میری سمجھ سے ہے بالا تر

Inflation

Inflation

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
بیس کروڑ عوام کے چنیدہ راہنمایان قوم کی نظر میں اس وطن میں بسنے والے انکے ریوڑ کی بھیڑ بکریاں ہیں فقط ایک انسان ہے انکی چشم انسان شناس میں اور وہ ہے اس ملک کا سابق وزیر اعظم نواز شریف کیونکہ انسان کو انسانوں کی تکلیف سے اذیت پہنچتی ہے اس لئے یہ سب اسکے دکھوں کا مداوا بن کر میدان عمل میں کود پڑے ہیں باقی بیس کروڑ بھی اگر ان کی نظر میں انسان ہی ہوتے تو یہ سب وزراء انکے دکھوں کے مداوا کے لئے سوچ رہے ہوتے سارے کے سارے احتساب عدالت کے احاطے میں جمع نہ ہوتے مجھے تو ایسے لگ رہا ہے کہ یہ سارے گدڑیئے بیس کروڑ عوام کے ریوڑ کا مالک سمجھ کر ایک نا اہل شخص کے پیچھے پیچھے صف بستہ نظر آرہے ہیں ۔ان سارے وزراء کو ایسا لگ رہا ہے کہ بیس کروڑ بھیڑ بکریاں تو پیدا ہی ذبح ہونے کے لیئے ہوئی ہیں اگر بادشاہ سلامت ان سے ناراض ہو گئے تو ان بھیڑ بکریوں کو چرانے کی نوکری بھی انکے ہاتھ سے جاتی رہے گی۔

اسی لیئے تو کبھی وزارت پٹرولیم ان بھیڑ بکریوں کی کمر میں پترول کی قیمت بڑھا کر ایک زور کی لاٹھی جڑ دیتے ہیں تاکہ اس کی تکلیف کی شدت سے بھیڑ بکریاں کمر دوہری کر کے سر کو جھکا کر چلتی رہیں ،کبھی بجلی والا گدڑیا اس شدت کا شارٹ لگاتا ہے ان بھیڑ بکریوں کے وجودوں پرکہ انکی ساری اوون اور کھال جھلس کر رہ جاتی ہے ،کبھی تجارت والا گدڑیا ان بھیڑ بکریوں کے سامنے سے ٹماٹر تک پرے کر لیتا ہے جیسے وہ ٹماٹر نہ ہوں بلکہ عنبر و زعفران ہوں یہ تمام بھیڑ بکریاں منمناتی ،بلبلاتی ،تڑپتی جھلستی اپنی زندگی کی سانسیں پوری کر رہی ہیں مگر یہ سارے گدڑیئے معزول شہنشائہ معظم کی خوشنودی کی خاطر ان بیس کروڑ بھیڑ بکریوں کی طرف پشت کیئیاپنے آقا کے آگے پیچھے بچھ بچھ جا رہے ہیںیہ باتیں میری سمجھ سے تو بالا تر ہیں قارئین کرام میری عقل کا خانہ بہت چھوٹا ہے شائید اور ان وزراء ٹائپ لوگوں کا خوشامد سے بھرا ہوا برتن بہت وسیع و عریض ۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس عوام نے ان لوگوں کو اپنا خیر خواہ اور حامی جان کرایوان اقتدار میں بھیجا کہ یہ لوگ ہمارے نمائندے بن کر ہمارے دکھوں اور مسائل کا مداوا کرنے کے لیئے محنت کریں گے ہمارے رستے ہوئے زخموں پر مرہم لگائیں گے ،ہماری مصیبت پر بے چین اور مضطرب ہو جائیں گے مگر افسوس ایسا ہو نہیں پایا اور وہی لوگ اس عوام کے جسموں پر بذات خود مرہم رکھنے کی بجائے نت نئے زخم لگانے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور ہاں اس عوام کے ساتھ ایسا ہونا بھی چاہیئے جو خود کو انہی لوگوں کے ہاتھوں زخم زخم ہوتا دیکھتے ہیں اور اپنی زبان سے بولتے تک نہیں کل تک جو لوگ ایک ووٹ کی پرچی کے لئے ان کی منتیں کرتے ہیں بعد میں انہی کے ووٹ کی دی ہوئی طاقت سے اتنے خونخوار بن جاتے ہیں کہ یہی عوام ان کے خوف کے باعث شکائت بھی نہیں کرتے اور وہ لوگ بھی اس بات کو یکسر فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ جن کی بخشی ہوئی ووٹ کی طاقت سے وہ سلطنت اقتدار کے بااختیار وزیر کے منصب پر فائز ہوئے ہیں انہی کے حلقوم پر وہ کبھی بیروز گاری کا خنجر چلا رہے ہوتے ہیں ،کبھی مہنگائی کے ٹوکے سے انکی ہڈیاں کاٹ رہے ہوتے ہیں ،کبھی بجلی کے شاک دے کر انکے گوشت کو روسٹ کر رہے ہوتے ہیں ،کبھی سبزیوں اور پھلوں کو ان کی پہنچ سے باہر کر کے انکو بھوک کے ایندھن میں جھونک رہے ہوتے ہیں مگر صرف ایک شخص کو ہی پاکستان سمجھتے ہوئے اسکی خوشنودی کی خاطر آگے پیچھے پھر رہے ہوتے ہیں یہ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہی اک شخص ہے تو پاکستان ہے ورنہ کچھ نہیں۔

کبھی ان لوگوں نے مہنگائے کے خلاف کوئی قانون سازی کی ؟کبھی روزگار بہم پہنچانے کے لیئے انہوں نے قانون بنانے کی کوئی سعی کی ؟کبھی اپنا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم بنانے کی ہمت کی ؟ اکہتر سال ہونے کو ہیں صحت کے میدان میں پاکستان اپنے فارما کوپیا سے نابلد ہے اغیار کے فارما کوپیا کے رحم و کرم پر ہیں ہم کبھی کسی صحت کے وزیر باتدبیر نے اپنا فارما کوپیا بنانے کے لیئے کوئی کام کیا ؟یہ سارے کام کیوں نہیں کئے فقط اس وجہ سے کہ اگر یہ سارے کام کر دیئے گئے تو اس کا بالواسطہ فائدہ عوام کو پہنچے گا ، مہنگائی کم ہو گئی تو عوام خوشحال ہو جائے گی اور اگر یہ خوشحال ہوگئی تو اس کا دماغ صیح سمت میں سوچنے لگ جائے گا اور اگر اس عوام کی سوچ نے سیح سمت کا تعین کر لیا تو کل کو یہ عوام ہمارے ڈرانے دھمکانے یا پھر اپنے گھر کے آٹے دال کے پیسوں کے عوض ہمارے پاس رہن رہنے کے لیئے تیار نہ ہونگے ، پھر انکے ووٹ فار سیل نہیں رہیں گے ، اگر روزگار عام کر دیا تو یہ لوگ خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے کاموں میں مصروف عمل ہو جائیں گے۔

پھر ہماری گاڑیوں کے آگے پیچھے آوے گا بھئی آوے گا ،جیتے گا بھئی جیتے گا کے راگ کون الاپے گا ۔اور اگر فارما کوپیا ہم نے اپنا ترتیب دے لیا تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے کمیشن آنا بند ہوجائے گا سستی ادویات عوام کی دسترس میں آجائیں گی ۔اور اگر نظام تعلیم اور نصاب تعلیم پاکستان کا اپنا ہو گیا تو پھر پرائیویٹ تعلیمی فیکٹریوں کا کاروبار بند ہو جائے گا انگریز کی غلامی کا پٹہ گلے سے اتر جائے گا ۔یہ ہم چاہتے نہیں کیونکہ قوم کے مفادات ان لوگوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں انکی اولین ترجیح ایک شخص کی خوشنودی اور اپنے ذاتی مفادات ہیں اور ظاہر ہے یہ اسی شخص کی خوشنودی کے خواہاں ہوں گے جو انکے ذاتی مفادات کے تحفظ کا ضامن ہو گا عوام کے حقوق کی جنگ ان لوگوں کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ۔ابھی کل کی بات ہے میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی تھی میاں نواز شریف نا اہل قرار ہونے کے بعد پہلے سے بڑے سرکاری لائو لشکر کے ساتھ تقریبا چالیس سے زائد پروٹوکولی گاڑیوں کے حصار میں مکمل شاہی طمطراق سے عدالت پہنچے پاکستان کی وفاقی حکومت کے وزراء کی ایک بڑی تعداد بشمول وفاقی وزیر داخلہ عدالت کے گیٹ پر دیکھ کر کسی بھی موقعے پر بالکل ایسا محسوس نہیں ہوا کہ جناب میاں صاحب وزارت عظمیٰ کے منصب سے سبکدوش ہو چکے ہیں بلکہ ایسا لگا کہ شہنشائہ اکبر کی سواری دارالحکومت میں سیر کو نکلی ہوئی ہے ۔سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب عدالتی حکم کے مطابق کسی بھی وزیر کے عدالت میں اانے پر پابندی تھی یعنی عدالت نے منع کر رکھا تھا تو پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزراء آخر کس بنیاد پر احتساب عدالت تشریفیں لے کر گئے اس پر طرہ یہ کہ جب احتساب عدالت میں پیش کئے گئے کیس کی پیشانی پر درج ہے سرکار بنام نواز شریف تو یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ درباری وزراء سرکار کی جانب سے عدالت میں گئے یا ملزم کی حیثیت سے پیش ہونے والے نواز شریف کی طرف سے ؟اگر نواز شریف کی طرف سے گئے تو کیا یہ خود سرکار رہ سکے ؟اپنے اپنے وزارتی امور سے روگردانی کرتے ہوئے فرد واحد بچائو مہم میں پیش پیش ہونا کیا ان پر کوئی الہامی حکم نازل ہوا تھا ؟

کس قدر حیرت کی بات ہے کہ داخلہ امور کی وفاقی وزارت کے حامل شخص جو سٹیٹ کے اندرونی معاملات کے ذمہ دار ہیں وہ فرما رہے تھے کہ سٹیٹ کے اندر سٹیٹ نہیں بننے دی جائے گی ۔ ایک سٹیٹ تو ہے پاکستان جس کی مدعیت میں مقدمہ درج ہے یعنی نواز شریف بنام سٹیٹ اب میری سمجھ سے یہ بات واقعی بالا تر ہے کہ ان وزراء کے لئے پاکستان سٹیٹ ہے یا نواز شریف ؟سب سے قابل افسوس بات یہ ہے کہ فرد واحد کی خوشنودی کے لئے نیا قانون اسمبلی سے بنوا لیا گیا کہ کوئی بھی نا اہل شخص کسی پارٹی کا سربراہ رہ سکتا ہے اب اجمل پہاڑی ، عزیر بلوچ اور مشتاق رئیسانی یا ان جیسے کئی اور بھی کل کو اپنی پارٹی بنا کر اس کے سربراہ بن سکتے ہیں اسمبلی میں یہ کیسا قانون بن گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صا دق اور امین شخصیت کی اب کوئی ضرورت نہیں ۔ قانون تو وہ بنتا ہے جس کو ساری پارلیمنٹ مشترکہ طور پر منظور کرے حکومتی ہی نہیں بلکہ اپوزیشن بھی اس پر متفق ہو ، دوسری بات یہ کہ جب 73 کا آئینمنظور ہوا اس آئین پہ ساری پارٹیاں متفق تھیں پھر یہاں کیا ایسی مجبوری تھی کہ فر واحد کے لئے قانون میں ترمیم ضروری ہو گئی اس ترمیمی بل کے پاس ہونے سے پہلے دوپہر ساڑھے گیارہ اور بارہ بجے کے درمیاناس کے خلاف رٹ دائر ہوچکی تھی اس پر کوئی فیصلہ ابھی نہیں آیا تھا کہ سہ پہر کو یہ قانون منظور بھی ہوگیا اتنی عجلت آخر کیوں ؟کیا اسے عدلیہ کے خلاف کھلی جنگ کا نقارہ سمجھوں یا کچھ اور ؟یہاں تک ہی نہیں اس ایک شخص کو پارٹی صدر بنانے کے لئے اپنے پارٹی آئین میں بھی تبدیلی کر دی گئی کیا مسلم لیگ (ن) میں پارٹی سدارت کے لئے ایک ہی شخص اہل ہے اور کوئی اس قابل نہیں کہ وہ پارٹی کی صدارت کر سکے ؟اس کے علاوہ ایک دل دکھنے والی بات جو سامنے آرہی ہے وہ یہ کہ اب کوئی رکن اسمبلی جب حلف اٹھائے گا تو اس حلف نامے میں اسے ختم نبوت ۖپر ایمان والی شق نہیں پڑھنی پڑھے گی یعنی ختم نبوت پر اس کا ایمان ضروری نہیں واہ باشندگان اسلامی جمہوریہ پاکستان آپ کی خاموشی کے قربان ۔ ختم نبوت ۖپر گفتگو انشاء اللہ اپنے اگلے کالم میں تفصیل سے کروں گا۔

M.H BABAR

M.H BABAR

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile;03344954919
Mail;mhbabar4@gmail.com