مرے مظلوم و غمزدہ لوگو

میں ہوں اُس قوم کا نمائندہ!
جِس نے جبر و جفا کے سائے میں
سالہا سال ظلم سہتے ہوئے
زندگانی گزار ڈالی ہے
پر کبھی آہ تک نہیں کی ہے
لیکن اب ظلم کی سیاہ راتیں
اپنے خونریز ہاتھ پھیلائے
آخری حد کو چھونے والی ہیں
محفلیں سُونی ہونے والی ہیں
اِس سے پہلے کہ ایسا ہو جائے
جاگتا شہر پل میں سو جائے
مہر و ماہ کا عَلم اٹھائے ہوئے
آئو بر وقت جستجو کر لیں
آئو اِس تِیرگی کے صحرا میں
اپنے خوں کے دِیے جلائے ہوئے
ذرے ذرے کو روشنی دے دیں
میرے مظلوم و غمزدہ لوگو!
بارہا آئے ہیں نگلنے مجھے
ظلم اور جبر کے گھنے سائے
مجھ کو ہر طور سے دبایا گیا
یعنی حق بات کو چھپایا گیا
پر میرے عزم کا یہ کوہِ گراں
مجھ کو ہر بار سرخرو کر کے
میری دنیا میں کھینچ لایا ہے
جِس جگہ میں ہوں اور یہ میرے لوگ
جِن کے دکھ زندگی پہ بھاری ہیں
جِن کا جینا بھی موت سے بد تر
اور مرنے پہ قدغنیں عائد
جِن کو اِس دیش کے وڈیروں نے
اِن سیاسی اٹھائی گیروں نے
دین و ایماں کے ٹھیکیداروں نے
نفرتوں کی صلیب پر کھینچا
اور تعصب دیا ہے ورثے میں
ان کا خوں بھی ہے لالگوں گرچہ
پر اسے منڈیوں میں بیچا گیا
اور پانی کا نرخ رکھا گیا
ان کی عصمت پہ ڈاکے ڈلتے رہے
غیرتوں کے جنازے اٹھتے رہے
بیٹیوں کے سہاگ لٹتے رہے
اور انصاف کے ایوانوں میں
ان کی آواز جب کبھی پہنچی
ان کی آدھی گواہیاں روئیں
قربتیں اور جدائیاں روئیں
اس سمے میں بھی ٹوٹ کر رویا
ٹوٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رویا
میرے مظلوم و غمزدہ لوگو!
اپنی یہ خونچکاں کہانی اب
رنگ ہی لانے والی ہے کیونکہ
ہم کہ باغی جفا کی رسموں کے
ظلم اور جبر کے رواجوں کے
وقت کے آہنی حصاروں کے
ہم وہ دارو رسن کے راہی ہیں
جن کی آواز سن کے لرزاں ہیں
در و دیوار قتل گاہوں کے
جن کی حق گوئی کھول یتی ہے
دفن ہیں جتنے بھید صدیوں کے
اب کبھی جبر کی فضائوں میں
اپنی آواز کھو نہیں سکتی
تِیرگی ظلم بو نہیں سکتی
دیکھ سورج نکلنے والا ہے
اور اندھیرا پگھلنے والا ہے

Sahil Munir

Sahil Munir

ساحل منیر