جرم ضیعفی کی سزا ہے مرگ مفاجات

Burma Muslims

Burma Muslims

تحریر: حاجی زاہد حسین خان
انیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں جہاں انگریزوں عرب و افریقہ کے اکثر علاقوں برصغیر اور سارے ہندوستان پر قبضہ کر کے اپنے نو آبادیات میں شامل کر لیا تھا وہاں افریقہ کی ایک بڑی ریاست لیبیا ء پر اٹالین سامراج نے قبضہ جما لیا تھع مگر وہاں کے ایک مرد مجاہد عمر عبدالرحمن نے اپنی قیادت میں اٹالین کے خلاف تحریک آزادی شروع کر دی جگہ جگہ تحریک آزادی نے قدم جمالئے ۔ تحریک زوروں پر تھی کہ مرد مجاہد عمر عبدالرحمن کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلا پھانسی کی سزا ہوئی پھانسی کے دن سارا تریپولی مرد و زن بچے بوڑھے پھانسی گھاٹ کے میدان میں جمع تھے۔ ان کے ہیرو نے دورکعات پرھنے کی اجازت چاہی نماز ادا کرنے کے بعد عمر عبدالرحمن نے ایک سات سالہ بچے کو اپنے پاس بھلایا سر سے اپنی پگڑی اتاری اور اس بچ کو پہنا دی پھر اٹالین گوروں کو مخاطب فرمایا ۔ سنو اے غاصبو آج سے یہ بچہ عمر عبدالرحمن ہے تم کس کس عمر عبدالرحمن کو پھانسی دو گے۔ اور پھر لیبیاء کا وہ شہر نعرہ تکبیر لگاتے مسکراتے مسکراتے پھانسی چرھ گیا۔ مگر اپنی سوئی ہوئی قوم کو ایک ولولہ دے گا۔ چند مہینوں میں وہ تحریک آزادی اسقدر پھلی پھولی کہ اٹالین گورے بھاگ کھڑے ہوگئے۔ اور عمر عبدالرحمن کا لیبیاء آزاد ہو گیا۔ ادھر ہندوستان میں بھی جگہ جگہ پہلے پر تشدد اور پھر سیاسی تحریک آزادی زور پکڑتی گئی آخر انگریزوں کو یہاں سے ہندوستان چھوڑنا پڑا اور پھر عرب و افریقہ اور بر صغیر کے باقی نو آبادیاتی علاقے انگریزوں کو خالی کرنے پڑھے سوائے کشمیر اور فلسطین کے جہاں انگریزوں کی جگہ ان کے لے پالک انڈیا اور اسرائیل نے سنبھال لی جو ہنوز آج تک جاری ہے مگر دونوں مقبوضہ ریاستوں میں گزشتہ پون صدی سے تحریک کبھی آہستہ کبھی زوروں پر زندہ رہی انشاء اللہ یہ دونوں بھی ایک دن آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔ مگر عجب تو یہ ہوا کہ سوڈان کے صوبے ذارفور میں اور انڈو نیشیاء کے صوبے بالی میں عیسائی برادری کی چند ماہ چلنے والی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو گئی اور انہیں آزادی مل گئی ۔ مگر انسانیت کے علمبرداروں کو کشمیر اور فلسطین کی ریاستوں میں پون صدی سے بہتا خون نظر نہ آیا یہاں خون مسلم ارزاں ہی رہا۔ وہاں کی عیسائی برادری کے مقابلے میں اور اب تو بدقسمتی سے گزشتہ کئی مہینوں سے برما میں خون مسلم سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ وہاں کی بدھ مت حکومت نے صدیوں سے آباد مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنا شروع کر رکھا ہے۔

ایسے درد ناک مناظر آئے روز دیکھائی دئے جا رہے ہیں۔ بچے ذبح ہو رہے ہیں۔ عورتیں بوڑھے ذبح ہو رہے ہیں گائوں گائوں قریہ قریہ اجتماعی قتل عام جاری ہے مگر کتے بلیوں کے خیر خواہ ملالہ سلمان رشدی اور نسرین ملعون جیسی عورتوں کی مظلومیت کا رونا رونے والوں عالمی ٹھیکیداروں کو برما کے ہزاروں مظلوموں مقتولوں کی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ ہائے یہ جرم ضعیفی ۔ عالمی برادری تو کیا سوا ارب کے مسلمان آبادی اور چھپن اسلامی ممالک اور ان پر گدی نشین مسلمان خلیفے بھی ان کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ کسی کی بھی آواز کفر کے ایوانوں میں سنائی نہیں دیتی کوئی اثر نہیں رکھتی ۔ سرکوں پہ چند لوگوں کا ظالموں کے خلاف نعرے ائیر کنڈیشن ایوانوںم ٰں چند قراردادیں بھلا ان وحشیوں اور انکی پشت پناہی کرنے والوں کا کیا بگاڑ سکتی ہے۔

بھلا یہ احتجاج کا کونسا طریقہ ہے۔ اس میں بھی نہ کوئی ربط ہے نہ اتحاد جنرل اسمبلی میں بھی ان کی بھانت بھانت کی بولیاں ۔ نہ مالی امداد نہ عسکری مدد ۔ ارے بدبختو اگ علاج کرنا ہی ہے تو اس بد ھ مت حکومت اور اس کے پشتا بینوں کے سفارت کاروں کو ملک سے نکالو لین دین درآمد برآمد بند کرو تب دیکھیں کہ یہ دو حربے کیا اثر رکھتے ہیں۔ تمہارا چند گھنٹو کا احتجاج ریلیاں قرار دادیں ان مظلوموں کے دکھوں کا مداوہ نہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ برمی پناہ گزین سعودی مملکت نے سنبھال لئے۔ چھ لاکھ بنگلہ دیش والوں اور تقریبا دو لاکھ ہمارے پاکستان نے سنبھال لئے مگر جائیں ان کے کیمپوںمیں ان کی حالت زار دیکھیں ایک ارب مسلمان انکی دس دس روپے بھی مدد کریں تو خدا کی قسم انکی کس قدر محرومیاں دور ہو سکتی ہیں۔ مگر یہ زبانی کلامی دعوے خدا کے لئے ہر گز نہ کریں۔ یہ سب کافروں کی سازش ہے۔ تمہارا رویہ برتائو طریقہ کار ایسا ہی رہا تو اللہ نہ کرے انہوں نے سپین کی طرح برما سے بھی ایک ایک مسلمان کو نکال باہر کر دینا ہے۔ وہاں کی قرطبہ جیسی مسجدیں ویران کر دینی ہیں ۔ مسلمانوں کا صفایا کر دینا ہے۔ اور پھر یہ تجربہ دوسری مسلمان مقبوضہ ریاستوں میں آزمانا ہے۔ خدا کے لئے متحد ہو جائیں ایک ہو جائیں۔ قارئین عجب تو یہ ہے کہ اٹھارہ بیس لاکھ پناہ گزینوں میں یا پیچھے رہ جانے والوں برمی مسلمانوں میں کیا ایک الاکھ یا پچاس ہزار مسلمان نوجوان نہیں ہیں۔ انہوں نے ابھی تک ظالموں اور کفر کے خلاف جہاد کیوں شروع نہیں کیا ہتھیار کیوں نہیں اٹھا ئے۔ آخر کیوں یہ سب کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں کیوں ایک ایک گھر سے ایک ایک جوان اتھے کھڑا ہو چاقو چھرے کلہاڑیاں اپنا ہتھیار بنا لیں۔ چھاپہ مار جنگ ، کمانڈو جنگ ، جھپٹنا پلٹنا اپنا شعار بنائیں۔ بدھ مت کی آبادی کی آبادیاں ویران کر دیں۔ اور حرام موت مرنے سے شہادت اور مجاہد کی موت کو گلے لگائیں۔ پھر دیکھیں میرا اللہ اور اس کے فرشتے کیسے تمہاری ممد کو پہنچتے ہیں۔

کوئی سلطان ایوبی بنے نور الدین زنگی بنے۔ لیبیا ء کا عمر عبرالرحمن پٹنہ کا حیدر علی۔ اور ٹیپو بنے افغانستان کا ملاں عمر بنے خدا کی قسم ہمارے پاس تمہارے پاس یہی ایک راستہ ہے یہی ایک نسخہ ہے۔ جہاد اس مرض کا یہی ایک علاج ہے۔ چھاپہ مار جنگ ، جہاد فی سبیل اللہ قربان ہو جائو اپنے وطن کے لئے اپنی عزت و عصمت کے لئے اپنی اور اسلام کی بقا کے لئے خدا کی قسم تم ثابت قدم رہو تو آج بھی ایک ایک مجاہد مسلمان دس دس کافروں پر بھاری ہے۔ یہ بدھ مت تو کیا ہیں۔ ورنہ یاد رکھیں یہ ہر جگہ تمہیں ہاتھ باندھ باندھ کر ماریں گے۔ مارتے رہیں گے۔ دنیا بھر میں کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا۔ اور نہ ہی ان نام نہاد مسلمان خلیفوں بدیانت بد کردار چوروں حکمرانوں نے تمہاری مدد کو آنا ہے۔ اور نہ ہی ان کے زبانی کلامی احتجاجوں نے آپکو آپ بیوی بچوں کو اس ظلم و بربریت سے بچانہ ہے۔ یاد رکھیں جرم ضعیفی کی سزا صرف موت ہے آخر میں ہم اپنے حکمرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ برما اور اس کے سرپرست ملکوں کو سفیروں کو اول وقت میں نکال باہر کریں۔ اور درآمدی برآمدی تجارت بند کریں۔ تاوقتیکہ یہ ظلم و بربریت کا سلسلہ ہمارے بھائیوں بیٹوں بوڑھوں عورتوں پر بند نہ ہو۔ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر

ہے جرم ضعیفی کی سزا مر مفاجات
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر: حاجی زاہد حسین خان
ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ
hajizahid.palandri@gmail.com