قیامت آ بھی سکتی تھی

Pakistan

Pakistan

سنا ہے کہ شیطان بدکاری، بے حیائی، فحاشی اور بے غیرتی کو لوگوں کے سامنے لذت آور، پرکشش فعل بنا کر پیش کرتا ہے لیکن آج ہمار معاشرہ شیطان کی درس گاہ معلوم ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آج کا انسان شیطان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے شیطان بھی سوچتا ہوگا کہ آخر اُسے ہی کیوں شیطان کہا جاتا ہے؟ جبکہ دنیا میں اُس کے سینئر بھی موجود ہیں۔ جس میں شیطان بھی شرما جائے یہ ہے اُس آزاد خیال، ترقی یافتہ، باخلاق، باحیائ، خودمختار، تعلیم یافتہ، جمہوری، خوبصورت، خوف سیرت، مسلم معاشرے کا اصل چہرہ جس میں پانچ سالہ معصوم بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بننا پڑاملک میں منتخب جمہوری حکومت بھی ہے۔

آزاد اور خود مختار عدلیہ بھی موجود ہے، پڑھا لکھا باصلاحیت محکمہ پولیس بھی پوری طرح فعال ہے اور بہت ساری سرکاری و غیرسرکاری انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں معذوروں، بچوں، بزرگوں اور خاص طور پرعورتوں کے حقوق کے نام پر گلا پھاڑ پھاڑ کر دنیا بھر سے فنڈز اکھٹے کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خلاف اسلام خواتین کے جسم بازار میں با آسانی سستے اور مہنگے داموں سر عام فروخت ہوتے ہیں۔

شہر، شہر گائوں ِگائوں فحاشی اور جسم فروشی کا دھندہ کرنے والے اڈے گلی محلے کی سطح پر کام کر رہے ہیں۔ جسم فروش عورتیں بازاروں میں مردوں کو خود روک کر سستے داموں بدکاری کی دعوت دیتی ہیں پھر بھی اس معاشرے کے مردنے صرف پانچ سالہ معصوم کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناڈالا اور اسلامی معاشرے میں کوئی قیامت برپا نہیں ہوئی کہیں کوئی زلزلہ نہیں آیا اور نہ ہی کسی حکمران کو شرم آئی کہ وہ اس بے غیرتی کو اپنی نااہلی تصور کرتے ہوئے کرسی اقتدار سے الگ ہو جائے۔

Girl Rape

Girl Rape

کیا یہی ہے پڑھا لکھا پنجاب جس کے دارالحکومت لاہور کے لوگ اس قدر پڑھے لکھے، باشعورہیں کہ آسانی سے جسم دستیاب ہونے کے باوجود ایک معصوم جس کوابھی اپنی جنس کا بھی علم نہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا ؟کیا یہی ہے وہ مسلم معاشرہ جسے قائم کرنے کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے ہندوئوں اور انگریزوں سے آزادی مانگی تھی؟ کیا یہی ہے وہ پاکستان جس کا خواب مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟ کیا یہی ہے وہ پاکستان جس کے حصول کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی صرف کر دی تھی؟ کیا یہی ہے وہ پاکستان جس کی ہزاروں بیٹیوں نے دشمنوں کے ہاتھوں بے آبرو ہونے سے موت کو گلے لگانا بہتر سمجھا تھا۔

ہندوئوں اور انگریزوں کی غلامی کے باوجود جن مسلمانوں میں غیرت و حیاء زندہ تھی کہاں ہیں آج وہ مسلمان؟ پاکستانی قوم سے معذرت کے ساتھ کہ اگر میری قوم کی بیٹیوں کے ساتھ یہی سلوک ہونا تھا تو پھر ہندوئوں یا انگریزوں کی غلامی میں ہوتا تو آج اتنا دکھ نہ ہوتا جتنا آزاد، خودمختار اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری بن کر ہورہا ہے، مسلم قوانین، مسلم حکمران، مذہبی تنظیموں کی ٹھاٹھ باٹھ کے باوجود معاشرے میں بے حیائی، بدکاری اس قدر عروج حاصل کر گئی کہ صر ف پانچ سالہ معصوم کو اپنی مردانگی دیکھا دی بے حیاء، لعنتی معاشرے کے جہنمی افراد نے ا سلامی احکامات کی پیروی، قوم کی بیٹیوں کی آبرو کا تحفظ، مسلمانوں کی معاشی ترقی اور خوشحالی، آزاد، خودمختار اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی غرض سے برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے آزاد ریاست(پاکستان )کے لئے جدوجہد کی تھی۔افسوس کہ آج مسلمانوں کے آزاد ملک میں نہ تو اسلامی تعلیمات کا کہیں وجود نظر آتا ہے۔

نہ قوم کی بیٹیوں کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی اسلامی احکامات کی پیروی کی کوئی مثال باقی ہے۔ ہمیںجس ہندو اور انگریزبے حیاء کلچر سے اپنی آنے والے نسلوں کو بچاکر ایک خوبصورت، خوب سیرت اسلامی تہذیب و تمدن کے مطابق معاشرہ تشکیل دینا تھاہم آج اگرماضی کی طرف پلٹ کر دیکھیں جب غلامی ہمارا مقدر تھی، تو اسکے مقابلہ میں ہم آج بھی اُسی بے حیاء کلچر کے دل دادا ہیں۔ جب تک گھر، دفتر، گاڑی میں ناچ گانا نہ ہو ہمیں سکون نہیں ملتا۔ قارئین آج آپ کو بھی محترم کہنے کو دل نہیں کرتا۔ میں اور آپ کیوں اور کہاں کے محترم ہیں؟ بے حیاء، بے غیرت، بے شرم، بدکردار، بدکار معاشرے کا خوبصور ت حصہ ہوکر ہم کس طرح محترم ہو سکتے ہیں۔

مسلمان ہو کر جو دشمنوں کی بیٹیوں کا بھی احترام کیا کرتے ہیں اپنی قوم کی بیٹیوں کی عصمت کو نوچ رہے ہیں اپنے بیٹوں کی ایسی تربیت کرنے کے بعد بھی ہم محترم ہیں توپھر ایسا محترم ہونے سے موت اچھی کیا ہوا اگر آج جس معصوم کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ میری یا آپ کی بیٹی نہیں ؟ کیا ہوا اگر آج ہمارے دل خون کے آنسو نہیں رورہے ؟کیا ہوا جو آج ہمارے گھر میں صرف پانچ سالہ بیٹی کی عصمت لُٹ جانے کا ماتم نہیں؟ اگر ہمارا رویہ یہی رہا تو اللہ نہ کرنے وہ وقت دور نہیں جب ہمارے گھر میں بھی ایسا ہی ماتم ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے میں یا آپ ایسا صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور خودکشی کر لیں۔ ویسے بھی ایسے بے ضمیر، بدکار، بدکردار، بے حیاء معاشرے میں زندہ رہنے کو کسی غیرت مند کا دل نہیں چاہے گا۔ چیف جسٹس صاحب نے مغلپورہ لاہور میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی پر از خود نوٹس لے لیا ہے۔ ہونہار ایس پی عمر ورک اس مقدمہ کی تفتیش کررہے ہیں جو یقینا مجرموں کو جلد گرفتار کر لیں گے۔

ممکن ہے عدالت مجرموں کو سزائے موت سنا دے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ کراچی میں قتل ہونے والے شاہ زیب کے والدین کی طرح مجبور ہو کر کل سُنبل کے والدین بھی اپنی معصوم بچی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے والوں کو اللہ کی راہ میں معاف نہیں کریں گے؟کیا اسی کو انصاف کہتے ہیں کہ عدالت مجرموں کو سزائیں سنائے اور اُن کے ورثا مقتولین کے والدین اور بہن بھائیوں کو بھی قتل کرنے کی دھمکیاں دے کر مجرموں کے لئے معافی کا انتظام کرلیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار حکمران کس چیز پر حکمرانی کر رہے ہیں۔

Supreme Court

Supreme Court

عدالتیں کس کے ساتھ انصاف کر رہی ہیں؟ کیا حکمران صرف ملکی وسائل پر حکومت کر رہے ہیں؟کیا عوام کے جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کرنا، غیرت مند، باحیاء معاشرہ تشکیل دینا حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں؟ کیا ایسے سفاک درندہ صفت لوگوں کو سر عام گولی نہیں مار دینی چاہئے جو جسموں کے بازار میں رہائش پزیر ہونے کے باوجود پانچ سالہ معصوم کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ شرم آرہی ہے مجھے کہ میں اُس معاشرے کا حصہ ہوں جس کی معصوم بیٹی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے والے ابھی زندہ ہیں اور معاشرے کا ہر فرد اپنی ہی لگن میں مگن ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے کارکن، کسی بڑے خاندان کے فرد یا پھر کسی حکمران کے رشتہ دار کو کوئی تکلیف پہنچی ہوتی تو شہر کے شہر بند کر دیئے جاتے لیکن کسی غریب کی معصوم بیٹی کی عصمت لُٹ جانے پر کوئی قیامت نہیں آتی۔

اگر سُنبل کسی، میاں، رانا، زرداری، خان، مگسی، چودھری، عباسی، مخدوم، بھٹو، شریف، چٹھہ، بھائی یاکسی اور بڑے، دولت مند خاندان کی بیٹی ہوتی تو قیامت آبھی سکتی تھی لیکن افسوس کے غریب اپنی عصمت لُٹ جانے پر بھی آواز بلند نہیں کرتا۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا وزیراعلیٰ پنجاب متاثرہ بچی کے گھر جاکر فوٹوسیشن کرلیں گے، دوچار لاکھ روپے امداد کا اعلان کر دیں گے جو شاید صرف اعلان ہی رہ جائے گا، میڈیا کو گرما گرم خبروں اور نااہل، جاہل، نام نہاد، بے حس، شہرت کے لالچی،شاہ کا قصیدہ لکھنے والے کالم نگاروں کو اپنا اپنا تجزیہ پیش کرنے کے لئے نیا مواد حاصل ہوجائے گا اور پھر کسی دوسرے اہم موضوع کے سر اُٹھانے پر یہ معاملہ پس پشت چلا جائے گا۔ چیف جسٹس صاحب مجرموں کو سزائے موت سنا دیں اور اُس پر عمل بھی ہو جائے۔

تب بھی ایسے واقعات رُکتے نظر نہیں آتے ۔جب تک معاشرے میں پھیلی بے حیائی، فحاشی، جسم فروشی اور دیگر بے غیرتی والے معاملات کی روک تھام نہیں ہو گی تب تک حوا کی بیٹی اسی طرح بے آبرو ہوتی رہے گی۔ کتنا خوبصورت(خوف صورت) ہے ہمارا آزاد خیال جمہوری معاشرہ جس میں کہیں تو حوا کی بیٹی اپنے بوڑھے والدین کے کندھوں سے اپنے جہیز کا بوجھ کم کرنے، کہیں اپنے یتیم بہن بھایئوں یا اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی مرضی سے اپنی عصمت کا سودا کرتی ہے تو کہیں اُس کے جسم کو مفت میں اُس کی مرضی کے بغیر نوچ لیا جاتا ہے یعنی آج حواکی بیٹی ہونا دنیا کا سب سے بڑا جرم بن چکا ہے۔

کیا یہ وہی معاشرہ نہیں ہے جس میں والدین اپنی بیٹی کی عصمت لُٹ جانے کے ڈر سے بیٹی پیدا ہوتے ہی اُس کو زند ہ دفن کر دیا کرتے تھے؟ کون سے والدین ہونگے جو مغلپورہ میں ہونے والی درندگی کے بعد بیٹی کو جنم دینا چاہیں گے؟ لعنت ہے ایسے معاشرے پر، لعنت ہے ایسے عوام پر اور لعنت ہے ایسے حکمرانوں پر جو اپنی بیٹیوں کی آبرو کا تحفظ نہیں کر سکتے اور لعنت ہے ایسے نظام پر جس میں صرف امیر کو انسان ہونے کا حق حاصل ہو۔ لعنت ہے ایسے قانون اور ایسے انصاف پر جو مجرم کو صرف سزا سناتا ہے دیتا نہیں۔ لعنت ہے ایسی تہذیب پر جو انسان کو حیوان بناتی ہے، لعنت ہو ایسی تعلیم و تربیت پر جسے حاصل کرنے والے جاہل ہی رہ جائیں۔ لعنت ہے ایسے انسان نما حیوان پر جس کی حرکات دیکھ کر شیطان بھی شرما جائے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:کاہنہ نولاہور
imtiazali470@gmail.com