ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن۔۔۔

Thar Desert

Thar Desert

تحریر: سیدہ نازاں جبیں
ماروی اور موروں کا دیس، صحرائے تھر پارکر پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا سترہواں (17) بڑا صحرا ہے جہاں سے روازانہ خلقِ خدا کے زندگی سے روٹھ جانے کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں جہاں کے مسائل سے سب بخوبی واقف ہیں مگر باوجود اس کے تھری باشندوں کی زندگی میں تبدیلی نہیں آرہی ۔ مختلف شعبہء فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ تھر پارکر کے حالات اور مسائل پر قلم اُٹھا چکے ہیں جس کے نتیجے میں غیر سرکاری و مختلف اداروں نے اور انفرادی طور پر لوگوں نے تھر کے رہائشیوں کی مدد کی ہے مگر ارباب ِ اقتدار کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔

تھرپارکر جہاں آئے دن شیر خواروں کی زندگی اُن سے وفا نہیں کر پاتی،جانور زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ، کیوں ؟ یہ ہم سب کو پتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب ختم ہوگا ؟؟ اگر مائیں فاقہ زدہ ہوں گی تو دنیا میں آنے والے بچّے کس طرح صحت مند ہوں گے۔شیر خوار بچّے صرف بھوک کے ہاتھوں اس دنیا سے منہ نہیں موڑ رہے بلکہ اُن میں پیدائشی طور پر اتنی قوتِ مدافعت ہی نہیں ہوتی کہ وہ بدلتے ہوئے موسموں کا مقابلہ کرسکیں اور بیماریوں کے حملوں سے بچ سکیں کیوں کہ بچّوں کو جنم دینے والی مائیں خود بہت کمزور ہوتی ہیں ۔ایک نجی اخبار کے مطابق گزشتہ ماہ میں بھی غذائی قلّت اور مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر 54 بچّے جاں بحق ہوگئے اور تاحال مٹھی کے سول اسپتال میں 100 سے زائد بچّے زیرِ علاج ہیں اور والدین کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں سہولیات اور عملہ نہ ہونے کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔مذکورہ اخبار کے اعدادو شمار کے مطابق فروری 2016 میں تھرپارکر میں 58 ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور جنوری 2016 میں بھی 120 سے زائد بچّے جاں بحق ہوئے تھے۔

Thar Desert Child

Thar Desert Child

گزشتہ برس تھرپارکر میں جب تواتر سے 350 کے لگ بھگ نوزائیدہ اور بڑے بچّے ناکافی غذائیت کے سبب ہلاک ہوگئے تو صوبائی حکومت نے وجہ یہ بتائی کہ یہ سب بد انتظامی اور بروقت اطلاعاتی نظام نہ ہونے سے ہوا لیکن اب انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا ۔کھوج یہ لگایا گیا کہ بچوں اور مائو ں کی شرح اموات کا بنیادی سبب صاف پانی کی قلت،خوراک کی کمی اور ذرائع آمدورفت کی دشواریوں کے نتیجے میں طبی سہولتوں کی عام آدمی تک رسائی ناممکن ہوجاتی ہے۔ایک اور نجی اخبار کے مطابق اس پورے ایک سال میں تھرپارکر میں 400 صاف پانی کے Reverse Osmosis Plantsلگائے گئے۔اس پلانٹ سے مٹھی شہر اور آس پاس کے تقریباً 100دیہاتوں کے 75ہزار مکینوں کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے مگر پیپلز پارٹی مٹھی کے صدر مہیش کمار ملانی کے مطابق 400میں سے 100کے قریب پلانٹس کچھ عرصہ چلنے کے بعد ناکارہ پڑے ہیں کیوں کہ مینٹیننس کا مسئلہ ہے۔

سینئر صحافی وتجزیہ نگار وسعت اللہ کی ایک تحریر کے مطابق،عملاً تھر کی 80 فیصد آبادی کا دارومدار اس وقت بارش کے پانی یا کنوئوں پر ہے۔پانی کا لیول سطح زمین سے 800 تا 1500 فٹ نیچے ہے۔لہٰذا جو پانی میسر ہے اس میں Arsenic(سنکھیا)اور Fluorideکی آمیزش اوسط سے زیادہ ہے یہ پانی پیاس تو بجھادیتا ہے مگر انسانی جسم کو طرح طرح کے مسائل میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔پچھلے ماہ بیچ لگژری ہوٹل میں کراچی ادبی میلے کا انعقاد ہوا جو کہ 3روز پر مشتمل تھا،اس میں تھرپارکر کی حالت زار سے متعلق ایک نشست کا اہتمام کیا گیا تاکہ وہاں کے مسائل کو اُجاگر کر کے اُن کے حل نکالے جائیں ۔ماہرین میں مسعود لوہار مینیجر UNDP-GEF,Small Grants Program،حصار فائونڈیشن کے CEO ڈاکٹر سونو کھنگھرانی اور HANDSکے ڈاکٹر تنویر احمد شیخ شامل تھے۔ڈاکٹر تنویر احمد شیخ نے بتایا کہ حکومت کے اعدادو شمار کے مطابق تھرپارکر میں سال 2014 میں 481 بچّے جو کہ 5سال سے کم عمروں کے تھے جاں بحق ہوئے اور سال 2015 میں 326 معصوموں کی زندگی کے چراغ گُل ہوئے! جب کہ نجی اعدادو شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ترقّیاتی پروگرام (UNDP-GEF)کے مینیجر مسعود لوہار نے تھرکی تاریخ پر سرسری سی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ 1900 ء سے اب تک تھرپارکر کے لوگوں کو 47 بار خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جو خشک سالی 1899-1900ء سے شروع ہوئی اور 1912 ء تک رہی اسے تھری،کچھی اور سندھی لوک ریت میں ”چھپانو”کہا جاتا ہے جو کہ فاقہ زدگی اور کال کے مترادف ہے۔اُس زمانے میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر افریقی ممالک کی طرف ہجرت کی جن میں کینیا،تنزانیہ اور جنوبی افریقہ شامل ہیں ۔ اُن میں سے بہت سے افرادجو ہندوستان سے چلے گئے تھے وہ یا تو مزدور تھے یا چھوٹے تاجر تھے مگر وہ لوگ جن کا انحصار مال مویشیوں (خصوصاًگائے،بیل)پر تھاانہیں سبزہ زار کے لئے سندھ،کَچھ،گجرات ،تھر۔راجھستان پھر واپس آنا پڑا ۔ہجرت کے یہ دو طرفہ نقش فطرت کی صدیوں پر محیط خرابی کو نمایاں کرتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گاندھی اور جناح کے آبائو اجداد کا تعلق بھی اسی سر زمین سے ہے۔اس کے علاوہ مسعود لوہار نے اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ ضلع تھرپارکر میں پری نگر ایسی جگہ ہے جو معدومی کے خطرے سے دوچار ہے جس کی وجہ نگر پارکر کے قریب ایک چھوٹے ڈیم کی تعمیر ہے اور اس تاریخی شہر کو محفوظ کرنے کے لئے ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

Thar Desert Child

Thar Desert Child

Hisaar Foundationکے چیئرمین ایگزیکیٹو آفیسر ،ڈاکٹر سونو کھنگھرانی نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے معاملات بد تر اور سنگین ہوتے جارہے ہیں پچھلے سال مئی اور جون میں شدید گرمی کے حملے سے بے تحاشا اموات ہوئیں۔اسی طرح پچھلے سال کے آخر یعنی نومبر اور دسمبر میں جو سرد لہر آئی اس کی وجہ سے بھی صحرائے تھر کے بے شمار لوگ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔انہوں نے حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ تھرپارکر کے 6ضلعوں کے اسپتال سے حاصل کردہ اعدادو شمار کے مطابق پچھلے 3سالوں میں 1600اموات ہوئیں !! حکومت کو چاہیئے کہ تھر کے موسمی کیلنڈر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سالانہ حکمت عملی تیار کرے تاکہ اموات پر قابو پایا جاسکے۔

اس کے علاوہ سونو کھنگھرانی نے بحران اور نازک دور میں حکمت عملی کے فقدان کی طرف بھی توجّہ مبذول کرائی اور مزید بتایا کہ تھر میں چند ہی بنیادی صحت کے مراکز ہیں اور جہاں موجود ہیں وہ صرف ڈسپینسری کے طور پر کام کرتے ہیں اور وہاں کا عملہ لوگوں کو کسی دوسرے ضلع بھیجنے کے بجائے ایک گولی مع رسید تھما دیتا ہے جب کہ انہیں علاج کے لئے اہم ضلعوں کی طرف جانا ہی پڑتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے معلومات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ تھرپاکر میں 4000 دیہات ہیں اور جو ریورس اوسموسس پلانٹس لگائے گئے ہیں ان میں سے بیشتر خراب ہوچکے اور لوگوں کو پانی فراہم کرنے سے قاصر ہیں اس کا حل یہ ہے کہ تھری مکینوں کو دریا کا پانی فراہم کیا جائے۔حصار فائونڈیشن کے چیئرمین نے تھرپارکر کے مستقل مسائل کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے،علاقے کی بہتری و ترقی کے لئے ضروری ہے کہ بجٹ بر وقت جاری کیا جائے ۔اس کے علاوہ بازاروں میں دستیاب اکثر ادویات بے فیض ہوتی ہیں تو یہ معاملہ پوری انتظامیہ کا ہے کہ وہ تھر کے غذائی اور موسمیاتی مسائل کو ذہن میں رکھیں اور ضروری و فوری اقدام کریں۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تک تھر کے یہ مسائل حل نہیں ہو جاتے ،ایسا لگتا ہے کہ ماروی اور موروں کے دیس صحرائے تھر پارکر میں زندگی سے روٹھنے کا موسم برقرار رہے گا! سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ تھری باشندوں کو خود مختار و خود کفیل بنایا جائے تاکہ وہ امداد کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے مسائل خود حل کر سکیں کیوں کہ مدد کے سہارے زیادہ عرصے تک گزارہ نہیں کیا جا سکتا۔

Naza Jabeen

Naza Jabeen

تحریر: سیدہ نازاں جبیں
nazaanjabeen@gmail.com