شب و روز زندگی قسط 39

Sayed Khursheed Ahmad Bukhari

Sayed Khursheed Ahmad Bukhari

تحریر : انجم صحرائی
سال 1988 میں ہونے والے ان انتخابات سے ایک سال قبل صبح پاکستان ایک ماہنامہ میگزین کی شکل میں اپنا اشا عتی سفر شروع کر چکا تھا۔ ایک دن میں اپنے آفس میں مو جود تھا کہ بعد دو پہر ایک شخص مجھے ملنے آ یا اس نے اپنا تعارف کراتے ہو ئے بتا یا کہ میں پیر سید خورشید احمد شاہ بخاری کا ڈرائیور ہوں اور پیر صاحب نے آپ کو یاد کیا ہے میں نے پو چھا پیر صاحب کہاں ہیں تو کہنے لگا کہ پیر صاحب صدر بازار کی ٹھنڈی کھوئی والی مسجد میں نماز عصر پڑھیں گے میں نے کہا کہ ٹھیک میں آ جا ئوں گا اس نے کہا کہ پیر صاحب نے آپ کے لئے گا ڑی بھیجی ہے آپ میرے ساتھ چلیں۔

میں اس سے قبل پیر خورشید شاہ سے کبھی نہیں ملا تھا ملنے سے مراد بالمشا فہ کبھی نہیں ملا تھا البتہ ان کے چھو ٹے بھا ئی پیر سید محمد اقبال شاہ بخاری سے خا صی یاد اللہ تھی اقبال شاہ اس سے قبل چوک منڈا سے ایم پی اے بھی رہ چکے تھے اور وہ علا قائی سیاست میں زیادہ فعال اور متعارف تھے۔ وہ جب بھی لیہ آتے مرجان ہوٹل ضرور آتے مرجان ہوٹل کے حامد خان اور ڈاکٹر ظفر اقبال ملغا نی ان کے دوستوں میں سے تھے اور یوں ہمیں بھی مرجان ہوٹل میں جانے کے مواقع مل ہی جایا کرتے تھے اور یوں ہم بھی اقبال شاہ کے ممدوحین میں شا مل ہو گئے سیاسی اختلافات سے با لاتر اقبال بخاری ایک ہر دلعزیز شخصیت تھے دوست نواز تھے ان کی گفتگو میں ایک خاص طرح کی مٹھا س تھی ان کے لہجے کی یہی انفرادیت لو گوں کو ان کے زیادہ قریب لے جا تی تھی “مدینے وجیں ” ان کا تکیہ کلام تھا میری ان سے کئی ملا قاتیں رہیں مجھے پیر جگی ان کے آ ستانے پر جانے کا بھی کئی بار اتفاق ہوا ایک ملاقات جو بڑی یاد گار رہی ان کے ساتھ اس کا احوال سنا ئے دیتا ہوں ایک دن صبح صبح میرے مو بائل کی گھنٹی بجی دیکھا تو کو ئی انجانا نمبر تھا میں نے نظر انداز کر دیا اور اٹینڈ نہ کیا ۔ تھوڑی دیر بعد پھر اسی ان نون نمبر سے کال آئی میں نے کال ریسیو کی تو کال کر نے والے نے السلام و علیکم کے بعد سرا ئیکی میںپو چھا۔

انجم صحرائی بو لیندے پئے ہو ؟
میں نے بھی سرائیکی میں جواب دیا۔ جی آتسان کوں ؟
اس نے مجھے اپنا تعارف کرانے کی بجائے سائیں پیر اقبال شاہ گال کریسن پیر جگی توں ۔اگلے ہی لمحے اقبال بخاری لا ئن پر تھے سلام اور مدینے وجیں کی دعا کے بعد شکایت کی کہ کتنا عر صہ ہو گیا صحرائی کبھی ملے ہی نہیں ۔ ان کی یہ بات سن کر میں بہت شر مندہ ہوا مجھے پتہ تھا کہ گذرے دنوں میں پیر اقبال شاہ خاصے علیل رہے تھے اور انہیں علاج کے لئے نشتر ہسپتال ملتان بھی جا نا پڑا تھا اور میں ان کی عیادت کے لئے بھی نہیں جا سکا تھا میں نے معزرت کی تو بولے اللہ تیکوں مدینے گھن ونجے صحرائی یار ایویں نہ کر کڈ ھا ئیں پیر جگی آ تے سا کو ں مل دل بہوں کریندا پئے ملن کوں ۔ میں نے کہا ٹھیک جی جب آپ کہتے ہیں حاضر ہو جا ئوں گا کہنے لگے بس کل آ جائو دو پہر کا کھا نا میرے سا تھ کھائو ۔ میں نے کہا ٹھیک پیر صاحب ۔ اگلے دن صبح میں نے خبریںکے ملک مقبول الہی سے کہا کہ ہم نے پیر جگی چلنا ہے ملکمقبول الہی نے کہا جی استاد جی چلتے ہیں مگر سکول ڈیوٹی کے بعد ۔ جب ہم پیر جگی آستا نے پر پہنچے اقبال شاہ ہمارے منتظر تھے بڑی گرم جو شی سے ملے اپنے ملاز مین سے یہ کہتے ہو ہے کہ کھا نا لگائیں بو لے پہلے آپ کھانا کھا لیں پھر با تیں کر تے ہیں۔

Elections

Elections

کھانے کے بعداقبال شاہ نے بہت سی با تیں کیں وہ مجھے اپنے وکیل بیٹے جعفر شاہ سے ملا نا چا ہتے تھے مگر وہ لیہ ضلع کچہری جہاں ں وہ پریکٹس کرتے ہیںسے واپس نہیں آ ئے تھے بر سبیل تذ کرہ علا قے کے کسی بندہ کے مسئلہ کی بات بھی کی جس کے عقبہ پر کسی نے نا جائز قبضہ کر لیا تھا اس بندے سے ملوایا بھی مگر یہ مو ضوع ہماری ملاقات کا سبب نہیں تھا میں نے کا فی دفعہ پو چھا حضرت میرے لئے کو ئی حکم مگر اقبال شاہ بخاری نے بس یہی کہا کہ صحرائی بس تم سے ملنے کی خواہش ہو رہی تھی سو تمہیں زحمت دے دی پیر جگی آ نے کی میری خواہش تھی کہ جعفرشاہ تم سے سے مل لیتے مگر آج اسے دیر ہو گئی ہے لیہ سے واپسی پر ۔ جب ہم نے واپسی کے لئے اجازت چا ہی تو انہوں نے اپنے ملازم کو آ واز دے کر کہا آج جو پرندہ شکار کیا ہے وہ لے آئو صحرائی کو دینا ہے ۔ ملازم ایک شکار کیا پرندہ جو حلال کیا ہواتھا ایک شا پر میں ڈال کر لے آیا اور مجھے پکڑا دیا مجھے خا صی الجھن ہو رہی تھی کہ ہم اسے کیسے لے کر جائیں گے مگر انکار کر نا بھی مشکل تھا سو میں نے ملازم سے وہ شا پر لے لیا اور جا نے کے لئے کھڑے ہو گئے لیکن ابھی اجازت نہ ملی ساتھ مو دب کھڑے ملازم کو کہنے لگے کہ آج جو دو بکرے صبح مرید دے گئے تھے وہ ہیں ناں ملازم نے کہا جی سا ئیں ، حکم ہوا لے آ ئو وہ بکرے بھی ان کے سا تھ جا ئیں گے تھوڑی دیر میں خد مت گار دو بکروں سمیت حاضر تھا فرمایا صحرائی یار یہ صبح ایک مرید لا یا تھا اب یہ تمہارے لے جائو۔

میں نے کہا مرشد شکریہ مگر ہم انہیں کیسے لے جائیں گے ہم دو ہیں اور موٹر سا ئیکل ایک ۔میری بات سن بولے بات تو تمہاری درست ہے ٹھیک آپ لوگ جا ئیں منشی بکرے لیہ پہنچا دے گا ہم نے یہ سن کر سکھ کا سانس لیا اجازت لی اور لیہ کے لئے روانہ ہو گئے ۔ شام مغرب کی نماز کے بعد بخارٰ صاحب کے منشی کی کال مو صول ہو ئی جس نے بتایا کہ اس نے دو نوں بکرے بہاولنگر سے لیہ آ نے والی بس میں سوار کرا دئے ہیں بس لیہ پہنچ گئی ہو گی وصول کر لیںمیں نے پو چھا یہ بس کہاں رکتی ہے جواب ملا پرانے کالٹیکس پمپ پر پتہ کر لیں ۔ میں یہ بکرے گھر لے آ یا ان دو میں سے ایک بکرا میں نے ملک مقبول الہی کو دے دیا کہ وہ بھی پیر جگی یا ترا میں میرے ساتھ تھے ۔ کچھ ہی دن گذرے تھے کہ خبر پڑھی سید اقبال احمد شاہ بخاری وفات پا گئے انا للہ وانا الیہ راجعون بات ہو رہی تھی پیر خورشید احمد بخاری کے بلاوے کی میں نے پیغام لا نے والے کی بات سنی اور اس کے ساتھ ہو لیا ، مجھے یہ پتہ تھا کہ پیر خورشید ہو نے والے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند ہیں مگر چو نکہ ابھی پا کستان عوامی اتحاد نہیں بنا تھا اس لئے ہمارے پا ر ٹی امیدواروں میں ڈاکٹر مظہر علی خان ملک اور ذوالفقار نیازی متوقع امیدوار تھے خیر جب ہم مسجد میں پہنچے تو پیر خورشید بخاری کی اما مت میں نماز عصر کی جماعت ہو رہی تھی ، نماز کے بعد نمازیوں نے پیر صاحب سے ملنا شروع کر دیا بہت سے لوگ تھے ملاقات کرتے کرتے کا فی وقت گذر گیا۔

Voting

Voting

اس دوران میں صف کے ایک کو نے پر خا مو شی سے بیٹھا رہا ۔فارغ ہو نے کے بعد پیر صاحب میری طرف متوجہ ہو ئے اور مجھے اشا رے سے اپنے قریب آ نے کو کہا میں ان کے قریب گیا تو ہاتھ ملاتے ہو ئے گرم جو شی سے بغلگیر ہو تے ہو ئے حال احوال دریافت کیا ۔ میرا ہا تھ اپنے ہاتھ میں لئے ہو ئے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہو ئے خود بھی بیٹھ گئے میں بھی ان کے قریب بیٹھ گیا مو ضوع گفتگو ہو نے والے انتخابات ہی تھے میں نے انہیں بتایا کہ میرا تعلق ایک سیا سی جماعت سے ہے پارٹی پا لیسی آنے کے بعد ہی فیصلہ کر سکوں گا کہ میں کس حد تک آ نے والے انتخابات میں ان کی حمایت کر سکوں گا ۔ ہم نے نماز مغرب بھی اکٹھے ادا کی نماز کے بعد جب میں نے اجازت چا ہی تو پیر صاحب نے اپنے اسی ڈرا ئیور کو جو مجھے لے آ یا تھا کہا کہ مجھے گھر چھوڑ آ ئے میں ان دنوں ہا ئو سنگ کا لو نی کے ایک تین مرلہ کے ایک سادہ سے مکان میں کرایہ دار تھا اس مکان کا دروازہ لکڑی کا تھا جس پر پینٹ بھی نہیں ہوا ہوا تھا اس مکان کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس مکان میں پا نی کی دستیابی کے لئے ایک چھوٹا سا روٹر لگا تھا اور ہمیں کچن اور واش روم میں پا نی لے جا نے کے لئے ربڑ کا پا ئپ استعمال کر نا پڑتا تھا۔

پا ئپ میں لگا تار پا نی رہنے کی وجہ سے عمو ما سبز رنگ کی کائی پا ئپ میں جم جا تی اور اس طرح ہم بعض اوقات پینے کے صاف پا نی کے لئے پڑو سیوں کے مر ہون منت ہو تے ۔ ڈرائیور مجھے چھوٹنے گھر آیا جب میں گاڑی سے اترا تو درائیور نے بھی اپنی سیٹ چھوڑ دی اور گاڑی سے نکل کر مجھے ایک نوٹ پیش کیا اور بو لا کہ پیر صاحب نے مجھے کہا تھا کہیہ تبرک آپ کو پیش کردوں میں نے ڈرائیور کے ہا تھ میں پکڑے تبرک کو دیکھا اور شکریہ ادا کرتے ہو ئے کہا اس کی ابھی کو ئی ضرورت نہیں جب ہو گی میں خود پیر صاحب سے لے لوں گا۔ سیا ست کے اونٹ نے ایسی کروٹ لی کہ پاکستان عوامی اتحاد کے بینر تلے ہم اکٹھے ہو گئے ۔جیسا کہ میں نے بتایا کہ شیخ نذر حسین ایڈ وو کیٹ لیہ شہر کے صوبا ئی حلقہ سے پا کستان عوامی اتحاد کے امیدوار تھے ان کے علاوہ پا کستان عوامی اتحاد کی طرف سے کوٹ سلطان سے مہر منظور الہی کلاسرہ ایڈ وو کیٹ اور کروڑ سے ملک محمد سلیم بودلہ ایڈ وو کیٹ بھی انتخابات میں حصہ لے رہے تھے ۔شیخ نذر حسین ایڈ وو کیٹ کی طرف سے پرانی تحصیل کے ساتھ ملتان روڈ پر پا کستان عوامی اتحاد کا مر کزی الیکشن آ فس بنا یا گیا دونوں امیدوار اور ہم تمام کار کنان رات کو الیکشن مہم کے بعد اسی آ فس میں اکٹھے ہو تے اور اگلے روز کے پروگرام تشکیل دیئے جاتے۔

ان انتخابات میں مجھے پیرخرشو ر شید احمد بخاری کے ساتھ لیہ شہر کے سبھی محلوں اور حلقہ کے تقریبا سبھی دیہات ، چکوک اور شہروں میں منعقد ہو نے والے انتخا بی جلسوں میں تقاریر کر نے کا مو قع ملا ، پوری الیکشن مہم میںپیر خورشید احمد بخاری کے ساتھ رہاہم نیکوٹ سلطان صدر بازار میں بھی ایک بہت بڑا جلسہ کیا پیر خورشید ایک قادر الکلام مقرر تھے ان کی تقریریں سیا سی سے زیادہ مذ ہبی مو ضوعات لئے ہو تیں ۔ عمو ما جلسوں کا ما حول محفل میلاد جیسا ہو تا جلسوں کے اختتام پر درود سلام بھی پڑھا جا تا ۔ ۔ واحد بخش باروی جو ان دنوں نئے نئے انجمن تاجران کے جزل سیکریٹری بنے تھے پیر صاحب کے ان انتخابی جلسوں میں

آیا پیر جگی دا سردار
ووٹ دا ہے ایہہ حق دار

کے اشعار پر مشتمل نظم پڑھا کرتے تھے اور نظم پڑھتے ہو ئے جب یہ مصرعہ ادا کرتے ہے “ووٹ دا ایہہ ہے حقدار “تو اپنی انگلی کا اشارہ سٹیج پر بیٹھے ہو ئے پیر خورشید کی طرف کر تے واحد بخش باروی کا ایسا کر نا ہمارے بعض دو ستوں کے نزدیک نا انصا فی تھا ان کے خیال میں باروی صاحب ایسا کر کے لو گوں کو صرف پیر خورشید کو ووٹ دینے کا پیغام دیتے ہیں حالا نکہ وہاںسٹیج پر امیدوار تو اور بھی مو جود ہو تے ہیں باروی کو سب کی طرف اشارہ کر نا چا ہیئے اب ہمیں یہ کون سمجھا تا کہ امیدوار تو سب ہیں مگر پیر جگی کا سردار تو ایک ہی ہے صرف ایک ۔۔ اس روحانی سردار سے جڑا عقیدت کا جذ با تی رشتہ کسی اور امیدوار کے لئے بھلا کیسے جاگ سکتا ہے ۔۔باقی اگلی قسط میں

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی