مسلمان ممالک میں جھڑپوں کو روکنے کے لئے ذہین سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔ ابراہیم قالن

Ibrahim kalin

Ibrahim kalin

ترکی (جیوڈیسک) صدارتی دفتر کے ترجمان ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ مسلمان ممالک میں جھڑپوں کو روکنے کے لئے ذہین سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔

روزنامہ ڈیلی صباح کے لئے “کیا بحران کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ میں کوئی نظم و نسق ممکن ہے” کے عنوان سے رقم کردہ مقالے میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام میں درپیش مسائل کا حل مضبوط قیادت سے وابستہ ہے۔

قالن نے کہا ہے کہ دو قطبوں پر مشتمل گلوبل نظم و نسق کے ناکارہ ہونے کا بدلہ دنیا کے مسلمانوں سے چکوایا جا رہا ہے تاہم علاقہ موجودہ وسیع قدرتی و انسانی وسائل کے ساتھ بحرانی کیفیت پر قابو پا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ جو سینکڑوں سالوں سے امن ، تہذیب اور تمدن کا گہوارہ رہا ہے اسے آج جنگ، تشدد اور بے راہ رو امیری جیسی صفات سے پہچانا جا رہا ہے۔ اس روش کے رُخ کو متضاد سمت میں موڑنے کے لئے اتفاق رائے پر مبنی انتظامی طرز فکر اور مضبوط سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔

قالن نے کہاکہ شام اور عراق سمیت علاقے میں درپیش بحرانوں کا سبب، کمزور انتظامی ڈھانچوں کا پیدا کردہ، قیادت کاخلاء ہے اور حکومتوں کے خالی کردہ حصے کو دہشت گرد تنظیمیں پُر کر رہی ہیں جن کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سکیورٹی بحران ہمسایہ ممالک کے لئے خطرہ تشکیل دے رہا ہے۔

مسلمان ممالک سے نسلی، مذہبی اور جغرافیائی امتیازات کو ایک طرف رکھ کر سرکاری اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرنے کی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ “حکام کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک ہم سب محفوظ نہ ہوں گے اس وقت تک ہم میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہو گا”۔

ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ مسلمان ممالک میں، خود ان کو نقصان پہنچانے والی جنگوں اور جھڑپوں کو روکنے کے لئے اور ان ملکوں کو خارجی مداخلت اور استحصال سے بچانے کے لئے مضبوط اور پُر فراست قیادت کی ضرورت ہے ۔

مقالے کے آخر میں صدارتی دفتر کے ترجمان ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کو نظم و نسق کے قیام اور عوام کو خدمات کی فراہمی کے لئے سرکاری اداروں کو مضبوط بنانے کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔ نسلی، مذہبی اور جغرافیائی امتیازات کو اس وقت پہلے سے ہی ضعیف حکومتی ساختوں کو مزید ضعیف بنانے کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

سیاسی حکام کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے کہ ایک کا تحفظ دوسرے کے تحفظ سے وابستہ ہے۔ ایک ایسے دور میں، جب باہمی وابستگی میں اور گلوبلائزیشن میں اضافہ ہو رہا ہے، جب تک ہم سب محفوظ نہیں ہوں گے اصل میں کوئی ایک بھی محفوظ نہیں ہو گا۔