نرسوں کا عالمی دن اور ان کی خدمات

Nurses Day

Nurses Day

تحریر : ماجد امجد ثمر
صحت کی بات کی جائے تو مریضوں کی صحت کی دیکھ بال کے معاملے میں نرسیں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔نرسنگ بنیادی طور پر صحت سے متعلقہ ایک ایسا شعبہ ہے جس کے فرائض میں مریضوں کی تیماداری اور ان کی صحت کا مکمل خیال رکھنا شامل ہے۔پاکستان میں لوگوں میں ایک غلط تصور پا یا جاتا ہے کہ نرس صرف ایک عورت ہی ہو سکتی ہے جبکہ ایسا ہرگز درست نہیں کیونکہ نرس تو ایک اصطلاح ہے جسے مرد اور عورت دونوں کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور (نرسنگ) ایک پیشہ ہے جسے میل اور فی میل دونوں ہی اپنا سکتے ہیں یوں اس پیشے میں کام کرنے یا اس میں مہارت رکھنے والے کسی مرد کو بھی نرس کہا جا سکتا ہے۔جیسے ڈاکٹر،پائیلٹ یا ڈرائیور ایک مرد بھی ہو سکتا ہے اور ایک خاتون بھی۔

کہا جاتا ہے کہ نرسنگ ایک فن ہے اور یہ تمام فنون میں سے سب سے خوبصورت اور عمدہ ترین فن ہے۔ نرسوں کا عالمی دن 12 مئی کو ہر سال دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ جس کا بڑا مقصد صحت کے شعبے میں نرسوں کی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔نرسوں کی ایک بین الاقوامی کونسل (آئی سی این ) تو یہ دن 1965 ء سے ہی مناتی آ رہی ہے لیکن جنوری 1974 ء میں اس دن کو باضابطہ طور پر منظور کیا گیا۔ دراصل 12 مئی ( فلورنس نا ئیٹنگیل) کی سالگرہ کا دن ہے اور یہ برطانیہ کی وہ خاتون ہے جسے جدید نرسنگ کا بانی مانا جاتاہے۔12مئی 1820 ء کو پیدا ہونے والی اور 13 اگست 1910ء کو 90 سال کی عمر میں وفات پا جانے والی اس خاتون کی نرسنگ کے شعبے میں خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

نرسوں کی فلاح کے لئے ایک ادارہ جس کا نام ( پاکستان نرسنگ کونسل) پی این سی 1948 ء میں قائم ہوا یہ ایک خودمختار ادارہ جو پاکستان نرسنگ کونسل ایکٹ 1952ء اور 1973ء کے آئین کے تخت پاکستان میں پریکٹس کرنے کے لئے نرسوں ،عطائیوں اور لیڈی وہیلتھ ورکرز کو رجسٹرڈ کرنے اور ان کو لائسنس فراہم کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔اس کے علاوہ صحت کے متعلق عوامی آگہی،نرسنگ کے طبی اور اخلاقی معیار کو بہتر بنانے اور جنرل فلاح و بہبود کی نگرانی جیسے فرائض شامل ہیں۔ اب اگر نرسوں کے فرائض کی بات کی جائے تو پاکستان میں رہتے ہوئے جو مسائل ایک مریض کو پیش آ سکتے ہیں عین ممکن ہے کہ وہی ایک نرس کو بھی درپیش ہوں لیکن ایک نرس جب اپنی ڈیوٹی پر ہوتی ہے تو وہ اپنی تمام ذاتی تکالیف اور دیگر پریشانیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف مریضوں کی تکلیف کا احساس کرتی اور ان کی خدمت میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔

Nurses

Nurses

اگر سرکاری ہسپتالوں میں اپنی خدمات پیش کرنے والی نرسوں کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ پہلو عام دیکھنے میں آئے گا کہ سرکاری نرسیں کام کرنے میں زرا نخرے دکھاتی ہیں جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ ہسپتال کی نرسیں مریضوں کے نخرے اٹھاتی ہیں۔ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ نرسوں کا اخلاقی رویہ بھی مریض کی صحت یابی کے معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔پاکستان میں صحت کا شعبہ نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی تعداد میں خاصی کمی کا شکار نظر آتا ہے ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں 50 پچاس مریضوں کے لئے صرف ایک نر س د ستیاب ہے۔اتنی کم تعداد ہونے کی وجہ سے ہر نرس پر کام کا بوجھ دوگنا بلکہ چوگنا ہوتاہے جس کی وجہ سے وہ بھی اپنے فرائض کو بہتر طور پر نہیں نبھا سکتیں۔گذشتہ سال نرسوں کے لئے 400 نئی آسامیوں کا فیصلہ تو کر لیا گیا تھا لیکن نااہل پالیسی میکرز کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے اس پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔

اس وقت 70,000 سترہزار آسامیوں پر صرف 49,000 انچاس ہزار رجسٹرڈ نرسیں پاکستان میں کام کر رہی ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دراصل پاکستان میں نرسنگ کی تعلیم دینے والے سکولوں کالجوں کی کمی،ان اداروں میں تربیت دینے والے اساتذہ کا فقدان،فنڈز کی کمی،لیبارٹریوں اور طبی سامان کی عدم دستیابی کے باعث نرسنگ کا شعبہ انتہائی متاثر ہو رہا ہے ۔اور یہ مسئلہ صرف پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ( عالمی ادارہ صحت ) کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق تمام دنیا میں جس تعداد میں مریض موجود ہیں اس حساب سے ان کی خدمت کے لئے دنیا بھر میں 4.3 ملین یعنی تتالیس لاکھ ڈاکٹروں،نرسوں،عطائیوںاور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف کی کمی ہے۔ ہمارے ملک میں خاص طور پر جو نرسیں اپنی خدمات فراہم کر رہی ہیں انہیں اس کے بدلے میں کوئی خاص سہولیات فراہم نہیں کی جاتیںوہ آئے روز ہی اپنے حقوق کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتی نظر آتی ہیں۔نرسوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طب کے شعبے میں نہ صرف مریض بلکہ ڈاکٹر خود بھی نرسوں کے محتاج ہوتے ہیں۔

Pakistani Nurses

Pakistani Nurses

جہاں نرسوں کو دیگر مشکلات کا سامنا ہے وہاں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مریضوں یا ان کے ساتھ رہنے والوں کا ڈیوٹی پر موجود نرسوں کے ساتھ چھیڑ خوانی اور ان کے موبائل نمبرز طلب کرنا تو پاکستان کے ہسپتالوں میں عام دکھائی دیتا ہے۔اس قسم کی تمام غیر اخلاقی حرکات کی وجہ سے نرسوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اس مقدس پیشے سے مایوسی اور بد ظنی کا شکار ہے۔کیونکہ وہ خود کو ایسے ماحول میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں ۔انہی چند وجوہات کی بنا ء پر پاکستانی خواتین اس شعبے میں آتے کتراتی ہیں۔جو کہ بڑے افسوس کی بات ہے کیونکہ اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں بلکہ عوام کا اپنا ہی منفی رویہ شامل ہے۔ میرے نزدیک اگر ان چند تجاویز پر عمل کر لیا جائے تو امید ہے کہ نرسنگ کے شعبے میں کافی حد تک بہتری آسکتی ہے۔

جس میں سب سے اول یہ کہ نرسوں اور نرسنگ شعبے کا وسیع پیمانے پر خوب قدرواحترام کیا جائے ان کی تنخوائوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے،نرسنگ کی تعلیم دینے والے اداروں میں اضافہ اور پھر وہاں سے فارغ التحصیل نرسوں کی نئی بھرتیوں میں اضافے کو یقینی بنایا جائے اور اس کے ساتھ نائٹ شفٹ پر کام کرنے والی نرسوں کو اضافی الائونس دیا جائے اور ہر ہسپتال کے احاطے میں دور دراز سے آئی نرسوں کی رہائش کا مناسب انتظام کیا جائے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ نرسنگ کے شعبے کوجاری کردہ فنڈز میں دلکش اضافہ کر دیا جائے تو امید ہے کہ اس سے نہ صرف نرسنگ کے شعبے میں بہتری آئے گی بلکہ لوگوں کا معیار صحت بھی مزید بہتر ہو گا۔

Majid Amjad Samar

Majid Amjad Samar

تحریر : ماجد امجد ثمر