قتل مشال، قتل شعور ہے

Mishal Khan

Mishal Khan

تحریر : اسد زمان
گزشتہ روز 13 اپریل، مردان کی خان عبدلولی خان یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے 23 سالہ طالبعلم مشال خان کو ایک انتہاپسند گروہ نے سرعام یونیورسٹی ہاسٹل میں گُھس کر انتظامیہ کے سامنے اس قدر و حشیانہ تشدد کیا کہ مشال خان جان کی باز ہار گیا۔سوشل میڈیا پر اس کی قتل کے دوران بنائی جانے والی ویڈیو دیکھ کر روح کانپ اُٹھی ہے۔ساری دنیا نے اس ویڈیو میں درندگی کو اس کی حد کمال تک دیکھا۔مشال خان پر الزام تھا کہ وہ گستاخی رسولۖ کا مرتکب ہوا ہے لیکن کسی ثبوت کے بغیر اور کسی قانونی تقاضہ کو ملحوض خاطر نہ رکھتے ہوئے یونیورسٹی کے احاطہ میں ہی چند غنڈہ گرد عناصر نے یونیورسٹی انتظامیہ کی شے پر عدالت لگائی اور خود ہی مشال خان کے لئے سزا بھی تجویز کرلی بلکہ سزا پر عمل درآمد بھی یونیورسٹی انتظامیہ کے سامنے ہی کیا گیا۔ اب پہلے پہل کی تحقیقات کے مطابق مشال خان پر الزامات سراسر غلط ہیں اور اس پر گستاخی رسولۖ کے کسی بھی قسم کے ٹھوس ثبوت نہیں ملے جس سے کہا جا سکے کہ مشال گستاخی کا مرتکب ہوا ہو۔ ماسوائے اسکے کہ اسکے ہاسٹل کے کمرہ نمبر 75 میں انقلابی راہنما چے گویرا،اور مارکس،اور نواب اکبر بگٹی کی تصویر کے پوسٹرز آویزاں تھے۔

آخر اسکا قصور کیا تھا؟؟اسکا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ خود کو انسان دوست کہتا تھا یاا سکا قصور یہ تھا کہ وہ ایک ترقی پسند سوچ کا مالک تھا یا پھر اسکا قصور یہ تھا کہ وہ مذہبی فرقہ واریت،مذہبی انتہا پسندی جیسی سوچ کے خلاف برسرپیکار تھا جو اسے اس طرح بیعمانہ،صفاکانہ،انداز میں ایک اسلامی ریاست کے اندر تعلیمی ادارے کے اندر جانور سے بھی بدتر سلوک کر کے قتل کر دیا گیا۔میرا سوال ہے مملکت پاکستان کے ٹھیکیداروں سے کیا یہ تمہارے مُلک کا نظام ہے،کیا یہ کہتا ہے تمہارے مُلک کا آئین ،کہ شہریوں کو تحفظ دینے کی بجائے ہزاروں کی تعداد میں جانورصفت لوگوں کواکٹھا کر کے بے بنیاد الزام ،شک کی بناء پر ایک ماں سے اسکا لعل،بہن سے اسکا بھائی،باپ سے اسکا فخر،اسکا تاج چھین لومارڈالو،کیا آئین پاکستان مذہبی آزادی،سچ بولنے کی آزادی،رائے دینے کی آزادی نہیں دیتا۔میرا سوال ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام نہاد اسلام کے ٹھکیداروں سے کیا محمدعربیۖکا اسلام یہ درس دیتا ہے کہ ایک مسلمان بھائی کو جان سے مار دو۔کیا محمدعربیۖ کا اسلام یہ درس دیتا ہے بغیر تحقیق کیے ،الزام کی بنیا د پر کسی کو وخشیانہ طریقے سے مارو۔معاف کیجئے گا اگر یہ اسلا م کا درس ہے تو ایسا درس انہی مذہبی دہشتگردوں ،مذہبی انتہا پسندوں ،ملاووْںکو ہی مبارک ہو۔کیونکہ یہ ہمارئے اللہ ،ہمارئے نبیۖ کا بتایا ہوا اسلام نہیں ہے ۔یہ وہ اسلام نہیں جو کہ نبی خداۖدکھا کر گئے تھے۔ہمارئے نبیۖکا درس تو صبر اور استقامت کا درس ہے۔انکا دین تو عفوودُرگزر کا درس دیتا ہے۔

انکا مشن تو انسانیت کی بقاء فلاح تھا۔انکا پیغام تو امن و محبت کا تھا۔انہوں نے تو ہمیشہ غلطی پر معاف فرمانے کی تلقین کی۔جسکی بہت سی مثالیں ہیں ۔انہوں نے تو اس بوڑھی عورت کو بھی معاف فرمایا جو آپۖکچرا پھینکا کرتی تھی آپۖ نے تو طائف والوں کو بھی معاف فرمایا جنہوں نے آپۖکو لہولہان کر دیا مگر آپ نے انکے حق میں بددعا کی بجائے دعا فرمائی۔اسلام نے تو کبھی عدم تشدد کا درس نہیں دیا۔تو پھر کون ہیں یہ لوگ جو اللہ کے گھروں پر قابض ہیں، کون ہیں یہ لوگ جو منبر رسولۖ پر بیٹھ کر لوگوں کو ورغلاتے ہیں آپس میں لڑاتے ہیں فتنے ڈالتے ہیں ۔حکومت وقت کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔حکومت کو چاہئے کہ ایسے عناصر کے خلاف بھی آپریشن کرے جو اسلام کے نام پر کلنک ہیں۔آزادی رائے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے پھر کیوں مُلک میں سچ بولنے والوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے کیوں جھوٹ سرعام ناچتا ہے ،بکتا ہے اور حق پرستوں کو موت نصیب ہوتی ہے۔

کیا مشال کی موت کی ذمہ داری حکومت،یونیورسٹی انتظامیہ پر نہیں پڑتی ۔پچھلے کئی سالوں میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی کراچی سے تعلق رکھنی والی سماجی رہنماء سبین محمود کو سربازار گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔یونیورسٹیوں کے اندر پروفیسرز کو ہراساں کیا گیا،پنجاب یونیورسٹی کے اندر ایک انتہا پسند گروہ کی طرف سے طلباء پر حملہ کیا گیا اور طالبات کو ڈرایا دھمکایا گیا۔اور حکومت وقت ایسے مذہبی جماعتوں کے گروہوں پر پابندی لگانے کی بجائے انکی پُشت پناہی کرتے نظر آتی ہے جوکہ طلباء کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں اُنکی غلط برین واشنگ کر کے اُنکو عدم تشدد،عدم برداشت کا درس دیتے ہیں۔

Mashal Khan Murder

Mashal Khan Murder

حکومت کا فرض بنتا ہے ایسے انتہا پسند تنظیموں پر پابندی عائد کرے جو کہ طلباء کو قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب دیں۔ حکومت پریہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ مشال کے قاتلوں کو کڑی سے کڑی سزا دے جو کہ معاشرے کے لئے ناسُور بن چکے ہیں ۔وگرنہ تعلیمی اداروں کے اندر درندگی کے واقعات طلباء کے دماغوں میں وخشتناک نقوش چھوڑ جائیں گے اور اداروں کا ماحول بد سے بد تر ہوتا جائیگا۔آئیے!آواز بنیں اُنکی ،جنکی آواز نہیں ۔آئیے آواز اعلان جہاد کریں اس فرسودہ نظام سیاست،نظام تعلیم کے خلاف جو نوجوانوں کو بے روزگاری،اور قتل عام کا درس دیتے ہوں ۔آئیے آواز بنیں مشال خان جیسے اُن ہزاروں بے گناہ نوجوانوں کی جن کو قتل کر دیا گیامگر آج تک پتہ نہ چلا کہ آخر انکا جُرم کیا تھا۔

تحریر : اسد زمان