آزادانہ انتخاب

Election

Election

تحریر : قادر خان یوسف زئی

نواز شریف اور ان کی مشاورتی ٹیم نے اپنے بیانیے میں تبدیلی کے بجائے شدید تنقید کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اداروں کے خلاف بیانات کا سلسلہ اُسی شدومد سے جاری ہے۔ اسلام آباد دھرنے میں مظاہرین کو ہزار ہزار روپے تقسیم کرنے کے حوالے سے بیان سامنے آنے کے بعد لگتا ہے کہ نواز شریف اپنے انتخابی بیانیے میں تبدیلی کے خواہاں نظر نہیں آتے۔ عوام میں مجھے کیوں نکالا؟، تحریک بحالی عدل اور پھر ووٹ کو عزت دو کے انتخابی نعرے کی پذیرائی میں بتدریج کمی ہورہی ہے۔ پاکستان میں حکومت کی رِٹ نہ ہونے کا جواب خود میاں نواز شریف کے پاس ہے۔ خلائی مخلوق اور شفاف انتخابات پر شکوک والا بیان سیاسی فرسٹریشن کا اظہار ہے، جس کا واحد مقصد اداروں کے ساتھ تنازعات کو مزید ہوا دینا ہے۔ دوسری جانب صائب مشورہ دیا جارہا ہے، انہیں اپنے 146146ترقیاتی کارناموں145145 کی بنیاد پر انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے، اداروں کے ساتھ محاذ آرائی میں شدت کا وقت بیت چکا۔ اب تمام تر توجہ عام انتخابات پر مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے دو متضاد موقف سامنے آرہے ہیں جس میں ایک جانب اس کے مرکزی صدر شہباز شریف اداروں کے خلاف بیانات میں محتاط و سیاسی مخالفین کے لیے سخت نظر آتے ہیں تو دوسری طرف سابق وزیراعظم اپنے بیانیے کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں۔ (ن) لیگ کے دونوں قائدین کے متضاد بیانات نے کارکنان کی سوچ کو مزید منتشر کردیا ہے کہ وہ اپنے سابق مرکزی صدر کی پالیسی پر چلیں یا پھر موجودہ مرکزی صدر کی پالیسی اپنائیں۔

مسلم لیگ (ن) کی متضاد پالیسیوں نے کارکنان کے جوش و جذبے میں کمی لانا شروع کردی ہے۔ نواز شریف ہر جلسے میں کارکنان سے اپنے ساتھ وفاداری کا حلف لیتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب دیگر سیاسی جماعتوں کے عام انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مقدس جنگ کی تیاری میں ہزاروں فدائیوں کو تیار کررہے ہوں۔ ہوش و تدبر سے خالی کھوکھلی تقاریر اور اشتعال انگیزی سیاسی جماعتوں کے کارکنان میں عدم برداشت کا سبب بن رہی ہے۔ گالی، سیاہی، جوتے اور اب گولی کی سیاست نے انتخابی عمل کے پُرامن ہونے پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ممکن نہیں کہ ہر امیدوار کی کارنر میٹنگ اور اس کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کرے۔ ہزاروں امیدواروں کے ساتھ لاکھوں کارکنان بھی مختلف خطرات کا سامنا کررہے ہیں، ذاتی سکیورٹی گارڈ رکھنے پر سوالات کھڑے کردیے جاتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ کہ ہم نے ایسے سیاسی حالات پیدا کیوں نہیں کیے جس میں کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنما یا امیدوار کے لیے بے خوف و خطر اپنی جماعت کے منشور کو پیش کرنے اور ووٹ کے حصول کے لیے پُرامن ماحول میسر ہو۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے بیانات کا موازنہ کریں تو ان کی تقاریر میں کارکنان میں جوش کے بجائے ہوش کھونے کی ترغیب ہی ملے گی، عدم تشدد کے بجائے عدم برداشت کا سبق ملے گا۔

جب سیاسی قائدین اپنی جذباتی تقاریر میں ہزاروں کے مجمع میں مخالفین کے خلاف سخت رویہ اختیار کریں گے تو اس کے اثرات ہمیں نچلی سطح پر نظر آئیں گے۔(ن) لیگ کے رویوں کے سبب ہی انہیں سیاسی نقصان پہنچ رہا ہے۔ چوہدری نثار کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے بانی اراکین میں صرف نواز شریف کے ساتھ وہ اکیلے رہ گئے ہیں۔ اسی طرح سندھ بلوچستان میں عدم توجہ کے سبب بلوچستان عوامی پارٹی نے (ن) لیگ کو آئندہ انتخابات میں بھی سیاسی نقصان دینے کا ارادہ پختہ کرلیا ہے۔ سب سے اہم جنوبی صوبہ پنجاب کے حوالے سے بننے والے نئے الائنس کا تحریک انصاف میں ضم ہونے کا فیصلہ بھی شریف برادران کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ خیبر پختونخوا، فاٹا میں اصلاحات کے ضمن میں اپنے اتحادیوں کے لیے سست روی کے مظاہرے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو مزید سیاسی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ سندھ کو (ن) لیگ کی سیاسی توجہ بہت تاخیر سے حاصل ہوئی ہے، اس لیے عوام میں اپنا اعتماد پیدا کرنے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب جب سندھ کی بدترین حالت کا اپنے صوبے سے موازنہ کرتے ہیں تو شاید انہیں علم نہیں کہ عوام میں غیر ارادی طور پر غصے کی لہر بھی دوڑ جاتی ہے کہ وفاق میں پانچ برس رہنے کے باوجود اب نت نئے وعدے کرکے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے۔

سندھ کے لیے خصوصی پیکیج پہلے بھی دیا جاسکتا تھا۔ (ن) لیگ اپنے تاریک مستقبل کے اے این پی اور ایم کیو ایم کے کندھوں پر روشن ہونے کی خواہش رکھتی ہے، لیکن سندھ کے دیہی علاقوں میں سندھی قوم پرست جماعتوں اور پی پی پی کے ٹکرائو کے درمیان مسلم لیگ (ن) کو جگہ ملنا مشکل ہے۔سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ جس طرح گزشتہ عام انتخابات میں اے این پی اور پی پی پی کو دیوار سے لگاکر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی طرح موجودہ صورت حال بتدریج مسلم لیگ (ن) کے لیے ناخوشگوار بن سکتی ہے اور انتخابی اصلاحات میں دانستہ غلطی کا خمیازہ انہیں مزید بھگتنا پڑسکتا ہے۔ اس وقت تین مذہبی الائنس تشکیل پاچکے ہیں۔ مذہبی الائنس پر عوام کا اعتبار ووٹ دینے کے معاملے میں ہمیشہ دشوار رہا ہے، تاہم جس طرح رجحان بنایا جارہا ہے، اس سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ختم نبوتﷺ کے نامزدگی فارم میں دانستہ غلطیوں کی سزا دینے کا فیصلہ بھی ہو چکا ہے۔

مذہبی عدم برداشت ہمارے معاشرے کا جزولاینفک بن چکی ہے۔ مسالک، فرقوں اور مذہب کے نام پر کسی بھی وقت کسی کے بھی جذبات کو مشتعل کردینا ایشیائی ممالک میں عام سی بات ہے۔ جلتی پر تیل ڈالنے میں مہارت رکھنے والے سیاست دانوں اور ان کے پیروکاروں نے جس طرح مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے، اس کی کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے مختلف الائنس بننے کے بعد مذہبی ووٹ تقسیم ہوگا اور اس کا براہ راست فائدہ سیکولر جماعت کو پہنچے گا۔ ایک جانب نواز شریف ذہنی انتشار اور خوش فہمی کا شکار ہیں تو دوسری طرف ماحول اس طرح ترتیب دیا جارہا ہے کہ شکوک و شبہات کو فروغ مل رہا ہے۔ جس کی واضح مثال تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا انتخابات میں تاخیر سے متعلق اظہار خیال ہے۔ حیران کن بات ہے کہ قبل ازوقت انتخابات کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے اور لینے والی جماعت عام انتخابات میں تاخیر کی حمایت میں کمزور موقف کو پیش کررہی ہے تو دوسری طرف پاکستان کو درپیش مشکلات سے نکالنے کی خاطر کسی لائحہ عمل اور حکمت عملی کے فقدان نے آنے والی کسی بھی حکومت کے لیے خطرے کا الارم بجادیا ہے۔

اس وقت ملک کو بیرونی قوتوں سے زیادہ اندرونی خلفشار اور ریشہ دوانیوں سے خطرہ ہے۔ جس کے سدباب کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے سنجیدہ پالیسیوں کا نہ ہونا مایوس کن اور تشویش ناک عمل ہے۔ عوام کو آگاہ نہیں کیا جارہا کہ سیاسی جماعتیں پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کیا منصوبہ بندی رکھتی ہیں، ہزاروں ارب ڈالر کے قرضوں اور سود سے نجات کے لیے ان کے پاس کون سا معاشی پروگرام ہے۔ توانائی اور پانی کے عظیم بحران سے قوم کو نکالنے کے لیے ان کے پاس کون سے ہنگامی اقدامات ہیں۔ مسلم اکثریتی ممالک، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے ساتھ پاکستان کی مسلم آبادی کی مذہبی وابستگی میں ایران و سعودی جنگ کے مضمرات کو روکنے کے لیے کونسا عملی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔

افغانستان کے ساتھ مسلسل بگڑتے تعلقات اور امریکا کے ڈومور دبائو سے نکلنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اس پر خاموش ہیں۔ اگر سی پیک منصوبہ نہیں ہوتا تو کیا ان کے پاس پاکستان کے روشن مستقبل کا دوسرا خوش نما خواب عوام کو مطمئن کرنے کے لیے موجود تھا؟ عوام مسلسل مسائل میں پس رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیسی آزادی ہے؟ کیا ایسی 146146آزادی145145 کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے مقاصد کیا ہوئے؟ عجیب المیہ ہے کہ آج سیاست دانوں کو اداروں پر اعتماد نہیں تو اداروں کو سیاست دان پر اور عوام کو سیاست دانوں پر اعتماد نہیں۔ غیر ملکی قوتوں سے پاکستانی عوام کب آزاد ہوں گے کوئی نہیں جانتا۔ بس سب کا یہی کہنا ہے کہ مسائل کے حل کے لیے انہیں وزارت عظمیٰ پر بٹھا دیا جائے تو پاکستان کے سب مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہو جائیں گے۔ اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمارے حق میں کیا بہتر ہے۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی