیں جاتے۔ملتانی مفتی کو قندیل بلوچ کے قتل کے جرم میں بے شک پکڑئیے مگر ان کی تذلیل کا حق آپ کو کس نے دیا ہے۔کون سا ادارہ اور کیسی تحقیقاتی ایجینسیاں بلے اوئے آپ کے انصاف۔گاڑیوں کے نیچے کچلے جانے والے بچے کو بھی تو انصاف دینا تھا ملتان میں میٹر فراڈ ہوا ہے اس کے لئے آپ کی پولی گرافک مشینیں شکار کے وقت موت پڑ جانے والی کتی کی طرح یہاں مشینیں کیا کرنے چلی گئی ہیں۔

مفتی عبدالقوی کو انصاف چاہئے انہیں عدالتوں میں پیش کریں مگر ان کی تذلیل نہ کریں۔آپ بھی کمال کے لوگ ہیں ایک طرف فرینڈ ریکوئیسٹ بھیجنے والی کی چھترول کر دیتے ہو اس لئے کہ وہ اس کی بہن ہے جس نے پاکستان کو بدنام کرنے والی فلم بنائی ایک لحاظ سے وہ ڈاکٹر صیح نکالا گیا اس کو اس جرم میں نکالان چاہئے کہ جس کو ریکوئیسٹ بھیجی ہے بہتر ہے کہ کرال چوک میں کھڑے خواجہ سراء کو بنا لیتے ۔اور اس کے ہاتھ دنیاوی خدائوں تک ہیں ساتھ ہی آپ اربوں روپے کی کرپشن والے مجرم کو جیل میں کھانے تاشیں دیتے ہو مگر ایک غریب جو ایک ماڈل کے قتل میں گرفتار ہے اس کو سر عام رسوا کرتے ہو۔کل مفتی صاحب بری بھی ہو گئے تو کس منہ سے فتاوی جاری کر سکیں گے۔آپ قوم سے ایک عالم دین کو چھین رہے ہو۔جس کے گناہ کی فہرست مختصر ہے۔آپ کی پولی گرافک مشینیوں پر لعنت جو کسی طاقت ور کو ٹیسٹ نہ کر سکیں۔چلئے جائیے اس عورت کا ٹیسٹ بھی کر لیں جو جو گلہ لئی کم اور نالہ لئی کا تعفن اگلتی ہے جائیں اسے ٹیسٹ کریں جس کا نام ملالہ یوسف زئی ہے۔

دنیا میں دو باپ قبل نفرت نظر آئے جو اپنی بیٹیوں کی کمائی کھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ایک کا باپ پاک فوج کو ذلیل کر کے اور دوسری کا باپ عمران خان کو۔چلیں اٹھیں اور پولی گرافک کو مفتی عبدالقوی کے بعد ان دو ننگ وطن لوگوں کا ٹیسٹ کریں اور یہ سوال پوچھیں کہ بیٹی کو کس مقصد کے لئے استعمال کیا ملاہ کے ساتھ بھی کچھ بچیاں زخمی ہوئی تھیں وہ کدھر ہیں اور اس رخسانہ کو کیا ملا جو شرمین عبید کی فلم میں کام کرتی رہی؟پھر دیکھتے ہیں کہ آپ کی گرافک مشین میں کیا دم ہے اور کیا خم ہے؟ کتنے لوگ اس ملک میں قانون کو موم کی ناک سمجھتے ہیں۔یہاں انصاف بھی اسی وقت ملتا ہے جب ہاتھ نہ پڑتا ہو ایک پیر کو ذلیل کیا گیا صرف اس لئے کہ اس نے ایک منصف کو زلیل کیا تھا ۔مزہ تو تب ہے کہ کسی غریب کی عزت نفس کی پامالی پر قانون حرکت میں آئے لوگ یہاں حاجی اقبالوں کے سامنے عزتیں لٹنے پر بھی احتجاج کا حوصلہ نہیں رکھتے کاش ان کی آواز یہ قانون بنے۔آپ اپنی عزت نفس کو مجروح ہوتے دیکھ کر بڑے بڑوں کی لکیریں نکلوا لیتے ہو مگر کسی غریب کے کچلے جانے پر خاموش رہتے ہو۔میرے نبیۖ نے کہا تھا کہ تم سے پہلی قومیں اس لئے برباد ہو گئیں کہ انہوں نے انصاف طاقت ور کو دیا اور غریب کو لاوارث چھوڑا۔کیا الہی قانون بدل گئے ہیں؟کیا اللہ ہمیں چھوڑ دے گا ہر گز نہیں۔اس کی رسی لمبی ہوتی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ انصاف کی کیا قیمت ہے۔ایک صاحب نے کسی سے رقم لینیتھی اس نے کہا جائو میں نے اس دنیا میں تمہیں معاف کیا لیکن یہ کیس اللہ کی عدالت میں رجسٹرڈ ہے ۔میں نے کہا یار کیوں کیس کرو بولا جتنی رقم لینی ہے اس سے ڈبل وکیل اور پولیس لے جائے گی خوامخوا ذلیل ہونے سے بہتر ہے اسے وہاں ذلیل کروں گا جہاں میرا وکیل میرا اللہ ہو گا۔

اللہ بخش جب شہید ہوئے تو سید مودودی نے یہی کہا تھا ہمارا کوئی پرچہ نہیں ہم کیس اللہ کے پاس رجسٹر کرا چکے ہیں ۔میں اس جماعت اسلامی کے سید مودودی کی بات کرتا ہوں جن کا ایمان اللہ پر قوی تھا ان کی نہیں جو شہر شہر نگر نگر نیا چہرہ رکھتے ہیں اور اپنے بل رائے ونڈ سے وصول کرتے ہیں۔مر گئے لوگ دفن ہو گئے جگنو لوگ ان کی کتابیں اور قبریں بیچنے والوں کی لائینیں لگی ہوئی ہیں۔جس ملک میں لچا سب تو اچا ہو وہاں مشینیں کمزوروں پر ہی وار کرتی ہیں۔لعنت ہے ایسی پولی گرافک مشین پرجو مفتی عبدالقوی کا ننگ تو اچھالتی ہے مگر مشرف نے جس دن اس ملک پر شب خون مارا حکمرانوں کے کمروں سے جو کچھ نکلا اس کی لسٹ بھی سامنے آنی چاہپئے۔پی ٹی آئی اسے تسلیم کرے نہ کرے میں مفتی عبدالقوی کے ساتھ کھڑا ہوں۔انہیں انصاف ملنا چاہئے قانون کے محافظ ان کی عزت نفس کا خیال کریں۔موبائلوں میں چھپی فحش فلمیں دکھانے والو تمہارے موبائلوں میں جو مکہ اور مدینہ کی اذانیں ہیں ان تک مجھے رسائی دو۔میں دیکھتا ہوں ویسے بھی اب ایسے پروگرام آ چکے ہیں جو آپ کے اکائونٹ ھیک کر کے آپ کو ننگا کر دیں گے۔جس دن میں نے یہ APPڈائون لوڈ کی حکمرانو! گھر نہیں جا سکو گے۔ایک حد میں رہو۔عدالت فیصلہ دے کہ ملزم کو مجرم ثابت ہونے تک فضول بکواسیات بند کی جائیں۔حضور جب یہ مشینیں نہیں بھی تھیں اس پولیس اور ان محکموں کے سامنے بڑے بڑے جغادری بھینس چور بن جایا کرتے تھے اور مان بھی جاتے تھے مفتی عبدالقوی پر پتھر پھینکنے والے اس اللہ سے ڈریں جس نے اپنے کرم سے آپ کے عیوب پر پردہ ڈالا ہوا ہے۔اس کی خاموش لاٹھی سے ڈریں جو کسی وقت بھی حرکت میں آ سکتی ہے۔

Engr Iftikhar Chaudhry

Engr Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری