مصحف

Quran

Quran

تحریر: مسزجمشید خاکوانی
نزول قران کے پورے تیئیس سالہ عمل کے دوران آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم قران پاک ساتھ لکھواتے بھی رہے جیسا کہ قران مجید کی تاریخ کا ہر طالب علم بخوبی جانتا ہے جونہی کوئی آیت نازل ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے فوراً کراماً کاتبین وحی کو بلوا کر لکھوا دیتے ۔جو لکھا ہوتا تھا اسے وقتاً فوقتاً سنتے بھی رہتے تھے اور جو صحابہ کرام حافظ تھے ان سے بھی سنتے۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قران پاک کی تمام سورتوں اور آیات کو کتابی شکل میں یکجا نہیں کیا گیا تھا جس ترتیب اور شکل میں آج یہ ہمارے پاس کتابی صورت میں موجود ہے یعنی ترتیب تلاوت کے اعتبار قران پاک کے مکمل اور مرتب شدہ نسخے مصحف کی شکل میں تیار نہیں تھے۔

اس وقت قران پاک کے مختلف حصے یعنی آیات ،صورتیں مختلف اشیا یعنی تختیوں پر اوراق پر اونٹ کی ہڈیوں پر ،کسی سلیٹ یا پتھر کی تختیوں پر لکھ کر صندوق میں محفوظ کر لیئے جاتے تھے ۔۔۔ جب ہم یہ کہتے ہیں یا روایات میں پڑھتے ہیں کہ فلاں صحابہ نے قران پاک کو جمع کیا تو اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ انہوں نے کتاب اللہ کی تمام آیات صورتیں اور اس کے تمام حصے جو مختلف اشیا پر لکھے ہوئے تھے سب کے سب ایک جگہ جمع کر کے محفوظ کر لیئے تھے لیکن ایک کتابی شکل میں جس طرح آج ہمارے پاس موجود ہے قران پاک اس وقت موجود نہیں تھا۔

حضرت ابوبکر صدیق کا جب زمانہ آیا تو تو ایک مشہور جنگ میں صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد شہید ہو گئی یہ جنگ جھوٹے مدعی نبوت مسلیمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی تھی اس جنگ میں مسلیمہ کذاب کو تو شکست ہو گئی لیکن شہید ہونے والے بہت سے صحابہ کرام وہ تھے جنھوں نے خود حضور صلی اللہ وسلم سے قران کو سنا یہ ایک بڑا صدمہ تھا جس سے صحابہ کرام دوچار ہوئے ۔اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو بجا طور پر خیال آیا اگر اسی طرح صحابہ کرام بڑی تعداد میں شہید ہوتے رہے تو ممکن ہے قران پاک کا کچھ حصہ اس طرح ضایع ہو جائے یا مٹ جائے اس لیئے فوری طور پر قران پاک کو کتابی شکل میں مرتب کرنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ اس کی ترتیب میں فرق نہ آنے پائے ۔
کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بعد میں آنے والوں سے کسی آیات و صورت کی ترتیب میں بھول چوک ہو جائے اور اس کے نتیجے میں کتا ب اللہ کی مختلف حصوں بارے ترتیب میں اختلاف رائے پیدا ہو جائے ۔لہذا ایسے کسی بھی اختلاف سے بچنے کے لیئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ کا خیال تھا کہ قران پاک کو کتابی شکل میں محفوظ کر لیا جائے۔

Hazrat Umar

Hazrat Umar

یہ مشورہ لے کر حضرت عمر فاروق خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کے پاس گئے حضرت ابو بکر صدیق کا مزاج تھا کہ جو کام حضور سلی اللہ وسلم نے کیا ہے میں وہی کرونگا جو انہوں نے نہیں کیا وہ میں ہرگز نہیں کرونگا ۔اس مزاج کے عین مطابق انہوں نے کہا جو کام حضور وسلم نے نہیں کیا وہ میں کیوں کروں؟”
حضرت عمر انہیں بہت دیر سمجھاتے رہے اور کافی دیر کی گفتگو کے بعد بلاآخر ابوبکر صدیق کو اطمنان ہو گیا کہ یہ کام کرنا چاہیئے۔اب ان دونوں بزرگوں نے زید بن ثابت کو بلایا جو کاتبان وحی میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیکرٹری بھی رہ چکے تھے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیر قوموں کے ساتھ خط و کتابت بھی وہی کیا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو تبلیغی خطوط لکھوائے تھے وہ بھی حضرت زید بن ثابت نے لکھے تھے۔

ان کو حضرت ابوبکر صدیق نے بلوایا اور کہا ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں انہوں نے بھی یہی کہا جو کام حضور نے نہیں کیا وہ آپ کیوں کرنا چاہتے ہیں ۔اب یہ دونوں مل کر انہیں سمجھاتے رہے ۔حضرت زید بن ثابت اس وقت تقریباً بیس بائیس سال کی عمر کے ہونگے بحرحال ان دونوں معمر بزرگوں کے سمجھانے سے وہ مان گئے لیکن جب انہوں نے حضرت زید سے یہ کہا کہ یہ کام آپنے کرنا ہے تو وہ پریشان ہو گئے حضرت زید کہتے ہیں کہ مجھے ایسا لگا گویا انہوں نے احد کا پہاڑ ادھر سے ادھر منتقل کرنے کی زمہ داری میرے سر ڈال دی ہو یہ کام میرے لیئے اتنا آسان نہ تھا لیکن حضرت عمر اور حضرت ابوبکر صدیق کے اسرار پر مان گئے یہ ایک عظیم و شان اور تاریخ ساز کام تھا خلیفہ اول نے اان کی معاونت کے لیئے چند ارکان پر مشتمل ایک کمیشن بھی بنا دیا جو ان صحابہ کرام پہ مشتمل تھا جو حضور پاک کی زندگی میں کتابت کا کام کیا کرتے تھے وہ تمام حضرات جن کو یہ زمہ داری سپرد کی گئی سب کے سب قران مجید کے حافظ اور صف اول کے علماء میں سے تھے۔

ان کے قریب ترین مشیر اور رفیق حضرت عمر بھی بہت بڑے عالم قران تھے ان حالات میں یہ بہت آسان بات تھی کہ یہ حضرات اپنی یاداشت سے قران پاک کا ایک نسخہ تیار کر دیں ان کے پاس عرضہ میں پیش کیئے اجزائے قران موجود تھے لیکن اس کے باوجود خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مفصل ہدایات دیں کہ سب حضرات جس قرات پر متفق ہوں اور وہ قرات خلیفہ اور حضرت عمر کی کے حفظ کے مطابق ہو پھر سب حضرات کی تحریریں ان کی یاداشتوں کی تائید کریں۔

اس کے علاوہ ہر آیت کی تائید صحابہ کے حلفیہ بیانات سے بھی ہو جو یہ حلفیہ بیان دیں کہ یہ آیت ہم نے حضور صلی اللہ وسلم کو سنائی تھی پھر ہر ہر آیت کی تائید اور ثبوت میں دو دو تحریریں پیش کی جائیں جن کے بارے میں یہ گواہی دی جائے کہ یہ تحریر حضور وسلم کو پڑھ کر سنائی گئی تھی اور آپ وسلم نے اس کی منضوری دی تھی ہر تحریر کے دو چشم دید گواہ ہوں جو یہ حلفیہ بیان دیں کہ یہ تحریر حضو صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی گئی تھی اور ہم وہاں موجود تھے حضور وسلم نے اس کی تصحیح فرمائی ہم اس پر گواہ ہیں ۔یہ سب بیانات اور شہادتیں مکمل ہو جائیں تب اس کو لکھا جائے ۔اس حتی الامکان احتیاطی طریقہ کار کے مطابق انہوں نے قران پاک کو لکھنا شروع کر دیا اور ترتیب کے ساتھ چند ماہ میں پورے قران پاک کی تدوین مکمل ہو گئی ۔اس پورے عمل میں ایک لفظ اور ایک حرف کا بھی کہیں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا البتہ دو آئیتیں قران پاک کی ایسی رہ گئیں جن کے بارے میں ایک مشکل سوال پیدا ہو گیا قران پاک کی یہ دو آئتیں سورة توبہ کی آخری دو آیات تھیں۔

Commission

Commission

کمیٹی کے ارکان نے کہا ہم سب کو یاد ہے کہ یہ سورة توبہ کی آخری دو آیات تھیں ہمارے پاس باقی جو تحریری ذخیرہ ہے اس میں بھی یہ موجود ہیں اسی طرح حضرت عمر فاروق کو یاد ہیں دو گواہ بھی آ گئے انہوں نے حلفیہ بیان بھی دے دیا کہ یہ حضور وسلم کو سنائی تھیں ان دونو گواہان کی زبانی گواہی کے علاوہ دو تحریری یاداشت کے حق میں صرف ایک گواہی مل سکی کسی نے کہا یہ کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے اگر دوسری دستاویز کے دو گواہ نہیں ہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن کمیشن کے ارکان نے کہا جو اصولی طریقہ کار طے ہو چکا ہے اس کو نہیں توڑنا چاہیئے ۔چنانچہ اعلان کرا دیا گیا کہ یہ آیت جس جس نے بھی عرضہ میں پیش کی تھی وہ آ کر کمیشن کے سامنے گواہی دے ۔پورے مدینہ میں اعلان کرا دیا گیا لیکن کوئی نہیں آیا۔

پھر ایک کارندہ مقرر کیا گیا اس نے گھر گھر جا کر ایک ایک صحابی سے پوچھا کہ ”جب یہ عرضہ ہو رہا تھا اور یہ دو آئتیں پیش ہوئی تھیں تو کیا تمھارے پاس اس وقت کا کوئی گواہ موجود ہے ؟” اس پر بھی کوئی گواہ نہیں ملا ۔ممکن ہے کچھ لوگ سفر پر گئے ہوں ممکن ہے کچھ لوگوں کا انتقال ہو گیا ہو ۔بعض صحابہ حج پر گئے ہوں غرض بہت سے امکانات ہو سکتے ہیں اس پر کچھ لوگوں نے کہا شہر اور قرب و جوار کی آبادیوں میں منادی کرا دی جائے وہ بھی کرا دی گئی دوسرا گواہ تب بھی نہ ملا اس پر خلیفہ وقت کے حکم سے جمعہ کی نماز کے بڑے اجتماع میں یہ مسلہ لوگوں کے سامنے رکھا گیا۔

وہاں کسی نے پوچھا ”وہ ایک گواہ جو دستیاب ہے وہ کون ہے؟” اس پر ایک صحابہ نے بتایا وہ ایک گواہ حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری ہیں یہ نام سننا تھا کہ بہت سے حضرات کھڑے ہو گئے اور حضور صلی اللہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ‘جس سے یہ مسلہ فوراً حل ہو گیا ۔مسلہ کیسے حل ہو گیا اس کے لیئے ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے ۔جب یہ بات ہو رہی تھی تو وہ زمانہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے انتقال کے آٹھ دس ماہ بعد کا تھا ۔آپ اس زمانے سے ذرا تین چار سال پہلے جائیں حضور صلی وسلم ابھی حیات تھے ۔مدینہ میں حضور صلی وسلم کا معمول تھا کہ کبھی کبھی شہر سے باہر ٹہلنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لیئے تشریف لے جایا کرتے تھے کبھی تو صبح کی نماز کے بعد اور کبھی عصر کی نماز کے بعد۔اور ایسے ہی کسی موقع پر حضور صلی وسلم شہر سے باہر تشریف لے گئے دیکھا کہ ایک قبیلہ پڑائو ڈالے ہوئے ہے۔

وہاں خیمے لگے ہوئے تھے اور ایک بدو گھوڑا یا اونٹ لیئے کھڑا تھا ۔آپ نے پوچھا یہ جانور بیچتے ہو ؟” اس نے کہا جی ہاں بیچتا ہوں ”قیمت پوچھی اس نے قیمت بتا دی”آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا چلو میرے ساتھ میں تمھیں قیمت دیتا ہوں ۔”چنانچہ دونوں مدینہ منورہ کی سمت چل پڑے حضور آگے آگے چل رہے تھے اور بدو اونٹ ،گھوڑا لیئے پیچھے پیچھے چل رہا تھا جب شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں کو معلوم نہیں تھا یہ جانور فروخت ہو چکا ہے ۔ایک صاحب نے بدو سے پوچھا جانور بیچتے ہو ؟”کہا بیچتا ہوں ”کتنی قیمت دو گے ؟ ان صاحب نے کچھ زیادہ قیمت لگا دی اس پر وہ بولا میں تیار ہوں” آپ حضور صلی وسلم مڑے اور فرمایا کہ یہ جانور تو تم نے مجھے بیچ نہیں دیا تھا؟”اس نے کہا میں نے تو نہیں بیچا”۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

اس پر حضور نے فرمایا تم سے قیمت ادائیگی پہ بات نہیں ہوئی تھی ؟”اس نے کہا نہیں ،وہ صاف مکر گیا جب حضور نے دوبارہ اپنی بات دہرائی تو وہ کہنے لگا آپ کے پاس کوئی گواہ ہے تو لائیے ۔” حضور نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھا تو آپ صلی اللہ وسلم وہاں تنہا ہی تھے وہاں اتفاق سے حضرت خزیمہ بن ثابت کھڑے تھے انہوں نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے یہ جانور اس شخص سے اتنی قیمت میں خریدا ہے ۔اس پر وہ بدو خاموش ہو گیا آپ نے اس کو قیمت ادا کر دی بلکہ کچھ زیادہ ہی دے دی اور جانور لے کر آ گئے کام سے فارغ ہوکر آپ نے حضرت خزیمہ سے پوچھا میں نے تو تمھیں وہاں نہیں دیکھا! تم کہاں تھے ؟”انہوں نے جواب دیا میں وہاں نہیں تھا آپ نے پوچھا تو پھر تم نے گواہی کیسے دی ؟”حضرت خزیمہ نے جواب میں عرض کیا میں روز گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ وسلم کے پاس جبریل امین آئے اور وحی لیکر آئے اور یہ کہ جنت اور دوزخ موجود ہیں جب میں یہ سب اندیکھی باتیں سچ مان رہا ہوں تو یہ معمولی بات کیسے نہ مانوں ؟”اس پر حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا ۔آج سے خزیمہ کی گواہی دو آدمیوں کے برابر مانی جائے گی۔”

یہ واقعہ کئی صحابہ نے دیکھا اور سنا ہوا تھا انہوں نے اس کی تصدیق کی ۔اب لوگوں کو احساس ہوا کہ حضرت خزیمہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر کیوں قرار دیا گیا تھا شائد اسی موقعہ کے لیئے ایسا کیا گیا ہو چنانچہ اس ارشاد نبوی کے مطابق حضرت خزیمہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر تسلیم کر لیا گیا اور یہ دونوں سورتیں سورة توبہ کے آخر میں لکھ دی گئیں ۔اس طرح قران پاک کا پہلا مکمل نسخہ کتابی شکل میں تیار ہوگیا۔یہ نسخہ جس کو مشورے سے مصحف کا نام دیا گیا حضرت ابوبکر کے قبضے میں رہا ۔ان کے انتقال کے بعد حضرت عمر فاروق کے پاس رہا اور ان کے انتقال کے بعد ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ کی تحویل میں رہا ۔حضور صلی وسلم کے زمانے سے لیکر حضرت عثمان کے زمانے تک یہ روایت چلی آ رہی تھی کہ عرب کے مختلف قبائل کو اجازت تھی کہ قران مجید اپنے اپنے لہجے میں پڑھ لیا کریں ۔ہر زبان میں مختلف قبیلوں اور علاقوں کے لہجے مختلف ہوتے ہیں زبان تو ایک ہی ہوتی ہے۔

لکھی بھی ایک ہی طرح سے جاتی ہے لیکن لوگ مختلف انداز میں پڑھتے اور بولتے ہیں ۔چونکہ عرب قبائل مختلف علاقوں میں آباد تھے اور مختلف لہجے ان کے ہاں رائج تھے اس لیئے آغاذ میں ہر قبیلہ اپنے لہجے میں پڑھا کرتا قبائلی عصبیت بڑی شدید ہوتی ہے اس لیئے حضور صلی اللہ وسلم نے آغاذ میں نئے اسلام قبول کرنے والوں کو قریش کے لہجے کا پابند نہیں کیا جو عربی زبان کا ٹکسالی لہجہ سمجھا جاتا تھا بلکہ جو جس لہجے میں پڑھتا اس کو اسی لہجے میں پڑھنے کی اجازت دے دی گئی البتہ حضور وقتاً فوقتاً توجہ دلاتے رہے کہ قران جس لہجے میں اتارا گیا وہ قریش کا لہجہ ہے اور یہ کہ قریش کا لہجہ ہی میعاری ہے ۔حجاز کے باہر صحابہ کرام میں جو حضرات تعلیم حاصل کرتے جاتے تھے وہ قریش کا میعاری اور ٹکسالی لہجہ ہی اختیار کرتے جاتے تھے لیکن عام لوگ اور بدو اپنے مخصوص قبائلی یا علاقائی لہجے میں ہی پڑھتے رہے۔

جب حضرت عثمان کا زمانہ آیا اس وقت نئی نئی نسلیں اور قومیں اسلام میں داخل ہو رہی تھیں ایرانی،ترکی ،رومی ،حبشی وغیرہ جو عربی نہیں جانتے تھے وہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اسلام قبول کر رہے تھے ان نئے مسلمانوں نے جوش و خروش سے عربی سیکھنی شروع کر دی مثلاً کسی یمنی نے اپنے نو مسلم دوستوں کو اپنے لہجے میں قران سکھایا تو کسی کوفہ والے نے اپنے لہجے میں سکھایا ۔۔۔حضرت عثمان غنی جب خلیفہ تھے اس وقت مسلمانوں کی فوجیں دنیا کے مختلف حصوں میں مصروف جہاد تھیں آذربائیجان کے علاقے میں بھی آرمینیا کے علاقے میں بھی ۔مشہور صحابی حضرت حذیفہبھی آرمینیا کے مجاھدین میں شامل تھیآپ ایک انتہائی محترم اور معزز صحابی تھے اور حضور صلی اللہ وسلم کے خاص رازدار سمجھے جاتے تھے آپ بھی وہاں جہاد میں شریک تھے ۔ایک دن انہوں نے دیکھا کہ امام نے نماز پڑھائی اور ایک خاص لہجے میں تلاوت کی ۔نماز کے بعد کئی لوگوں نے امام صاحب کے لہجے پر اعتراض کیا۔

Medina

Medina

اور کہا کہ آپ نے غلط پڑھا ہے امام صاحب نے جواب میں کہا کہ میں نے تو فلا ں صحابی سے قران سیکھا ہے ۔یہ منظردیکھ کر حضرت حذیفہ نے اپنے امیر سے کہا ۔مجھے جہاد سے چھ ماہ کی چھٹی دے دیں مجھے ضروری کام ہے۔” وہ فوراً مدینہ منورہ روانہ ہو گئے کئی ماہ کے سفر کے بعد وہ مدینہ طیبہ پہنچے ۔کہتے ہیں دوپہر کا وقت تھا اور گرمی کا زمانہ تھا لوگوں نے مشورہ دیا ذرا آرام کر کے پھر امیر امومنین ح ضرت عثمان غنی کی خدمت میں حاضر ہوں لیکن حضرت حذیفہ نہ مانے فوراً امیرالمومنین کے گھر پہنچے وہ پریشان ہوکر باہر نکلے اور کہا حذیفہ اچانک کیسے آئے ہو ؟آپ تو جہاد پر گئے ہوئے تھے پھراچانک کیا بات ہوئی ؟انہوں نے جواب دیا امیر المومنین!مسلمانوں کی خبر لیں قبل اس کے کہ کتاب اللہ میں اختلاف پیدا ہو ۔”اور ان کو اختلاف قرائت کا واقعہ سنایا ۔اور کہا یہ انتہائی غلط بات ہے ۔قران کے بارے میں اس طرح کے اختلاف کی اجازت نہیں دی جا سکتی آج لہجے کا اختلاف ہے کل ممکن ہے کوئی اور اختلاف پیدا ہو جائے اس لیئے آج ہی اس کا کچھ حل تلاش کریں ۔”

دونوں حضرات نے بیٹھ کر طے کیا کہ حضرت حفصہ کے پاس جو نسخہ ہے اس کو منگوا کر اس کی کاپیاں تیار کرائی جائیں اور تمام دنیائے اسلام کے شہروں میں بھیج دی جائیں چنانچہ حضرت عثمان کے حکم سے گیارہ اور بعض روایات میں سات نسخے تیار کیئے گئے دوبارہ حضرت زید بن ثابت کو ہی ذمہ داری سونپی گئی چنانچہ ان نسخوں کو تمام بڑے بڑے شہروں میں بھیج دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ جتنے انفرادی نسخے اب تک لوگوں کے پاس موجود ہیں وہ سرکار کے حوالے کر دیئے جائیں وہ سب انفرادی نسخے ضبط کر کے بعد میں تلف کر دیئے گئے فیصلہ یہ ہوا کہ آئیندہ جس کو قران کا نسخہ تیار کرنا ہو وہ ان نسخوں سے تیار کرے اور نسخہ قریش کے لہجے میں قریش کے رسم الخط میں ہی تیار کیا جائے ۔آئندہ جو قران پاک لکھے گئے وہ سو فیصد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لہجہ تھا اس سے قبل لوگ اپنے لہجے کے مطابق لکھا اور پڑھا کرتے تھے لہجے کے اختلاف سے ہجے کا اختلاف ہو سکتا ہے امکان تھا کہ ایک ہی لفظ کے ہجے مختلف انداز میں رواج نہ پا جائیں۔

یہ امکان اس لیئے بھی تھا کہ اس وقت عرب میں لکھنے لکھانے کا زیادہ رواج نہ تھا بلاذری کی روایت کو درست مانا جائے تو مکہ میں صرف سترہ آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے ایسی صورت میں ہجے اور طرز تحریر کو باقائدہ میعار کے مطابق نہیں بنایا جا سکتا تھا اور اس بات کا امکان خاصا تھا کہ ایک ہی لفظ کو مختلف لوگ مختلف اندازمیں لکھنا شروع کر دیں اس امکان اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خدشات کے پیش نظر وہ سات نسخے پورے عالم اسلام میں بھیجے گئے اور باقی نسخوں کو منگوا کر تلف کر دیا گیا اعلان کیا گیا آئندہ سب لوگ انہی نسخوں کے مطابق نقلیں تیار کر لیں ۔چنانچہ اس کے بعد سے تمام نئے نسخے ان اصل نسخوں کے مطابق تیار ہوئے جو گیارہ نسخے عالم اسلام کو بھجوائے گئے تھے ۔ان نسخوں میں سے تین نسخے اس وقت بھی دنیا میں موجود ہیں ای لندن کے مشہور برٹش میوزیم میں محفوظ ہے ۔دوسرا استمبول (ترکی) میں ہے اور تیسرا تاشقند میں ہے ازبکستان کے دارالحکومت میں جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت ابوبکرصدیق کے زمانے میں تیار ہوا اور یہی وہ نسخہ ہے جو حضرت عثمان کے ذاتی مطالعہ میں بھی رہتا تھا۔

جب وہ شہید ہوئے تو وہ اسی نسخے کی تلاوت فرما رہے تھے مشہور ہے ان کا خون بھی قران پاک کے صحفات پر گرا تھا اور اس کی نشانی بھی ان صحفات پر موجود ہے ۔تاشقند والا نسخہ حمزہ اسٹریٹ میں کلاں مسجد کی ایک لائبریری میں رکھا ہوا ہے الغرض جس انداز میں حضرت زید بن ثابت نے قران مجید لکھا تھا اسی انداز میں آج کے زمانے تک لکھا جا رہا ہے اس خط کو رسم عثمانی کہتے ہیں اور آج تک اس کی پیروی ضروری قرار دی جاتی ہے دنیا میں قران مجید کے جتنے بھی نسخے ہیں وہ ان ہی گیارہ نسخوں کی نقل ہیں جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالے عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالے عنہ نے تیار کروائے تھے !
(ڈاکٹر محمود احمد غاذی کے مضمون سے ماخوذ)

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر: مسزجمشید خاکوانی