نواز شریف، عوامی عدالت سے سرخرو

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر: کھئیل داس کوہستانی
ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف نے اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی وزارت عظمیٰ سے محرومی کے بعد اسلام آباد سے لاہور تک تاریخی ریلی نکال کر یہ ثابت کردیا کہ وہ ہی اصل میں عوام کے محبوب قائد ہیں۔ انہوں نے لاہور تک ریلی نکالنے کے لئے موٹروے کے بجائے جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا۔ کہا جاتا ہے کہ فیصلہ بدلنے کے لئے ان پر دباؤ بھی ڈالا گیا مگر انہوں نے کسی بھی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

قارئین! محمد نوازشریف کی شخصیت کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ وہ دلیر اور جرأت مند سیاست دان ہیں۔ جب وہ کوئی فیصلہ کرلیتے ہیں تو وہ نتائج کی پروا کئے بغیر اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ لہٰذا پنجاب ہاؤس سے جی ٹی روڈ کے لئے ریلی نکالے جانے کا فیصلہ حتمی تھا۔ حکومت جانے کے بعد محمد نوازشریف کا یہ قافلہ جب پنجاب ہاؤس سے روانہ ہوا تو راقم الحروف بھی اس میں شریک تھا۔ میاں محمد نوازشریف کا اسلام آباد، راولپنڈی، روات، گوجر خان، جہلم، گجرات، گوجرانوالہ اور لاہور میں جس طرح تاریخی اور فقیہ المثال استقبال کیا گیا اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کا اقتدار سے محرومی کے فوری بعد عوامی سطح پر اتنا عظیم الشان استقبال کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوامی عدالت میں سرخرو ہوگئے۔ ریلی کے تمام راستے میں میں نے مشاہدہ کیا کہ شدید گرمی اور دھوپ میں خواتین، بچے اور بوڑھے اپنے محبوب قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔

خاص طور پر نوجوانوں کی بڑی تعداد میں موجودگی بڑی حوصلہ افزا تھی جو نوازشریف پر پھولوں کی پٹیاں نچھاور کررہے تھے اور پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔ میرے لیے یہ بات نہایت خوشگوار تھی کہ جہلم سے لاہور تک ریلی میں لاکھوں افراد نے شرکت کرکے محمد نوازشریف کی بے گناہی پر مہر تصدیق ثبت کردی تھی۔ بعدازاں سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف نے مزار اقبال پر بھی حاضری دی۔ راقم الحروف اس موقع پر اپنے قائد کے ہمراہ موجود تھا جبکہ اس دوران ہونے والے اجلاسوں مین مجھے شرکت کا موقع ملا۔ اس دوران سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف نے اجتماعات، اجلاسوں اور میڈیا سے خطاب کیا۔ مجھے محمد نوازشریف کے سیاسی خیالات جاننے اور ان کے سیاسی ویژن سے آگاہی کا بھی بھرپور موقع ملا۔ قارئین یہ کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ پاکستان میں آج تک کسی وزیر اعظم کو اس کے عہدے کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور سازشی ٹولے نے ہمیشہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کی اور عوام کے ووٹ کا تقدس پامال کیا۔ محمد نوازشریف کے خلاف بھی ایسا ہی کٹھ پتلی تماشا شروع کیا گیا۔ دنیا حیران ہے کہ پاکستان کا ایک ایسا وزیر اعظم جس نے دہشتگردی کا خاتمہ کرکے ملک میں امن قائم کیا۔

زبوں حال معیشت کی بحالی کے لئے دن رات محنت کی اور معیشت کو دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل کیا جانے لگا۔ جیسے خزانہ خالی ملا تھا مگر اس نے زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیئے۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے راستے ہموار کردیئے۔ موٹرویز اور شاہراہوں کا جال بچھایا، توانائی بحران کے خاتمے کے لئے انتہک محنت کی اور پے در پے توانائی کے منصوبے شروع کئے جس کی وجہ سے عوام بجلی کے بحران سے کسی حد تک باہر نکل آئے ہیں اور جلد ہی نئے منصوبے مکمل ہونے کے بعد بجلی کا بحران مکمل ختم ہوجائے گا۔ یہ وطن عزیز کی بدنصیبی ہے کہ بیشتر حکومتوں نے عوام کو بڑے منصوبے نہیں دیئے مگر محمد نوازشریف نے گیم چینجر منصوبہ سی پیک قوم کو دیا۔ کراچی کی رونقیں بحال کیں، خوف کی فضا ختم کی اور کسی بھی بڑی طاقت سے مرعوب ہوئے بغیر پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا۔

دنیا حیران ہے کہ ایسے وزیر اعظم کے خلاف سازشی ٹولے نے اپنی کٹھ پتلیوں عمران خان، طاہر القادری اور شیخ رشید اور دیگر کے ذریعے محمد نوازشریف کو نا اہل قرار دلوادیا۔ قارئین! آپ کو یاد ہوگا کہ پاکستان کے سینئر سیاست دار جاوید ہاشمی نے یہ بات دیا تھا کہ عمران خان نے ان سے کہا تھا کہ اس بار مارشل لا نہیں آئے گا بلکہ محمد نوازشریف کو عدالت کے ذریعے ہٹایا جائے گا اور کوئی اسے مارشل لا بھی نہیں کہے گا۔ موجودہ حالات میں جاوید ہاشمی کی بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف بھی مسلسل یہ بیانات دیتے رہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور نا اہلی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ محمد نوازشریف اپنی سیاسی حکمت عملی سے یہ بات واضح کردی ہے کہ عمران خان کی حیثیت اسٹیبلشمنٹ کے مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ انہوں نے عمران خان کو اپنے سیاسی تجربے کی بدولت ایک متنازع شخصیت بنادیا ہے۔ نوازشریف کا یہ سوال بھی دعوت فکر دیتا ہے کہ کوئی ایسا جج موجود ہے جو مشرف کا احتساب کرے اور اسے سزا دے۔ پرویز مشرف کو عدالت نے استشہادی قرار دے رکھا ہے۔ عدلیہ نے محمد نوازشریف کے خلاف جو بھی فیصلہ دیا اس سے قطع نظر یہ محمد نوازشریف ہی تھے جنہوں نے عدلیہ کی بحالی کے لئے لانگ مارچ شروع کیا تھا اور اب ابھی انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کیا ہے البتہ اختلاف رائے ہر شخص کا جمہوری حق ہے لیکن نوازشریف کے مخالفین یہ پروپیگنڈا کررہے تھے کہ وہ سپریم کورٹ پر حملہ کردیں گے۔ یا انہوں نے اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنا رکھی ہے یا پھر یہ کہ وہ اداروں کو باہم متصادم دیکھنا چاہتے ہیں یا اداروں پر دباؤ ڈال رہے ہیں مگر محمد نوازشریف نے سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرکے اور پر امن سیاسی جدوجہد کا آغاز کرکے مخالفین کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیئے ہیں۔ مخالفین نے یہ بھی پروپیگنڈا کیا تھا کہ نوازشریف کی اقتدار سے محرومی کے بعد مسلم لیگ(ن) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی اور دھڑے بندی میں تقسیم ہوجائے گی مگر یہ محمد نوازشریف کی کرشماتی شخصیت کا کمال ہے کہ مسلم لیگ آج بھی اسی طرح متحد ہے جس طرح پہلے تھی۔ انہوں نے نئے وزیر اعظم خاقان عباسی کے حلف اٹھانے تک مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے۔

اب حکومت معمول کے مطابق اپنا کام کررہی ہے۔ دوسری جانب محمد نوازشریف کا ایجنڈا یہ ہے کہ وہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور عوامی مینڈیٹ کا تقسم بحال کرنے کا مشن لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ پنجاب کے عوام نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ توقع ہے کہ محمد نوازشریف ملک بھر کا دورہ کریں گے۔ چاروں صوبوں کے عوام تک اپنا نقطہ نظر پہنچائیں گے۔ سندھ کے عوام اور کارکن بھی ان کے دورے کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں کیونکہ محمد نوازشریف نے اپنے دورے اقتدار میں ہر مشکل وقت میں سندھ کے عوام خصوصاً اقلیتوں کی مدد کی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف جہاں بھی جائیں گے وہاں ان کا استقبال ایسا ہی ہوگا جیسے پنجاب کے عوام نے کیا ہے۔ عوامی عدالت نے محمد نوازشریف کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور قوتیں نوازشریف کو سیاست سے باہر کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے لئے عوامی عدالت کا فیصلہ یقیناًمایوس کن ہے مگر عوام کا فیصلہ ہی حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔

kheal das Khohstani

kheal das Khohstani

تحریر : کھئیل داس کوہستانی