قوم کے معماروں کا کیا حال ہے صاحب!

Teacher

Teacher

تحریر : کومل سعید
چند دنوں سے مسلسل اخبارات میں ایک ہی جملہ پڑ ھنے کو مل رہا ہے جو پڑ ھ کر نظریں کسی اور خبر کی جا نب بڑ ھتی ہی نہیں ہیں ،لفظ سکتے میں آ جا تے ہیں ،زبا ن گنگ ہو جا تی ہے اور ذہن و دل حسب معمول حساس ہو نے کے نتیجے میں سو چوں کی چکی میں پسنے لگتے ہیں وہ چند جملے آ پ بھی ملا حظہ کر یں ۔” اساتذہ کو سزائیں دینے کی تجو یز زیر غور ہیں ” ۔” امتحا نی ناقص نتائج دینے والے اساتذہ کو سخت سے سخت سزا دی جا ئے گی ” ۔” اساتذہ کے خلاف سزائوں پہ جلد عمل درآ مد کو یقینی بنا ئے جا ئے گا ” قا رئین ! یہ وہ جملے ہیں جو اخبارات کی ز ینت بنتے ہیں اور دل کو کچو کے پہ کچو کے لگتے رہتے ہیں باقی کی کسر گھر میں ہو نے والے بچوں کے ایک واقعہ نے پو ری کر دی ۔وہ بھی آ پ کے گو ش گزار ہے ،بچے سکول سے واپس آ ئے یو نیفارم بدلا ،کھا نا کھا کر آ رام کر نے کے بجا ئے کھیل کو د میں لگ گئے ،کچھ ہی دیر گزری تو باقی کزنز بھی آ گئے اور سب بچوں نے مل کر کھیل کھیلنے کا پلا ن بنایا اب مسئلہ یہ در پیش تھا کہ کیا کھیل چنا جا ئے ،ہر بچے کی اپنی اپنی رائے تھی۔

تاہم سب سے بڑی بچی نے یہ تجو یز پیش کی کہ ایک کلاس لگا ئی جا ئے جس میں ایک استانی ہو گی اور با قی سب سٹوڈنٹ ہوں گے ابھی اس بات پہ متفقہ فیصلہ ہو نے کو ہی تھا کہ ان میں سے ایک بچی نے فوراً کہا کہ چور سپا ہی بن جا تے ہیں مگر استا نی والا کھیل با لکل نہیں کھیلنا ،تم سب کو پتہ ہے ہما ری ٹیچر کی روز بے عز تی ہو تی ہے۔ اگر کسی دن بڑی استا نی نہ کر یں تو انکل جو ہر مہینے میں ایک بار آ تے ہیں وہ بے عز تی کر دیتے ہیں اس لئے میں تو استا نی والا کھیل نہیں کھیلوں گی ۔۔۔۔۔میں یہ تما م صورتحال انتہا ئی انہما ک سے دیکھ رہی تھی اور آ خر میں اس بچی کی یہ دو تین با تیں میر ے دل پہ ایک گھو نسے کی طرح لگیں۔

کتنی ہی دیر میں نظریں جھکائے یہ سوچتی رہی کہ جس قوم کے نو نہاروں کے دلوں میں ذہنوں میں اپنے معماروں کی یہ عزت افزائی جو وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کس قدر غلط سوچ راسخ ہو رہی ہے ،اور آخر اس قوم کا مستقبل کیسا ہو گا ۔۔۔1947ء سے لے کر آ ج 2016 ء تک ہمارے ہر آ نیوالے حکمرانوں نے نئی سے نئی تعلیمی پا لیسیاں واضع کی ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان پا لیسیوں نے محض اساتذہ کو ذہنی مر یض اور طلبا ء کو شہ پسندی کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ مار نہیں پیار کے نعرے نے بچوں کو شہ دی اور آ ج اسی نعرہ کا نتیجہ ہے کہ کہ اگر بچہ استاد کے ساتھ بد تمیزی بھی کر لے تب بھی اساتذہ خا مو شی سے سہہ لیتے ہیں کہ کہیں اسے کچھ کہنے کی پا داش میں ان کو نو کری سے ہی ہا تھ نہ د ھو نے پڑ جا ئیں۔ یہی و جہ ہے کہ بچے یہ تو جا نتے ہیں کہ کتا بوں میں کیا لکھا ہے مگر اخلا ق کی تعریف سے نا لد ہی د یکھا ئی دیتے ہیں ۔پڑ ھو پنجا ب بڑ ھو پنجا پ کے نعرے نے اساتذہ کو ذہنی مر یض بنا دیا ،ہر میینے ما نیڑ نگ ،اور دیگر کئی وزیٹز کے دورے نے اساتذہ کو تعلیمی سر گر میوں سے دور کر دیا ہے۔

Pakistani School

Pakistani School

اب زیادہ تر تو جہ ریکارڈ ،سکول کی صفا ئی ستھرائی میں ہی گزر جا تا ہے اور ستم تو یہ ہے کہ کئی سکولوں میں کلاس فور سرے سے مو جو د ہی نہیں وہاں کے سکول جو کئی کئی کنالوں پہ مشتمل ہیں اس سکول کے تما م احا طے پہ جھاڑو بھی خود اساتذہ لگا تے ہیں ،ٹو ائلٹ گندہ بچے کر تے ہیں مگر ان کی صفا ئی بھی اساتذہ کر تے ہیں تو خود سو چیں کہ کس ملک کے جس قوم کے معماروں کو قلم کتاب کی جگہ ایسے کا م تفویض کر دیئے جا ئیں پھر وہ ملک وہ قوم ترقی کر پا ئے گی ؟؟وہ ملک کہ جس کی عدالت میں جج استاد کے احترام میں کھڑا ہوا تھا آ ج اس ملک کو دیکھیں اس کی ترقی اس کے عروج کی انتہا ء دیکھیں اور دوسری جا نب اس ملک کو دیکھیں کہ جس کے اساتذہ کی ڈیوٹی ٹوائلٹ صاف کر نا بھی ہے اس کی حالت بھی سب کے سا منے ہے ۔مگر قصور اس ملک کا اس نظام کا بھی نہیں ظا ہر ہے کہ ہم تعلیمی پا لیسیاں واضع کر نے کیلئے بھی اس ملک کے افراد پہ اعتماد نہ کر تے ہو ئے بیرون مما لک کے ماہر تعلیم کی رائے کو مقدم جا نے گے تو انجا م کار تو یہی ہو گا ۔معلم کا مقم بہت بلند ہے یہ پیغمبری پیشہ ہے مگر ملک پا کستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے یہ دیکھنے میں آ یا ہے کہ اب معلم کی حیثیت (معذرت کیساتھ) حقیر سے حقیر تر ہو تی چلی جا رہی ہے جو اس قوم کے زوال کی علا مت ہے۔

پا کستان میں چور ،ڈاکو ،راہزن قاتل سرا عام گھوم رہے ہیں ان کے لئے کو ئی قانو ن ،کو ئی پا لیسی کو ئی سزا نہیں اگر ہے بھی تو محض ایک فون کی گھنٹی پہ سارے قا نون ختم ہو جا تے ہیں مگر بد قسمتی سے سزائیں ہیں بھی تو معماروں کیلئے جو اب معمار کم اور اس قوم کے بچوں کے نو کر زیادہ بنا دیئے گئے ہیں ۔کئی ایسے سکول جن میں بچوں کی تعداد نہیں تو بھی قصور وار استاد ،صفائی تو مجرم استاد،بچہ غیر حا ضر تو بھی الزام استاد پہ آخر کیوں ؟ کئی سکولوں میں تعداد کم ہو نے کی بناء پہ ہیڈ ٹیچرز کو ہر مہینے چکوال بلوا کر ذلیل کر نے کا سلسلہ بھی ابھی تک جوں کا توں جاری و ساری ہے اور ہر بار ایک ہی حکم سنا دیا جا تا ہے کہ تعداد کو بڑ ھا یا جا ئے ،جس علاقے میں آ بادی ہی نہیں وہاں کیا جن کے بچوں کو داخلہ دیا جائے؟۔

Pakistan

Pakistan

آخر اس ملک کے محسنوں کے ساتھ یہ رویہ کیوں روا رکھا جا رہا ہے تو اس سوال کے جواب میں کئی بار ایجو کیشن آ فیسر یہ کہتے ہیں کہ آ خر اساتذہ گو ر نمنٹ سے تنخواہ کس بات کی لے رہی ہے ۔۔۔تو عرض یہ ہے کہ تنخواہ تو وزیر ،صدر ،ایم این ایز ،ایم پی ایز،گورنر،دیگر وزراء بھی لے رہے ہیں تو ان کی نا قص کارکردگی پہ ان کی کیا کیا سزا تجو یز کی گئی ہے ۔۔بہر حال حساس دل حساس ذہن قلم لئے بناء نہیں رہ سکتا آگے اس کا کیا اثر ہو تا ہے وہ بھی اس ملک کی عدلیہ بتا چکی ہے کہ ” اگلے دن اخبارات میں پکوڑے بک رہے ہو تے ہیں ” مگر ہر فرد کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کر ے سو ہم لکھاری بھی کر رہے ہیں ،اس معاشرے اس ملک کے اس خطر ناک پہلو کو بارہا مر تبہ اجا گر کر چکے ہیں اور کر تے رہیں گے کیو نکہ یہ اس ملک کے معماروں کی عزت و تو قیر کا سوال ہے۔

تحریر : کومل سعید