آپریشن ضرب عضب: کامیابیاں، تحفظات اور خدشات

Operation Zarb e Azb

Operation Zarb e Azb

تحریر: آصف خورشید رانا
آپریشن ضرب عضب بلا شبہ دہشت گردی کے خلاف دنیا کا سب سے بڑا اور کامیاب آپریشن رہا۔تحریک طالبان سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد فوج نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کا نام رسول اکرم ۖ کی اس تلوار کے نام پر رکھا گیایہ تلوار آپ کو صحابی سعد بن عبادہ انصاری نے غزوہ احد سے قبل تحفہ میں دی تھی اور یہی وہ تلوار تھی جس پر آپ نے اپنے ساتھیوں کی جماعت سے میدان جنگ میں سوال کیا تھا کہ کون ہے جو اس کا حق ادا کرے گا تو ایک صحابی ابودجانہ جنہوں نے سرخ رنگ کی پٹی ماتھے پر باندھ رکھی تھی اٹھے اور تلوار لے کر اکڑتے ہوئے میدان کی طرف گئے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ اکڑ کو پسند نہیں کرتا لیکن ایسے موقع پر دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے کو بہت پسند کرتا ہے۔

عضب کا مطلب تیز دھار اور تیز چلنے والی تلوار ہے۔ اس آپریشن کو نام دینے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام مسلمانوں اور پاکستان کے دشمنوں کے لیے فیصلہ کن لڑائی کا وقت آ چکا تھا ۔آپریشن سے قبل حکومت مذاکرات کے آپشن استعمال کر چکی تھی لیکن مذاکرات کے دوران کراچی ائرپورٹ پر حملے نے مذاکرات کے آپشن کو ختم کر دیا ۔آپریشن ضرب عضب کو چار مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ جن میں پہلا مرحلہ دہشت گردوں کا خاتمہ، وزیرستان سے دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا مستقل خاتمہ ، تباہ حال تعمیری ڈھانچوں کو دوبارہ تعمیر کرنا اور آخری مرحلہ میںعلاقہ کا کنٹرول سول انتطامیہ کے حوالے کرنا۔ پہلااور دوسرا مرحلہ نوے فیصد سے زائد مکمل ہو چکا ہے جبکہ تیسرا مرحلہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے جس کے بعد آپریشن ضرب عضب کے اختتام کا اعلان کر دیا جائے گا۔

امریکہ کے افغانستان پر حملوں کے بعد کئی طرح کے گروہ سامنے آنا شروع ہو گئے ۔ امریکہ ، نیٹو افواج اور دیگراتحادی ممالک افغانستان میں ایک نام نہاد کٹھ پتلی حکومت بنانے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن افغان طالبان کے خلاف یہ جنگ بری طرح ہار گئے ۔مشرف دور میں پاکستان کو ایک دفعہ پھر فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے پر مجبور کیا گیا تاہم امریکی عزائم محض طالبان کی حکومت ختم کرنا نہیں بلکہ پاکستان کا گھیرائو بھی تھا ۔ افغان طالبان کو شکست دینے میں ناکامی پر اسے اپنا یہ ایجنڈہ ناکام نظر آ رہاتھا چنانچہ افغانستان میں بھارت کو موقع دیا گیا کہ وہ سرمایہ کاری کے ذریعے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھا دے ۔یہی وہ وقت تھا جب پاکستان کے کردارسے ناراض کچھ عناصر نے بھارتی و امریکی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لیے اپنے کندھے پیش کر دیے ۔ ان عناصر میں بہت سے افراد امریکہ حملوں کے دوران ملحقہ سرحدی علاقوں میں آباد ہو گئے۔ چونکہ ان علاقوں میں موجود قبائل ہمیشہ سے ہی پاکستان کے لیے سرحدی محافظ کردار ادا کرتے رہے ہیں اس لیے پاکستان نے ان علاقوں میں سیکورٹی پر اتنی توجہ نہیں دی۔

Terrorism

Terrorism

تاہم پاکستان مخالف عناصر نے ان قبائل کی اسلام کے ساتھ غیر مشروط اور والہانہ محبت کو استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ رہی سہی کسر امریکہ ڈرون حملوں نے پوری کر دی جو جان بوجھ کر ان علاقوں میں کیے جاتے جہاں عام لوگوں کا نقصان ذیادہ ہوتا اور یوں مقامی قبائل کے اندر ایک نفرت کے آگ پلتی رہی ۔ افغانستان ازبکستان سمیت دیگر کئی ممالک کے وہ تکفیری شدت پسند جو مسلمانوں کو مختلف کاموں کی وجہ سے کافر قرار دیتے اور وہ خارجی جو مسلمانوں کے قتل عام کو جائز سمجھتے تھے وہ بھی ان علاقوں میں آکر جمع ہوتے چلے گئے ۔ بھارتی و امریکہ خفیہ ایجنسیوں نے ان عناصر کو مالی امداد بھی فراہم کی اور افغانستان سے اسلحہ و بارود کا بڑا ذخیرہ جمع کرنے میں بھی مدد کی۔ یہ عناصر ان علاقوں سے باہر نکل کر ملک بھر میں خود کش حملے کرنے لگے اور یوں امریکہ و بھارت کا وہ کھیل شروع ہو گیا جس کے لیے انہوں نے افغانستان پر اتنا بڑا حملہ کیا تھا۔اس پر پاک فوج کو ایک بے رحم آپریشن کا آغاز کرنا پڑا۔

فاٹا کا علاقہ سات اضلاع پر مشتمل ہے جن میں باجوڑ ، اورکزئی ، خیبر، مہمند، کرم ، شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔ضرب عضب سے قبل بھی فاٹا کے مختلف علاقوں میں مختلف فوجی آپریشن کیے گئے جن میں آپریشن المیزان، آپریشن زلزلہ ، آپریشن شیر دل، آپریشن راہ راست، آپریشن راہ حقاور آپریشن راہ نجات شامل ہیں ان میں پاک فوج نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ۔دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد ان آپریشن میں ہلاک ہو گئی تاہم بہت سے لوگ شمالی وزیرستان کے ان پہاڑوں میں روپوش ہو گئے جو افغانستان سرحد سے ملحقہ تھے ۔شمالی وزیرستان میں ان دہشت گردوں کی موجودگی نے سابقہ آپریشن کی کارکردگی پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔

دوسری طرف امریکہ سرپرستی میں عالمی کمیونٹی پاکستان کے ان علاقوں کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف مسلسل پراپیگنڈا کرنے لگیں۔ دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر موجودہ حکومت نے مذاکرات کے ذریعے ان عناصر کو سمجھانے کی کوشش کی تاہم جو آگ پاکستان کے شہروں تک پھیل چکی تھی دہشت گردمذاکرات کی آڑ میں اسے مزید بھڑکانے لگے چنانچہ لگ بھگ 30ہزار فوجیوں کی مدد سے ایک آخری حتمی اور فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ یہ آپریشن اس لحاظ سے بھی کافی اہمیت کا حامل تھا کہ اس کے نتیجے میں ایک بہت بڑی آبادی کو اپنے گھروں سے ہجرت کرنا پڑی اور تقریباً چار لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ پاک فوج نے تین اطراف سے علاقے کا گھیرائو کرکے فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تو افغانستان اور وہاں موجود نیٹو و امریکی افواج کے کمانڈرز سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ ملحقہ سرحد کو بند کر دے تاکہ آپریشن کے خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

تاہم افغانستان دانستہ و غیر دانستہ وہاں سے فرار ہونے والے دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتا رہا۔ اس کے باوجود آپریشن نے اپنے نتائج حاصل کرنا شروع کر دیے۔ جس کا کریڈٹ سو فیصد راحیل شریف کی قیادت اوران فوجیوں کو جاتا ہے جنہوں نے مشکلات کے باوجود ان علاقوں میں آپریشن کیے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس آپریشن کے دوران 35سو دہشت گرد مارے جا چکے ہیں دہشت گردی کے خلاف اس آپریشن میں پاکستان کے چار سو نوے فوجی شہید ہوئے اور تین ہزار کے قریب جوان زخمی ہوئے جبکہ 106.9ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ۔سانحہ پشاور کے بعد قوم نے مشترکہ طور پر ایک قومی ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے نتیجے میںشمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں دہشت گردوں کے سلیپنگ سیلز کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ۔ کراچی سے دہشت اور خوف کا خاتمہ کیا گیا ، بلوچستان کے علاقوں میں بھارت سرپرستی میں کام کرنے والے گروہوں کے خلاف کامیاب آپریشن کیے گئے جبکہ اب پنجاب میں بھی آپریشن حتمی مراحل میں ہیں۔

ISPR

ISPR

آئی ایس پی آر کے مطابق 66فیصد قبائلی واپس اپنے گھروں کو جا چکے ہیں ۔جبکہ ان علاقوں میں تباہ حال عمارتوں سڑکوں کی تعمیر کاکام بھی جاری ہے اطلاعات کے مطابق قربانی دینے والے ان قبائل کے لیے سڑکیں ، ہسپتال ، سکول اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ یہ قبائل پاکستان کے نہ صرف وفادار ہیں بلکہ ان کی قربانیوں کی بدولت ہی پاکستان کے شہروں کو محفوظ بنایا گیا۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ فاٹا کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں پر بھرپور توجہ دینی چاہیے پاکستان کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ان علاقوں کے عوام قربانیوں کے باوجود نظر انداز کر دیے جائیں۔

پاکستان کی مغربی سرحد انہی کی بدولت ماضی میں بھی محفوظ رہی ہے جبکہ مستقبل میں بھی یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے لیے ہر قسم کی قربانی دے سکتے ہیں ۔ان کے خدشات دور کرنا سب سے اہم ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ انہیں میں سے کچھ لوگوں کو پاکستان دشمن عناصر بالخصوص افغانستان میں موجود قوتیں ان کے جذبات کا استحصال کرنے کی ہر ممکن کوشش میں ہیں۔ ملک بھر میں اس تاثر کو بھی دور کیا جانا ازحد ضروری ہے کہ صرف انہیں علاقوں کے لوگ دہشت گرد ہیں ۔دہشت گرد وں کاکوئی مذہب کوئی علاقہ نہیں ہوتا ۔ پنجاب سندھ بلوچستان میں بھی دہشت گرد موجود ہیں جنہیں ختم کیا جا رہا ہے جو نہایت خوش آئند ہے۔پاکستان کی حکومت اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خدشات کو دور کرے جو اس حوالے سے پائے جا رہے ہیں کیونکہ یہ قبائل ہمارا مستقبل ہیں اور انہی کی بدولت پاکستان کا ایک بڑا حصہ محفوظ ہے ان کے بغیر مغربی سرحد کا دفاع ممکن نہیں۔

Asif Khurshid

Asif Khurshid

تحریر: آصف خورشید رانا