کوئی ہے محمد بن قاسم بنت حوا کی پکار

Rohingya Muslims

Rohingya Muslims

تحریر : وقار انساء
میانمار میں میں بسنے والی مظلوم اقلیت روہنگیا مسلمانوں پر فوج اور انتہا پسند بدھ ھسٹوں کاوحشیانہ ظلم جاری ہے برسوں سے13لاکھ آبادی کی یہ مسلمان اقلیت اس ملک میں اپنے ابتدائی اور بنیادی حقوق سے محروم رہی ہے – یہ حقوق تو انہیں ملے نہیں اب جینا بھی ان کے لئے مشکل بنا دیا گیا-وقت کے فرعون اپنی فرعونیت کا سرعام پرچار کرتے ہوئے ان کو کاٹنے مارنے لگے اس بے رحمی سے تو جانوروں کو بھی نہیں مارا جاتا ان جیتے جاگتے انسانوں کے ساتھ اتنا انسانیت سوز سلوک کہ ان کی کھالیں اتاری جارہی ہیں آگ میں جھونکا جا رہا ہے اتنی سفاکیت اتنی درندگی !ان مظلوم لوگوں کا جرم کیا ہے؟ کیوں ان پر وحشت اور بربریت کی انتہا کر دی گئی۔

یو این او اور او سی آئی کی طرف سے اس ظلم پر خاموشی ہے جس ظلم کو دیکھنا بھی عام انسان کے بس کی بات نہیں! عالمی ابلاغ عامہ نے بھی مختصر طور پر ہی اس سفاکیت کو بے نقاب کیا-ان پر 2012 سے ظلم ہو رہا ہے لیکن اب تو ظلم کی انتہا ہوگئی۔

یہ مظلوم اقلیت وھاں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئی ہے اور خلیج بنگال کے راستے بنگلہ دیش پہنچنے کی کوشش میں بھی کتنے لوگ پانی میں ڈوب کر مر رہے ہیں اور وہ بھی خود مرنے کی کوشش میں پانی میں کود رہے ہیں جو ان بدھ ھسٹوں کے ھاتھوں تکلیف اور اذیت کی موت نہیں مرنا چاہتے – جو اپنی ماں بہنوں کی عصمت دری نہیں دیکھ سکتے ان کا قصور ان کا مسلمان ہونا اور کلمہ حق کہنا ہے ؟؟

پھر کہاں ہیں وہ56 مسلم ممالک جو خاموش تماشائی بنے اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو کثتے دیکھ رہے ہیں؟بچوں کو مرتے اور تڑپتے دیکھ رہے ہیں کیا مسلم ممالک اتنے کمزور ہو گئے کہ ان بدھ ھسٹوں کے خلاف آواز نہیں بلند کر سکتے؟

بدھ ھسٹوں کا یہ سلوک مہذب دنیا کے منہ پر ایک طمانچہ ہے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی خاموشی ناقابل فہم ہے-کیا وہ نہیں دیکھ رہے کہ اس مظلوم مسلمان اقلیت کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے ؟

عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کی جارہی ہے سر عام انہیں برہنہ کرکے درختوں سے لٹکایا جا رہا ہے – خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے معصوم بچوں کو کاٹا جارہا ہے اور یہ بدھ ھسٹ ان کا گوشت کھا رہے ہیں خواتین بچیوں کے اعضا کاٹ کاٹ کر ان کو اذیت دی جا رہی ہے کیا یہ سب ظلم زیادتی اور سفاکیت انسان دیکھ سکتا ہے ؟؟

خدارا یہ مظلوم مسلمان ہیں تو اس کے ساتھ انسان بھی ہیں مغربی ممالک اور بین ا الاقوامی تنظمیں اس ظلم کے خلاف ان مظلوموں کا ساتھ کیوں نہیں دے رہیں؟ انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوں اس کے خلاف نہیں اٹھ رہیں؟ کیا صرف نعروں کی حد تک انسانی حقوق کی پاسداری ہے۔

ھمارے پیارے نبی نے مسلمانوں کو جسم واحد قرار دیا کہ جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے تو پھر ھمارے حکمرانوں کے جسم کیوں اس تکلیف میں مبتلا نہیں-وہ آواز بلند کیوں نہیں کر رہے ھمارے جرنیل صاحب کیوں کوئی قدم نہیں اٹھارہے کیا یہ ظلم اور زیادتی ھم اپنے گھروں میں ہو تو اس کو برداشت کر لیں گے؟

کیوں مغربی اور سامراجی ممالک کی آنکھیں نہیں کھل رہیں مسلم ممالک اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ میانمار کی حکومت اور فوج پر زور ڈال کر اس ظلم کو بند نہیں کروا سکتے ؟؟

ان درندوں کے ساتھ سب سفارتی بائیکاٹ کر دیں اور تجارت اور لین دین پر پابندی لگا دیں- سب ممالک متحد ہو کر عالمی سطح پر کوشش کریں تو پھر میانمار کی یہ حکومت ظلم روکنے پر مجبور ہو جائے گی- مصیبت کی اس گھڑی میں ان کا ساتھ دیں یوں بیدردی سے مرنے کے لئے اکیلا مت چھوڑیں-یہ آگ اور گرم تیل میں ڈالنے جانے والے بچے ھم سب کے بچے ہیں یہ کٹے جسموں سے لہو لہان درندوں کی درندگی کا شکار بیٹیاں مائیں اور بہنیں ھماری ہیں-خدارا ان کی مدد کریں کیا اب کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی نہیں آئیگا؟؟

آج کوئی محمد بن قاسم نہیں ہے! جو ایک عورت کی پکار کر سندھ پہنچ گیا اور سال کی عمر میں بہادری کی اور ہمت اور غیرت کی لازوال اور بیمثال تاریخ رقم کر گیا روہنگیا مسلمانوں کی عورتیں اور بچیاں چیخ چیخ کر مدد کو بلا رہی ہیں دیواروں پر لکھ رہی ہیں کوئی ہے محمد بن قاسم جو ان کی مدد کو پہنچے۔

تحریر : وقار انساء