نیب ٹیم دورہ لندن کے دوران شریف خاندان کے خلاف کوئی قابل ذکر شہادت حاصل نہ کر سکی

Sharif Family

Sharif Family

اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کی جائیدادوں سے متعلق تحقیقات کرنے والی قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم حالیہ دورہ لندن کے دوران کوئی بھی قابل مواخذہ شہادت حاصل نہ کرسکی اور پرانی دستاویزات پر ہی نوٹری پبلک کے اسٹمپ لگوا کر لوٹ گئی۔ واضح رہے کہ نیب کی 3 رکنی ٹیم گذشتہ ماہ جنوری کے وسط میں لندن پہنچی تھی۔

نیب کی ٹیم کم و بیش ایک ہفتہ لندن میں مقیم رہی اور اس دوران باہمی قانونی معاونت کے تحت ہوم آفس اور نیشنل کرائم ایجنسی کے حکام سے ملاقاتیں کیں۔

تاہم نیب افسران کی جانب سے 3 مرتبہ برطانیہ کے دورے کے باوجود برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی انٹرنیشنل کرمنلٹی یونٹ اور نیشنل کرائم ایجنسی نے باہمی قانونی معاونت کے تحت کوئی نئی معلومات نیب کو فراہم نہیں کیں۔

نیب کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ حسن اور حسین نواز شریف کے خلاف کسی دوسرے سرکاری ادارے نے بھی ایسی کوئی معلومات فراہم نہیں کیں جو اس مقدمے میں نیب کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے حسن نواز سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات نیب کو نہیں دی، کیونکہ وہ برطانوی شہری ہیں جبکہ حسین نواز سے متعلق معلومات باہمی قانونی معاونت کے تحت دینے پر رضامندی ظاہر کی لیکن یہ ساتھ ہی یہ واضح کیا کہ حسین نواز کا کوئی بینک اکاونٹ موجود نہیں۔

ایک ہفتے قیام کے دوران نیب ٹیم نے صرف ان دستاویزات پر نوٹری پبلک کے اسٹیمپ لگوائے جو پاناما کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی اور حسن نواز پہلے ہی عدالت میں جمع کراچکے ہیں۔

ان دستاویزات پر جےآئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کے کزن اختر راجا کی لا فرم کوئسٹ سولیسائٹر اور پاکستانی ہائی کمشین کے اسٹیمپ پہلے ہی لگ چکے ہیں۔

اس بار نیب ٹیم نے وہی دستاویزات کمپنیز ہاؤس کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہیں جو فلیگ شپ ریفرنس کے ضمنی ریفرنس کے سلسلے میں احتساب عدالت میں دائر کیے جانے کا امکان ہے۔

اس میں ان کمپنیوں کے لائسنس، ان کے کاروبار کی تفصیلات، ان کے اثاثوں اور ان کوقائم کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے کاغذات شامل ہیں۔کہاجاتا ہے کہ یہ کمپنیاں برطانوی قانون کے مطابق قائم کی گئیں، انھوں نے کام کیا اور پھر انھیں تحلیل کردیا گیا۔

کمپنیز ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں نے نہ کبھی قانون توڑا اور نہ ہی ان کے آپریشنز پر تحفظات ہیں۔ ان کمپنیوں کو اوپن مارکیٹ سے جائیدادیں خریدنے کے لیے بنایا گیا جس کے بعد انہیں فروخت کیا گیا۔

اس حوالے سے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک ترجمان نے رابطہ کرنے پر کسی طرح کا تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

تاہم نیب کے قریبی ذرائع نے برطانیہ سے مطلوبہ مدد حاصل کرنے میں ناکامی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھرپور کامیابی ملی ہے اور یہ تمام چیزیں بہت جلد سامنے آ جائیں گی۔