تیل گیس بجلی کے بحران

Panama Leaks

Panama Leaks

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
انتہائی زیادہ قربانیوں سے حاصل کردہ پاک وطن کو کرپٹ بیورو کریٹوں اور ان کے سر پرست حکمرانوں نے بحرانوں کی سرز مین بنا ڈالا ہے اپنی من مرضیوں کے لیے قرضے لے لے کر ملک کو ڈیفالٹ کے قریب پہنچا دیا ہے ۔یہ انہونی لالچ زد ہ ذہنوں کی پیدوار ہے پانامہ لیکس کا اژدھا منہ کھولے کھڑا ہے ایسا لگتا ہے کہ پورے ملک کی سیاست کو ہی ہڑپ کرنے کو تلا بیٹھا ہے جو بھی جیتا دوسرے کا جینا دو بھر کر ڈالے گا چینلوں پر گالم گلوچ اسمبیلوں میں مار کٹائی ہاتھا پائی شروع ہو چکی ہے بس اب ایک دوسرے کو فائر مارنا باقی بچ گیا ہے اپوزیشنی و حکومتی سیاستدانوں کی ان حرکتوں سے لوگ ان کی شکل تک سے نفرت کر چکے ہیں۔

دوسری طرف تیل گیس و بجلی مسلسل مہنگی کی جا رہی ہے واپڈائی بیورو کریسی ملوں کو تقریباً ڈائریکٹ سپلائی مہیا کرکے سارا مال خود ہضم کر جاتی ہے ۔سارا ماہ بجلی کے میٹرز بند رکھنے یا انھیں ریورس کر ڈالنے کے یہ خود” ایکسپرٹ ماسٹرز” ہیں ملوں میں لاکھوں کی بجلی استعمال ہوتی ہے مگر یہ وصولی ہزاروں کی ڈالتے ہیں چونکہ بجلی کی چوری کو چیکنگ کرنے والے ہی تو چوروں کی نانی اماں بنے ہوئے ہیں بجلی چوری کو لائن لاسز کا نام دیا ہوا ہے بجلی 20فیصد چوری ہوتی ہے مگر اس سے کچھ زیادہ لائن لاسز کے ضمن میں درج کرتے ہیں یا عام صارفین پر ہر ماہ میٹر کی ریڈنگ سے زائد بل ڈا ل کر حساب کتاب برابر رکھا جاتا ہے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو بروقت ادائیگیاں نہ کرکے عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے دو چار کر دیا ہے۔

کمپنیوں اور واپڈا کے درمیان لین دین کے معاملات ہمیشہ گڑ بڑ رہنے کی وجو ہات تو عدلیہ ہی ڈھونڈھ سکتی ہے کہ بھاری رقومات کے لین دین کے اندر ہی سارا گھپلہ کیاجاتا ہے۔یہ رقوم جمع اور منہا نہیں ہوتیں بلکہ سیدھی بیورو کریٹس کے ذاتی اکائونٹس میں جاتی ہیں جو” انتہائی ایمانداری” سے حصہ بقدر جسہ اوپر تک باقاعدگی سے پہنچاتے ہیں ۔بجٹ کی جو رقوم تیل گیس اور بجلی کے لیے وصول ہوتی ہیں انھیں اپنے پسندیدہ بنک میں رکھ کر کروڑوں کا سود کماتے ہیں ۔حکومتی منتخب افرادبھی بڑی بڑی گاڑیاں اورہیرے جواہرات وصول کرنے کے بعد ہی تعمیراتی سکیموں کے فنڈز متعلقہ حکام کے حوالے کرتے رہے ہیں ایسی رقوم سے ہی اب ان کی نیک بخت اولادیں منتخب ہو چکیں کہ اربوں کمائے ہوئے سرمایہ سے کروڑوں خرچ کرکے ووٹوں کو خرید بھی لیں تو جاگیر دار ابن جاگیرادر کا کیانقصان ہے؟ بلوچستان سیکریٹری خزانہ کی طرح مال کے ڈھیر اپنے گھروں میں ڈمپ کیے ہوئے ہیں ان کے گھروں میں کوئی داخل ہو ہی نہیں ہو سکتا کہ تلاشی لی جاسکے اسی طرح بجلی تیار کرنے والی کمپنیاں کہاں جائیں انھیں صوبائی حکومتیں ہی فنڈز نہیں دیتیں اس طرح بجلی کا بحران شدید تر ہو گیا ہے۔

Electricity Crisis

Electricity Crisis

سمندری لہروں ،شمسی توانائی اور کوئلہ سے بھی بجلی تیار کی جاسکتی ہے مگر جونہی ایسی کسی سکیم کی طرف حکومتی تو جہ ہوئی تو کمپنیاں کروڑوں دیکر متعلقین کا منہ بند کر ڈالتی ہیں سمارٹ گرڈ اسٹیشنز دنیا بھر میں مقبول ہیں۔جہاں اربوں ٹن کوئلہ ہے وہاں کارخانے نہیں لگائے تھر سے کوئلہ کیسے ساہیوال کے قریب لگائی گئی سکیم میں پہنچے گا ۔سارا مال ہضم کرنے کا دھندہ ہے ہائیڈرل منصوبوں پر توجہ نہیں دی گئی پانی سے ڈیڑھ روپے فی یونٹ بجلی تیار ہو سکتی ہے مگر ہم تیل سے ہی ساڑھے سولہ روپے یونٹ بجلی تیار کرنے کو تلے ہوئے ہیں کالا باغ ڈیم تو سیاست کی نظر ہو گیا اربوں کی انویسٹمنٹ ضائع ہوگئی دوسرے ڈیم بنانے میں کیا امر مانع ہے؟ عوام سے تو آٹھ قسم کے بجلی کے بل وصول کیے جاتے ہیں۔

گیس اور تیل بھی انتہائی مہنگے کر ڈالے گئے ہیں کرپشن ختم ہو ہی نہیں سکتی جب تک ان لٹیروں کو دیہاتی تھانیداروں کے حوالے کرکے وصولیاں نہیں ڈالی جاتیں۔تیل پٹرول ڈیزل کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ میں خواہ کم ہی کیوں نہ ہو جائیں ہمارے ہاں ہر ماہ کی آخری رات پٹرولیم کا بم دھماکہ ضرور ہو جاتا ہے ہمارے سیاستدان آخر کیا کریں صرف مذمتی بیانات سے گزارا کر لیتے ہیں کہ ڈھیروں حرام مال سے انھیں بھی منہ مانگا ملتا ہی رہتا ہے ویسے بھی کشمیر کمیٹی جیسی کمیٹیاں جو منتخب نمائندوں پر بنی ہوتی ہیں صرف ان ممبران کی توندوں کو موٹا کرنے کے کام آتی ہیں ان کو فالتو سرمایہ نہ دیں تو وہ بگڑ کر حکومتی ایوانوں میں ہی ہلچل مچا دیں۔

اسلئے ہر حکمران زرداری پالیسی پر چلتا ہے کہ خود بھی کھائو اور دوسروں کو بھی کوئی ہڈی بوٹی ڈالتے رہو تاکہ اس پالتو جانور کی طرح مخصوص آوازیں نہ نکال سکیں اور حکومتی کاروبار “احسن طریقہ” سے چلتا رہے گیس کے چولہے تو چند گھنٹے ہی چلتے ہیں کئی بار بچوں اور ملازموں کو بغیر ناشتہ کیے سکول پہنچنا پڑتا ہے تیل ،خوردونوش کی اشیاء انتہائی مہنگی اور گیس بجلی بند بیروزگاری عروج پر پھر بھی حکمران دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی پو چھنے والا نہیں۔

Mian Ihsan Bari

Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری