نئے پولیس قوانین اور حالت زار

Police

Police

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
پولیس محکمہ کے لیے 2017ء میں نئے رولز تیار کر لیے گئے ہیں پولیس ایکٹ 2002ء کے تحت ڈی آئی جی آر اینڈ ڈی احمد اسحاق جہانگیر نے پولیس رولز 2017 کا آخری والیم بھی تیار کر لیا ہے جب کہ تین والیم پہلے ہی 2 ماہ قبل آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز کی منظوری کے بعد حتمی منظوری کے لیے صوبائی حکومت کو بھجوائے گئے تھے ۔بتایا جاتا ہے والیم 4نو چیپٹرز پر مشتمل ہے جس میں آرگنائزیشن ،ویلفئیر، لاجسٹک، اکائونٹس ،ٹریفک برانچ ،بھرتی ،ریٹائر منٹ،آرمز ٹیلی کمیونیکیشن اور خصوصی یونٹس کے قوانین شامل کیے گئے ہیں 83سالہ پرانے قوانین کی جگہ اس طرح نئے رولز تیار کیے گئے ہیںپولیس کو جدید تقاضوں پر استوار کرنے کے لیے پہلے 1861پولیس ایکٹ کے تحت1934میں بننے والے قوانین تبدیل کرکے نئے پولیس رولز تیار ہو گئے ہیں یہ سب کچھ تو بہت اچھا ہے کہ پولیس کو جدید تقاضوں کے مطابق ضرور ڈھالنا چاہیے مگر در اصل تو پولیس کی فلاح و بہبود کے لیے احسن سکیموں کی تیاری اشد ضروری امر ہے۔

صرف وردیوں کی رنگت تبدیل کر ڈالنے سے پولیس ملازمین کا کوئی بھلا نہیں ہوسکتاوردی تبدیل کرنے میں بھی مال بنانے کی لمبی لمبی کہانیاں سننے کومل رہی ہیں ۔پولیس کے بارے میں عام عوامی تاثر یہی ہے کہ یہ ظلم کرتی ہے ۔ر شوت ستانی کے ذریعے جعلی پرچے درج کرتی اور جو جتنا زیادہ مال لگائے اسی کے حق میں تفتیش کا نتیجہ نکال ڈالتی ہے اور پھر عدالتوں سے بھی بے گناہوں کو عام طور پر سزا ہو جاتی ہے اور اصل ملزم پولیس کو لے دے کر بچ رہتے ہیں اور وہ محاورہ بھی زبان زد عام ہے کہ چوری ڈکیتی ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس میں تھانے دار کا حصہ نہ ہوکسی حد تک تو یہ بات درست محسوس ہوتی ہے مگر سبھی چوریوں ڈکیتیوں کا پولیس کو پتہ نہیں ہوتا آجکل تو مہنگائی شدید غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے چکوں کا ہر تیسرا چوتھا نوجوان بھوکوں مرتاوارداتیا بنا ہوا ہے۔

رات کے اندھیروں میں سڑک پر کسی بھی آتے جاتے ہوئے کو لوٹنا موبائل ،رقم اور موٹر سائیکل چھیننا اور اگر کوئی مزاحمت کرے تو اسے گولی کا مزا چکھا ڈالنا ایک عام روٹین کی بات ہے ان سب حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کی نفری ضرورت سے بہت ہی کم ہے ایک تحصیل میں زیادہ سے زیادہ3یا4تھانے ہوتے ہیں اور ہر ایک میں ایک انسپکٹر 2,3سب انسپکٹر اور اے ایس آئی کے علاوہ 12تا15تک سپاہی موجود ہوتے ہیں اب بھلا ایک پوری تحصیل کے لیے کل 70,75پولیس نفری کیا کرسکتی ہے۔پولیس فورس کم ازکم پانچ گنا بڑھانا وقت کا تقاضا ہے پھر کسی تھانہ کے ساتھ ملازمین حتیٰ کہ ڈی ایس پی وغیرہ کے لیے رہائش گاہیں قطعاً نہ ہیںکسی اہم شہر کے تھانہ کے ساتھ ایک بیرک ہوتی ہے جس میں 15,20سپاہیوں کے لکڑی کے صندوق پڑے ہوتے ہیں اور ٹوٹی پھوٹی چند چارپائیاں جن پر سونا اور آرام کرنا ملازمین کو نصیب بھی نہیں ہوتا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دن رات کوئی نہ کوئی ایسی واردات ضرور ہوجاتی ہے جہاں پولیس کا پہنچنا جلدی اور ہنگامی طور پر ضروری ہوتا ہے امن عامہ بحال رکھنا دہشت گردوں سے نمٹنا جو کہ جدید ترین اسلحہ اور اعلیٰ ٹرانسپورٹ رکھتے ہیں پولیس کے لیے انتہائی مشکل کام ہیں۔

پھر ان کی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ جس سے عام غریب آدمی کا گزارا بھی مشکل سے ہو سکتا ہے مگر انہیں تو ہروقت صاف ستھری وردی بوٹ پہننا ہوتے ہیںکسی قسم کی رہائشیں نہ ہونے کی وجہ سے پولیس ملازمین کے بال بچوں کی زندگی انتہائی ابتر گزرتی ہے اگر کسی سویلین کے مکان میں رہائش پذیر ہوں تو کرایہ اتنا زیادہ ہے کہ شاید پوری تنخواہ بھی اس کو پورا نہ کرسکے۔اگر کسی سویلین کے مکان میں ویسے ہی رہائش پذیر ہو جائیں یا اس سے ایک پورشن لے لیںتو ہر مقدمہ میںاس کی مداخلت اور سفارشوں سے پولیس نظام ہی نہیں چل سکتاالٹا پولیس ملازم ہی اس سویلین کا ملازم بن کر رہ جاتا ہے ایک کانسٹیبل اور حوالدار کی کم ازکم تنخواہ بالترتیب ایک لاکھ اور سوا لاکھ روپے ماہانہ بمعہ اعلیٰ رہائش اشد ضروری ہے اسی طرح سے ایس ایچ او انسپکٹرز سب انسپکٹرز اے ایس آئی کی سوا لاکھ سے 2لاکھ کے درمیا ن ہونا ضروری ہے اور متعلقہ تحصیل کے ڈی ایس پی کوتو ہر صورت دو لاکھ 20,30ہزار روپے سے زائد تنخواہ دی جانی چاہیے پھر ان سبھی سے قریبی مسجد میںحلف کہ اب وہ کسی صورت بھی رشوت ستانی میں ملوث نہ ہوں گے۔اور نہ ہی پیسہ ٹکہ لے کرغلط تفتیش کرکے اصل ملزمو ں کی بریت اور معصوموں کو سزا دلوائیں گے اور تفتیش کے لیے سبھی جدید ترین طریق استعمال کیے جانے چاہیے اس طرح پرانا طریقہ”آجا میرے بالما تیرا انتظار ہے”یعنی چھترول وغیرہ بالکل ختم ہوجانے چاہئیں کہ یہ انسانیت کی بھی توہین ہے۔پولیس کو وی آئی پی ڈیوٹیوں سے فارغ کرکے اس کے لیے اگر اشد ضروری سمجھا جائے تو علیحدہ فورس تیار کی جائے۔

دوبارہ عرض گذاشت ہوں کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ اور اعلیٰ رہائشیں جہاں ملازمین کے بال بچے بھی خوش وخرم رہ سکیںاشد ضروری امر ہے نیز یہ کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق آٹھ گھنٹے سے زائد ڈیوٹی کسی بھی صورت ایک ملازم سے نہیں لی جانی چاہیے کہ رت جگے کاٹ کر ان کی کارگردگی ویسے ہی کم ہو جاتی ہے پولیس کو خوف کی علامت نہیں بلکہ پیار و محبت وتھانوں کو مسائل حل کرنے کے سینٹر ز بنایا جائے تاکہ لوگ بلا خوف وخطر اپنی شکایات لے کر آئیں اور وہاں سے مفت ریلیف پائیںکسی جلسے جلوس دھرنے کے لیے اتنی تعداد کی فورس ضرور تعینات ہو۔کہ الٹا پولیس ہی کو مار نہ پڑجائے کہ اس سے پولیس فورس کا مورال ہی ڈائون ہو جا تا ہے ہر صورت پولیس کی فلاح و بہبود کے لیے اصلاحات کو اولین ترجیح دینا ضروری ہے کہ ہم ہر طرف سے مشکلات اور دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں اگر ہمارے مسلح ادارے مضبوط ہوں گے تو ہر طرح کے محاذ پر کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔پولیس کی اصلاح تبھی ہوسکے گی جب اسے خود مختار ادارہ بنایا جائے گا اور شہید ہونے والوں کے لیے کم ازکم 80لاکھ فی کس دیے جائیں وگرنہ کاغذات کا پیٹ بھر کر نئے قوانین کے والیم وغیرہ “بابا یہ سب کہانیاں ہیں”۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری