قوم کے لئے مایوس کن وفاقی بجٹ

Budget

Budget

تحریر: محمد شاہد محمود
وفاقی حکومت نے 2015.16 کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔ فاقی بجٹ کی کاپیاں گزشتہ روز سکیورٹی کے پیش نظر قیدیوں کی وین میں پارلیمنٹ ہائوس پہنچائی گئیں۔ وزارت خزانہ اور ایف بی آر میں بجٹ دستاویزات قیدیوں کی وین میں بھر کر پارلیمنٹ ہائوس پہنچائیں گئیں جس کے بعد یہ دستاویزات وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی میں پیش کی گئیں۔ پارلیمنٹ ہائوس میں اس وقت قیدیوں کیلئے مختص وین ارکان پارلیمنٹ اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئیں جب انتہائی سخت پہرے میں اس وین کو پارلیمنٹ ہائوس کے گیٹ نمبر ایک سے اندر داخل کیا گیا اور ان دستاویزات کو پہلے مرحلے میں پارلیمنٹ ہائوس کے کمیٹی روم نمبر دو میں وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا جبکہ اس کے بعد ان دستاویزات کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں ارکان کی نشستوں پر رکھوایا گیا۔

قیدیوں کی یہ وین وزارت خزانہ نے خصوصی طور پر اڈیالہ جیل سے منگوائیں۔وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 4451.3 ارب روپے ہے جس میں وفاقی میزانیہ کا حجم 4089 ارب روپے ہے بجٹ میں 4.3فیصد کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے جو 13 سو ارب روپے سے زائد بنتاہے بجٹ میں 253.2ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کیے گئے ہیں جن میں کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 41.9ارب روپے سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز میں 54ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں 142.2ارب روپے کے ٹیکس اقدامات کیے گئے ہیں جبکہ 15ارب روپے انتظامی اقدامات کے زریعے حاصل کیے جائیں گے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 14.6ارب روپے سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز کی مد میں 4ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں 10.5ارب روپے کی ٹیکس رعایات بھی فراہم کی گئی ہیں۔

بجٹ میں اٹھائے ٹیکس اقدامات کی وجہ سے سیگریٹ ، مشروبات ،موبائل فونز ، ڈیری مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی۔بجلی کے بلوں کا ود ہولڈنگ ٹیکس کے لئے تھریش ہولڈ 75ہزار روپے کرنے سے صارفین پر بل کے بوجھ میں اضافہ ہوگا بجٹ میں سرکاری ملازمین کو جاری بنیادی تنخواہ میں 7.5فیصد کا اضافہ ایڈہاک ریلیف کی مد میں دیا گیا ہے جبکہ ملازمین کو 2011ـاور 2012ملنے میں ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم کردئیے گئے ہیں سرکاری ملازمین کے میڈیکل الاونس میں 25فیصد اضافہ کردیا گیا ہے مزدوروں کے لئے کم سے کم معاوضہ کو بارہ ہزار سے بڑھا کر تیرہ ہزار روپے ماہانہ کردیا گیا ہے وفاقی سطح کے تمام پنشنرز کی پنشن میں 7.5فیصد کیا گیا ہے پنشنزز کے میڈکل الاونس کو بھی 25فیصد بڑھا دیا گیا ہے پنشنرز اور سنیئر شہریوں کے لئے قومی بچت کی بہبود سکیم میں سرمایہ کاری حد 30لاکھ روپے سے بڑھا کر 40فیصد کردی گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے وفاقی بجٹ کو مایوس کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تنخواہوں میں ساڑھے 7 فیصد ملازمین سے زیادتی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر بجٹ پیش کیا گیا۔

حکومت ریونیو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ مراعات یافتہ طبقے کو نوازا گیا ہے۔ معاشی دھماکے کرنے کی دعویدار حکومت نے بجٹ میں عام اور غریب عوام کا ہی دھماکہ کردیا۔ اسحاق ڈار 13 ہزار میں کسی غریب کے گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیںکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ساڑھے 7 فیصد اضافہ بہت زیادتی ہے، مزید اضافہ کیا جائے۔ بجٹ تقریر میں 162 صفحے تک حکومتی تعریفوں کے پل باندھے گئے ہیں۔ جہازوں کے پرزے سستے کرنے پر عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا؟ قومی بجٹ تقریر سے مایوسی ہوئی۔ دال، دودھ، چینی اور دیگر اشیائے خورو نوش مہنگی کی گئیں۔ غریبوں کو کچھ نہیں دیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی بجٹ کو مایوس کن اور امیر طبقے کے مفادات کا امین قرار دیتے ہوئے کہا کہ شریف حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ میں مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے اور غرباء کیلئے کسی قسم کے ریلیف کا اعلان نہیں کیا گیا۔

Ishaq Dar

Ishaq Dar

میاں نواز شریف کی حکومت معمولی منصوبوں کی تشہیر پر بھارے مالی وسائل جھونکتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بجٹ میں صحت، تعلیم اور زراعت کے شعبوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے۔ ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ بجٹ سرمایہ کاروں کا ہے جس میں امیر کو مراعات اور غریب کو ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے بوجھ سے مارنے کا پورا سامان کیا گیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ بجٹ مایوس کن اور مزدور کش ہے، اس بجٹ میں ملک کی غریب اور پسی ہوئی عوام کے لئے کوئی ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ عوام نے حکمرانوں سے جو امیدیں لگا رکھی تھیں ان کا بھی خون کیا گیا۔ حکمران اسی طرح ڈینگیں مارتے رہیں گے اور آئندہ سال بھی انہیں قرضوں پر گزارا کرنا پڑے گا۔ شیخ رشید نے کہا کہ وزیر خزانہ اعداد و شمار کی ہیرپھیر میں ماہر ہیں۔ بھاشا ڈیم کا نہیں معلوم میری زندگی میں بنے گا یا نہیں، حکومت ریونیو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا ہے کہ پیش کیا جانے والا روائتی بجٹ ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ بجٹ کی حقیقت ہاتھی کے دانت جیسی ہے گزشتہ سال کے بجٹ کی طرح موجودہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کے قرضوں پر بنایا گیا ہے۔ اعجاز الحق نے کہا کہ بجٹ میں مزدوروں کو بہت سے فائدے دیئے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے کہا کہ بجٹ الفاظ کا ہیرپھیر ہے، غریب عوام کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسدعمر نے کہا ہے کہ بجٹ کے حوالے سے پی ٹی آئی اپنا نکتہ نظر اسمبلی میں پیش کرے گی۔

دھرنے کی وجہ سے پی ٹی آئی پر الزامات لگائے جارہے ہیں، حکومت پچھلے دو سالوں کی سرمایہ کاری کی شرح کو دیکھے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والوں نے دونوں ہاتھوں سے قرضے مانگنے شروع کردیئے ہیں۔ اس بجٹ سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔عوام کی بڑی تعداد نے وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2015ـ16ء کیلئے پیش کئے جانے والے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ بجٹ میں عام لوگوں کو قرضے میں جکڑنے کا پروگرام بنایا گیا۔

بجٹ میں امرا اور کاروباری لوگوں کو نوازا گیا، عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ مزدوری کرنیوالوں کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔ بجٹ اسی وقت اچھا ہوگا جب حکومت مہنگائی پر کنٹرول رکھے گی۔ بجٹ سے عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ ٹیکس ان اشیا پر کم کیا گیا ہے جس کا عام افراد کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایک غریب آدمی کی ضرورت سستی بجلی، صحت کی سہولیات اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات ہیں جن کو پورا کرنا عام آدمی کے بس سے باہر ہو چکا ہے بجٹ میں ایسے افراد کو کیا ریلیف دیا گیا ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمتوں میں نوجوانوں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا ہے بلکہ انہیں قرضے لینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ جس ملک میں امن و امان نہیں وہاں کاروبار کیسے چلے گا۔ ابھی تو بجٹ پیش کیا گیا ہے عوام کو ہر ماہ منی بجٹ بھگتنا پڑیگا۔ صوبائی حکومتیں جب اپنے بجٹ پیش کریں گی تو مہنگائی اس وقت اور زیادہ ہو جائیگی۔

Shahid Mehmood

Shahid Mehmood

تحریر: محمد شاہد محمود