مشرف نے امریکہ کو سہولتیں دیں دفاعی جماعتیں کہاں تھیں۔۔؟

Musharraf

Musharraf

تحریر : محمد اشفاق راجا
دفاع پاکستان کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ایئر چیف کو ڈرون طیارے گرانے کا حکم دے۔ ساتھ ہی ساتھ اس دفاع پاکستان کونسل کی دوسری بڑی خواہش یہ بھی ہے کہ تمام جماعتیں متحد ہو جائیں، بظاہر تو لگتا ہے کہ یہ دونوں نیک خواہشات مستقبل قریب میں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔ دفاع پاکستان کونسل جن جماعتوں پر مشتمل ہے تقریباً یہی جماعتیں اس وقت بھی موجود تھیں جب یہ کونسل تشکیل پائی تھی، آج تک کئی برسوں کے دوران اس کی رکنیت میں اضافہ نہیں ہوسکا تو اب کیسے فرض کرلیا جائے کہ اب نئی جماعتیں اس کونسل میں شامل ہوں گی۔ دفاع پاکستان تو ہر کوئی چاہتا ہے وہ کون سا پاکستانی ہوگا جسے ملک کا دفاع مطلوب نہیں، لیکن اس دفاع کیلئے پیمانے اپنے اپنے ہیں مثلاً دفاع پاکستان کونسل یہ سمجھتی ہے کہ اگر ڈرون گرالئے جائیں یا گرانے شروع کردیئے جائیں تو اس طرح پاکستان کا دفاع مضبوط ہوگا۔

لیکن اسی پاکستان میں ایسے بہت سے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہوں گی جو اس طرح نہیں سوچتیں، ممکن ہے ان کی سوچ اس کے بالکل برعکس ہو۔ کئی لوگ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ اگر ڈرون گرایا گیا تو امریکہ اسے اپنے خلاف اعلان جنگ تصور کرسکتا ہے اور جواب میں کچھ بھی کرسکتا ہے۔ سوچ پر تو کوئی پابندی نہیں اگر چند رہنما چاہے ان کا قد کاٹھ اور عمریں کتنی ہی زیادہ ہوں اگر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ڈرون گرانے سے امریکہ گھٹنے ٹیک دے گا تو یہ کیوں نہیں سوچا جاسکتا کہ اس طرح امریکہ مشتعل ہوکر کوئی مزید اشتعال انگیز حرکت بھی کرسکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکہ کو اپنی فضائیں اور فضائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی۔ پاکستان کی سڑکوں پر سے نیٹو کے اسلحہ بردار ٹرالے بھی بلا روک ٹوک گزرتے رہے، لیکن سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد پاکستان نے ان ٹرکوں اور ٹرالوں کی آمدورفت پر بعض پابندیاں عائد کردیں۔ عمران خان نے بھی ان کے خلاف ریلیاں نکالیں۔

لیکن بعد میں کیا ہوا؟ شاید مذاکرات کے بعد ٹرک پہلے کی طرح چلنے لگے، ملکوں کو ایسے فیصلے سوچ سمجھ کر اور ہر پہلو کا جائزہ لے کر کرنے ہوتے ہیں جن پر ان کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ جنگوں میں کئے جانے والے اقدامات کے بعد حالات کا دھارا کس جانب بہہ نکلتا ہے یہ کسی کو اندازہ نہیں ہوتا۔ کیا ہٹلر کو اندازہ تھا کہ وہ پورے یورپ کو روندتا ہوا لینن گراڈ کے دروازے پر دستک دے گا تو سائیں سائیں کرتی سرد ہواؤں کے تھپیڑوں سے اپنی سپاہ کی موت کا باعث بنے گا۔ اس سے پہلے فاتح عالم نپولین کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوچکا تھا۔ جاپان نے جب پرل ہاربر پر کھڑے امریکی جہاز پر حملہ کیا تھا تو کیا اسے اندازہ تھا کہ امریکہ اس کے جواب میں اس کے دو ہنستے بستے شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا؟ جاپان کے اس حملے نے جنگ کے خاتمے کی ابتدا کردی ورنہ شاید یہ جنگ اتنی جلدی ختم نہ ہوتی۔ امریکہ کے صدر اوباما نے حال ہی میں جاپان کے دورے کے دوران ہیروشیما کی اس یادگار پر بھی حاضری دی جو دنیا کو انسانی آلام و مصائب کے ایک لامتناہی سلسلے کی یاددہانی کراتی رہتی ہے۔ جاپانی پرعزم تھے جنہوں نے اپنے دو شہروں کی تباہی پر آنسو بہاتے رہنے کی بجائے آگے بڑھ کر اپنے ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کردیا اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل ملک بن گیا۔ ہٹلر کے بعد کا جرمنی بھی جنگ کے بعد جدید اور مضبوط ملک بن کر ابھرا، لیکن بعض زخم ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ ہرے رہتے ہیں۔

Drone Attack

Drone Attack

خارجہ پالیسی ایک ایسا موضوع ہے جس پر گہرے غور و خوض کی ضرورت ہوتی ہے۔ گلیوں اور بازاروں میں جلوس اور ریلیاں نکال کر خارجہ پالیسی کے فیصلے نہیں ہوسکتے۔ کسی ملک کے خلا ف جنگ ڈکلیئر کرنا حکومت کا اختیار ہوتا ہے لیکن جب سے خارجہ پالیسی کو بازیچہ اطفال بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ایسے لگتا ہے کہ جنگ کرنے کا فیصلہ بھی چند الٹرا محب وطن جماعتیں اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہیں خارجہ پالیسیوں کی نزاکتوں کا احساس کئے بغیر اس طرح کے مطالبات سے ملک کو کیا حاصل ہوگا، اس کا احساس زیادہ لوگوں کو نہیں۔ نائن الیون کے بعد جب پاکستان نے امریکہ کیلئے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کردیئے تھے، اس وقت دفاع پاکستان کونسل تو نہیں تھی لیکن وہ ساری جماعتیں موجود تھیں جو اب اس کونسل کی رکن ہیں کیا کسی نے جنرل پرویز مشرف کو امریکہ کو سہولتیں دینے سے روکا؟ جب امریکی طیارے پاکستانی ہوائی اڈوں سے اڑ کر افغانستان پر حملے کر رہے تھے کیا کوئی رہنما بالائے بام آیا۔

جو ڈرون حملہ ہوا ہے بلاشبہ یہ پاکستانی خود مختاری پر ایک تازیانہ ہے لیکن کیا یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کیا اس سے پہلے کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا؟ کسی کو یاد ہے کہ اب تک امریکہ پاکستان کی سرزمین پر کتنے حملے کرچکا؟ کیا ان سب حملوں کے بعد دفاع پاکستان کونسل کی جماعتوں نے اسی طرح کا ردعمل دیا تھا جیسا کہ اب دے رہی ہیں۔ قومیں ریلیوں میں بے سروپا مطالبات کرنے سے تشکیل نہیں پاتیں۔ اس کیلئے مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ ہمارے لوگ لانگ مارچوں کے بڑے شوقین ہیں، ان میں سے کتنوں کو ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ کی تاریخ معلوم ہے۔

منزل مقصود تک پہنچنے میں کتنے لوگ راستے میں جان ہار گئے۔ چین اگر اس وقت شاہراہ ترقی پر دوڑتے ہوئے سپر طاقت کی منزل پر پہنچنے کیلئے کوشاں ہے تو ہم لوگوں کو اس جدوجہد کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا چاہئے۔ مدبر قیادتیں کبھی مشتعل نہیں ہوتیں، قوموں کی تقدیر کے فیصلے جذباتی نعروں کے ذریعے نہیں کئے جاسکتے۔ اس لئے اے اہل پاکستان ان لمحات میں سوچ سمجھ کر آگے بڑھیں، پھونک پھونک کر قدم اٹھائیں، ہوا کے گھوڑے پر سوار ہونے والے کبھی منزل مقصود پر نہیں پہنچتے کہ یہ گھوڑے راستے میں ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا