این آر او کے اجراء میں کوئی بدنیتی شامل نہیں تھی: مشرف کا عدالت میں جواب

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

اسلام آباد (جیوڈیسک) سابق صدر پرویز مشرف نے این آر او کیس میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا جس میں اس وقت کیے گئے اقدامات کو قانونی قرار دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ میں این آر او (قومی مفاہمتی آرڈیننس) سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی جس میں درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ این آر او کی وجہ سے ملک کا اربوں کا نقصان ہوا لہٰذا قانون بنانے والوں سے نقصان کی رقم وصول کی جائے۔

عدالت نے درخواست گزار پر ابتدائی سماعت کے بعد 24 اپریل کو سابق صدور آصف زرداری اور پرویز مشرف کو نوٹس جاری کیے تھے جب کہ آصف زرداری اور دیگر نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب بھی جمع کرادیا ہے۔

جیونیوز کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف نے بھی این آر او کیس میں جواب جمع کرادیا ہے جس میں کہا گیا ہےکہ این آر او سیاسی انتقام کے خاتمے اور انتخابی عمل شفاف بنانے کے لیے جاری کیا، این آر او کے اجراء میں کوئی بدنیتی اور مفاد شامل نہیں تھا۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ این آر او آرڈیننس اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھ کر جاری کیا، اس وقت کیے گئے اقدامات قانون کے مطابق تھے لہٰذا این آر او سے متعلق درخواست خارج کی جائے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں آصف زرداری اور پرویز مشرف کے بیرون ملک اثاثوں اور جائیداد کی تفصیلات بھی طلب کررکھی ہیں۔

سابق صدر پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007 کو قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا جسے این آر او کہا جاتا ہے، 7 دفعات پر مشتمل اس آرڈیننس کا مقصد قومی مفاہمت کا فروغ، سیاسی انتقام کی روایت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا بتایا گیا تھا جب کہ اس قانون کے تحت 8 ہزار سے زائد مقدمات بھی ختم کیے گئے۔

این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں نامی گرامی سیاستدان شامل ہیں جب کہ اسی قانون کے تحت سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی واپسی بھی ممکن ہو سکی تھی۔

این آر او کو اس کے اجرا کے تقریباً دو سال بعد 16 دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ نے کالعدم قرار دیا اور اس قانون کے تحت ختم کیے گئے مقدمات بحال کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔