خبر یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔

Air Hostess

Air Hostess

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
آج منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہم نے کچھ خبروں سے چھیڑ چھاڑ کا پروگرام بنایا ہے ۔کیونکہ ہم بھی ”مکھی پہ مکھی مار” قسم کے کالم لکھ لکھ کر تھک بلکہ ” ہَپھ” چکے ۔۔۔۔ پہلی خبریہ کہ پی آئی اے نے فضائی میزبان (ایئرہوسٹس) کی عمر کی حد ساٹھ سال مقرر کر دی لیکن یہ نہیں بتایا کہ فضائی میزبان کو”چاچی” کہہ کر مخاطب کیاجائے گا یا”ماسی”۔ دنیا جہاں میں تو فضائی میزبان کی عمر 20 سے 30 سال تک مقرر کی جاتی ہے اور غیرشادی شدہ ہونا شرطِ اول ۔توکیا اب ہماری بیچاری ، مصیبت کی ماری ،”فضائی میزباننیاں” لال حویلی والے شیخ رشیدکی طرح 60 سال کی عمر تک کنواری ہی بیٹھی رہیں گی ؟۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اِس عمر تک پہنچتے پہنچتے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں ایسے میں اگرکوئی فضائی میزبان تھک کر لڑکھڑاتے ہوئے کسی مسافر کی گودمیں جاگری تواُسے مولویوں کے فتوؤں سے کون بچائے گا۔

اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی میزبانوں کو سنبھالنے کے لیے نوجوان ”معاون میزبانوں” کاہونا بھی ضروری ہے۔ اگرپائلٹ کے ساتھ ”معاون پائلٹ” ہوسکتا ہے تو فضائی میزبان کے ساتھ معاون میزبان کیوںنہیں؟۔ہماری پی آئی اے میں” باکمال لوگ” توپہلے ہی تھے کہ اُس میںعصمت محمودجیسے ”ٹُن” اور”انگوٹھاچھاپ” پائلٹ بھی عشروںتک جہاز اُڑاتے رہے ،اب اِس کی سروس بھی ”لاجواب” ہوجائے گی اور ہم بڑے فخرسے کہہ سکیںگے کہ ہمارے پاس انتہائی تجربہ کارفضائی میزبان بھی گروہ دَرگروہ۔ ہم نے تویہی سُناہے کہ جب انسان بھوکوںمرنے لگتاہے توگھر کاسامان بیچنے پراُتر آتاہے۔ تو کیا ہماری حکومت بھی بھوکوںمرنے لگی کہ پی آئی اے اور سٹیل مِل بیچنے کے لیے بیتاب؟۔

Pakistan Railway

Pakistan Railway

ریلوے تو بال بال بچ گئی کہ اسے خواجہ سعد رفیق جیسا وزیر مِل گیا جس نے ریلوے کی وزارت ہی اِس شرط پرسنبھالی تھی کہ اسے فروخت نہیںکیا جائے گا۔ پاکستان ریلوے فی الحال منافع تونہیں کمارہی لیکن خسارہ بھی بقدرِ اشکِ بُلبُل اور کوئی دِن جاتاہے جب ہماری سیٹیاںبجاتی ٹرینیںبھی انشاء اللہ ڈھیروںڈھیر منافع کمانے لگیںگی ۔سوال یہ کہ کیاپی آئی اے اورسٹیل مِل کوبچانے کے لیے حکومت کو خواجہ سعدرفیق جیساکوئی شخص میسرنہیں؟۔

دوسری خبریہ کہ وزیرِاعلیٰ سندھ سیّدقائم علی شاہ کوجنابِ آصف زرداری نے ہنگامی طورپر دبئی میںطلب کرلیا۔ شاہ صاحب نے حامی توبھر لی لیکن وہ وقت چونکہ اُن کی استراحت کاتھا اِس لیے وہ سوگئے ۔جب ایوانِ وزیرِاعلیٰ میںشورِ قیامت اُٹھا تو”خُدامِ ادب بولے ،ابھی آنکھ لگی ہے”۔ اُس جہازسے تووہ رہ گئے البتہ اگلی پروازپکڑ کروہ پانچ گھنٹے بعددبئی پہنچ ہی گئے ۔اب پتہ نہیں غصّے سے کھولتے بلوچ سردار(آصف زرداری )نے اُن کی کیادرگت بنائی ہوگی۔

اُنہیں تو پہلے ہی بہت غصّہ ہے کہ اُن کی پاکستان جانے کی ساری راہیں مسدوداور اُن کاجانشین بلاول زرداری ”بونگیاں” مارنے میں بے مثل۔ وہ مہینے میںایک دوبار پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کا دبئی میں اجلاس طلب کرلیتے ہیںتاکہ وہ اُنہیں کہہ سکیں کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ”میںہوں ناں”۔ اُدھربلاول نے پاکستان میںاپنے سیاسی وجود کااحساس دلانے کے لیے یہ بونگی ماری”بلدیاتی انتخابات میںنواز لیگ اپناحکومتی اثرورسوخ استعمال کرکے دوبارہ گنتی کے بہانے نتائج تبدیل کررہی ہے”۔

PPP

PPP

پیپلزپارٹی کو پنجاب میں”جھونگے” کی چندسیٹیں ہی تو ملیں بھلا نوازلیگ کواُن میںگَڑ بَڑ کروانے کی کیاضرورت۔ کوئی بلاول کوسمجھائے کہ ”گنجی دھوئے گی کیا ، نچوڑے گی کیا”۔ تحریکِ انصاف کہے توکہے کہ اُس کاپنجاب کے بلدیاتی انتخابات میںتھوڑاسہی مگرحصّہ توہے ،پیپلزپارٹی کاتو کہیں”ٹانواںٹانواں” کونسلرہی نظرآتا ہے۔

آجکل نوازلیگ اورتحریکِ انصاف کی اعلیٰ قیادت میںتو ”سیزفائر” ہے لیکن اب کپتان صاحب کی نشست چودھری سرورنے سنبھال لی ہے اوراُنہوںنے آراوز کے خلاف ہائی کورٹ اورالیکشن کمیشن جانے کااعلان کردیا ہے ،الزام وہی گھِسا پِٹا۔۔۔دھاندلی ،دھاندلی۔ اُدھرہمارے ٹھنڈے ٹھار سپیکر ایازصادق بھی آجکل تپے ہوئے نظرآتے ہیں شاہ محمودقریشی نے کہاکہ سپیکرہماری بات نہیںسنتے ۔ جواباََ سپیکرصاحب نے پارلیمنٹ میںکہا ”بعض ممبران بِل پیش نہیںکرتے لیکن میڈیامیں باتیںبہت کرتے ہیں۔اگرتحریکِ انصاف کے ممبران کوبِل پیش کرنانہیں آتاتو میںسکھانے کے لیے تیارہوں۔

وہ چھ ،چھ ماہ ایوان سے غیرحاضر رہتے ہیں اور فیصلہ نہیںکر پاتے کہ استعفے دیناہے کہ اجلاس میںجاناہے”۔ اسے کہتے ہیں ”تنگ آمد ،بجنگ آمد” لیکن قصورتو سپیکرصاحب کااپناکہ اگروہ مولانافضل الرحمٰن کی بات مانتے ہوئے سارے استعفے اُسی وقت ”پھَڑکا” دیتے تواُنہیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

Pakistan Public

Pakistan Public

اب ”خبرنما” کالموں کی بات۔ ایک معروف کالم نگار نے لکھا ”افسوس پاکستانی عوام کو بصیرت وبصارت سے عاری ہوسِ اقتدار کے مارے ہوئے وہ للّو پنجو نصیب ہوئے جوہر قسم کے وژن سے مکمل طورپر محروم تھے”۔ لکھاری موصوف درست کہتے ہیں، حاضرسٹاک میں” للّوپنجو” ہی باقی بچے ہیں ،لکھاری موصوف جیسے ارسطوانہ ذہن رکھنے والے نہیںاِس لیے گزارہ توانہی کے ساتھ ایسے ہی کرنا ہوگا جیسے کہ اُن کے محبوب لیڈرکپتان صاحب نے بھی ایک دفعہ تنگ آکرکہا تھا ”آسمانی فرشتے کہاںسے لاؤں ،انہی سے گزارہ کریں”۔

موصوف نے لکھا ”یہ بات میرے سیاسی ایمان اورگنہگارانہ وجدان کاحصّہ ہے کہ معاملہ اتنابگڑچکاکہ موجودہ مسخ شدہ نام نہادجمہوری نظام عوام کواِس دلدل سے نہیںنکال سکتا”۔ محترم لکھاری کے سیاسی ایمان کایہ عالم کہ وہ کبھی قاف لیگ کے ہاں پائے جاتے ہیں توکبھی ایم کیوایم کے ہاں اورآجکل تحریکِ انصاف کے ساتھ کہ اُنہیں ہراُس جماعت سے والہانہ عشق ہے جونواز لیگ کے خلاف ہو۔ ”گنہگارانہ وجدان” کے بارے میںاُنہیںکیا ، کُل عالم کوپتہ ہے کہ اُن کاوجدان اتناگنہگار کہ کبھی بھولے سے بھی سچ نہیںبولتا اِسی لیے اُن کی ساری پیشین گوئیاں اُلٹ ہوجاتی ہیں۔ ہمارے ”للّو پنجو” حکمران فی الحال تولکھاری موصوف کے سینے پرمونگ دَلنے کے لیے مضبوطی سے جمے ہوئے ہیںاور عام خیال یہی ہے کہ اگلی پانچ سالہ مدت بھی اُنہی کی اِس لیے سوائے ہمدردی کے ہمارے پاس لکھاری موصوف کے ”کَرب” کاکوئی علاج نہیں ۔۔۔۔

ڈاکٹرعامر لیاقت نے خبرنما نوحہ لکھتے ہوئے تحریکِ انصاف کے ”سونامیوں” کے بارے میںکہا کہ اُنہوںنے ”ریحام خاںکا شکوہ اورعمران خاںکا جواب شکوہ” کے عنوان سے کالم لکھا جس کے بعدتحریکِ انصاف کے ”سائبر بریگیڈ” نے اُن کی ماںکو مادرپدر آزاد گالیاں بکیں اوریہ بھی پوچھاگیا ”میںنے کبھی اپنی والدہ سے اپنے والد کانام پوچھا یانہیں۔ تحریکِ انصاف ایک ”مختلف جماعت” ہے اِس کاتو مجھے ”کنٹینرکے کوکین خطابات” سے اندازہ ہوگیاتھا لیکن اِس قدرمختلف بھی ہوسکتی ہے ،یہ کل رات سمجھ میںآیا”۔ عرض ہے کہ جب ڈاکٹرصاحب کپتان صاحب کے خطابات کو”کوکین خطابات” کہیںگے توپھر ردِعمل توہو گااِس لیے یہی کہاجا سکتاہے کہ ”ہور چوپو”۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر