نیب ٹھگوں فراڈیوں، رشوت خوروں کی جنت

NAB

NAB

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
نیب کا ادارہ تازہ ترین پلی بارگین کے بعد جس میں صرف دو ارب لے کر 48 ارب معاف کر دیے گئے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رشوت خوروں، ٹھگوں، فراڈیوں، کالا دھن رکھنے والوں اور پھر اسے ہنڈی، منی لانڈرنگ یا دیگر دوسرے ذرائع سے باہر بھجوانے والوں کے لیے جنت بنا ہوا ہے۔اربوں کھربوں کے فراڈ کرو پاکستانی خزانے کو دنوں ہاتھوں سے لوٹو بطور سیکریٹری خزانہ خود پانچ ہزار والے بڑے نوٹ سرکاری پریس سے چھا پو انھیں اپنے ہی پاس ڈمپ کر لو ،ہفتہ دس دن میں جب دو چار ارب روپے جمع ہو جائیں تو ان کو باہر شفٹ کر ڈالو جس کے لیے ایجنٹ حصہ بقدر جسہ دینے سے مل ہی جاتے ہیں۔ ویسے بھی کئی ایان علیاں ان کے اربوں ڈالرز کے بھرے بیگ بیرون ملک منی لانڈرنگ کے ذریعے پہنچانے کے لیے سرگرداں و سفر گرداں گھومتی رہتی ہی ہیں۔ جو یہ کام بخوبی سر انجام دے ڈالتی ہیں۔کیا ہوا کہ کئی سالوں کے بعد کسی ایماندار افسر نے دھر لیا روزانہ یہ کاروبار اسی سپیڈ سے حکومتی کارپردازوں کی کرپشنوں کی وساطت سے چل ہی رہا ہے۔

اگر ایان علی ٹائپ کسی منی لانڈرنگ کرنے والی ماڈل کو پکڑ لیا جائے تو اعلیٰ سے اعلیٰ وکیلوں کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں میں لڑ کر ہی رہائی مل ہی سکتی ہے ۔ اور جو پکڑے اس کو بڑی آسانی سے قتل کر کے کیفر کردار کو پہنچانے والے سپورٹرز ہمہ وقت تیار موجود ہوتے ہیں تو پھر ایسی خوفناک ڈائنوں چڑیلوں کو کون پکڑے گااور مقدمہ کے گواہو ں کو بھی خریدا یا انھیں دنیا بدر کیا جاسکتا ہے۔توپھر ڈر کس بات کا ہے؟ تازہ ترین پلی بارگین کا فراڈ منظر عام پر آتے ہی زبان زد عوام ہو چکا ہر طرف سے اس لین دین پر تبرے بھیجے جارہے ہیں یہ دیگر بیورو کریٹوں ،روپے پیسے کے فراڈی دہشت گردوں کے لیے آسان و اعلیٰ سبق ہے کہ جتنا بھی مال حرام جمع کرلو پکڑے بھی گئے تو صرف چار یا پانچ فیصد دے کر تمام الزامات سے بری ہوا جاسکتا ہے نہ مخصوص “پولیس تفتیش” بھگتنی ہوگی نہ چھترول نہ منجی لگانا نہ رت جگے برداشت کرنا پڑیں گے ۔کوئی بال بیکا نہ کرسکے گا ملازمت چلی جائے گی تو کیا ہوا۔جتنے کمالیے ہیں اتنے تواگر عمر نوح سے بھی زیادہ عمرمل جاتی تو پانچ ہزار سالوں تک ملازمت کرتے رہنے پر بھی نہیں کما سکتے تھے۔

خود وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایسے پلی بارگین کو فراڈ کہا ہے مگر چھوٹ جانے کا یہی ” احسن طریقہ “ہے عوام بالخصوص ایسا مطالبہ کرسکتی ہے کہ جناب وزیر اعظم اور ان کے شہزاد گان اور ان کے وکی لیکس والے معاملات بھی نیب دیکھ کر انھیں بھی پلی بارگین کرکے ان کی جان چھوڑ دیں تاکہ یہ قضیہ بھی مستقل طور پر حل ہو جائے۔انہوں نے جائز ناجائز ذرائع سے کمالیا باہر جمع کرلیا اب معافی تلافی کی یہی واحد صورت ہے جو کہ قانوناً بھی جائز ہے کہ ان سے چار یا پانچ فیصد وصول کر لو اور انھیں دودھ دھلا ثابت کرکے چھوڑ ڈالو بیرون ممالک تو ایسے تمام ملزمان جیلوں کی سزا بھی بھگتتے اور رقوم بھی کلی طور پر واپس کرتے ہیں ساری کھپ شپ عمرانی و اپوزیشنی دھمکیوں کے بعد ویسے ہی یہ آپشن بالآخر شریفین استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا انھیں استحقاق بھی حاصل ہے۔

Bribery

Bribery

جیلوں سے تو بچ جائیں گے مگرنیب قانون کے تحت عوامی نمائندگی حاصل نہ کرسکیں گے اگر ہمارے ملک کے قانون و رواج کے مطابق ایسی پلی بارگینیں مزید جاری رہیں تو ہم جو پہلے ہی اربوں ڈالرز کے مقروض ملک ہیں مزید مقروض ہوتے چلے جائیں گے۔کیونکہ بااثر افراد و کرپٹ بیورو کریٹ تو سیکریٹری خزانہ بلوچستان کیس کی شہ پا کر ملک کو لوٹ کھسوٹ کے ذریعے کنگلا کر ڈالیں گے اور “ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں” اربوں کھربوں کے فراڈ کرنے والوں کو کلین چٹ دے ڈالنا اچنبھا والی بات ہے ایسے ملزمان کو کٹہرے میں لایا جاتا چوکوں میں جوتیوں کے ہار ڈال کر منہ کالا کیے ہوئے گھمایا جاتا پھر اگلے ایسے کسی دوسرے چوک پر الٹا ٹانگا جاتا اور لوگ ایسے فریبیو ں کے منہ پر تھوکتے ہوئے گزرتے اور بالآخر انھیں تختہ دار پر کھینچا جاتا تاکہ یہ عبرت کا نشان بن جاتے اور آئندہ کوئی سرکاری خزانے کو لوٹنے کی جرأت نہ کرسکتا ۔ہر طاقتور و مقتدر شخصیت پر تو نیب کے بھی ہاتھ ڈالتے ہوئے بھی ٹانگیں کا نپتی ہیں کہ انھی کے بنائے گئے ڈیپارٹمنٹ میں مزید ملازمت کر نی ہوتی ہے اور کون اپنے بال بچوں کو بھوکا مارنا چاہے گا ؟ اس لیے مقتدر طاقتور افراد پر ہاتھ ڈالا ہی نہیں جا سکتا جیسا کہ زرداری کے سرے محل ،سوئس اکائونٹس دبئی محلات اور شریفوں کے وکی لیکس و لندنی فلیٹوں کے معاملات پر ثابت ہو چکا ہے سابق وزرائے اعظم گیلانی و راجہ رینٹل اب تک دندناتے پھرتے ہیں۔

غریب اگر بکری چور بھی ہوتا تو آج تک سالوں سے جیلوں میں گل سڑ رہا ہوتا۔ضمانت تو کیونکر ہوتی مقدمہ تک نہ چلایا جاتا کھلے میدان میں کسی سایہ دار درخت کے نیچے تاش یا لڈو کھیلنے والے مزدوروں و محنت کشوں کو پولیس جواری بنا کر گرفتار کرتی اور ہماری عدالتیں سزا دے ڈالتی ہیں مگراعلیٰ کلبوں میں حکومتی کار پرداز اور کرپٹ بیورو کریٹ افسران ساری رات نشوں میں دھت جوا کھیلتے ہو ئے کروڑوں کی ہار جیت کرلیں تو ان کی طرف کوئی پولیس یا ادارہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ نیب نے کارہائے نمایاں بھی کیے ہیں مگر اس میں بھی وہی گرفت میں آسکے جن کی اعلیٰ مقتدر شخصیات کی طرف سے سفارش نہ کی جاسکی سپریم کورٹ کو تو نیب والے افسران نے ویسے ہی نکو نک کر ڈالا ہے سپریم کورٹ پلی بارگین کے اس کھلے ظالمانہ فراڈ پر سویو موٹو نوٹس لے۔ اور غبن کرنے والے فراڈیوں رشوت خوروں سے مکمل مال بر آمد کروائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پا نی ہوسکے اور آئندہ یہ عمل مکمل طور پر ختم ہوجائے کہ اب تک ملک کو کرپٹ طاقتور حکمرانوں نے بہت لوٹ لیا ہے نہ عوام میں برداشت کی سکت باقی ہے نہ ہی ملک کا خزانہ اس کا مزید متحمل ہو سکتا ہے۔

اب وقت آن پہنچا ہے کہ نیب ایسے کالے قوانین میں ترمیم کرنے کے لیے درخواست سپریم کورٹ میں داخل کرے اور عوامی نمائندے اسمبلیوں میں بھی انھیں کالعدم قرار دے ڈالیں وگرنہ عوام کا پارہ ایسے فراڈیوں کے خلاف حدوں کو کراس کرنے لگا ہے بھوک سے بلکتے خود کشیاں کرتے اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ جل مرنے والوں کے لواحقین بالآخر اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ،آقائے نامدارمحمدۖ کے درود پاک کا ورد کرتے ،سیدی مرشدی یا نبی یا نبی کہتے ہوئے تحریک کی صورت میں نکلیں گے اور آمدہ عام انتخابات میں ہمہ قسم لٹیروں جاگیرداروں وڈیروں کرپٹ بیورو کریٹوں کے رشتہ دار امیدواروں کا تختہ دھڑام سے گرا کر ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری