پاک فوج کو سلام

Pak Army Soldiers

Pak Army Soldiers

تحریر : عبدالوارث ساجد
ٹرین کے ذریعے کوئٹہ کا سفر کریں تو صوبہ سندھ کے اختتامی علاقوں سے ہی آبادی کے آثار کم ہونے لگتے ہیں اور صوبہ بلوچستان شروع ہوتے ہی میلوں دور تک تو ٹرین بھاگتی چلی جاتی ہے اورکہیں آبادی کے آثار نظر نہیں آتے کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد کوئی اسٹیشن آتا ہے تو انسان بھی آباد نظر آتے ہیں ورنہ کبھی کبھار کوئی گوٹھ نظر آ گیا تو چند لمحوں کے لیے نظر کا سامان ہو گیا۔ ٹرین جب سبی سے کوئٹہ کی طرف نکلتی ہے تو خطرناک ترین ٹریک پر مسافر حیرتوں کے سمندر میں کھوئے نظر آتے ہیں۔ غاروں اور پہاڑوں کے درمیان کا یہ سفر دلچسپ بھی ہے اور حیرتوں سے بھرا ہوابھی۔ میرے لیے حیرت کا ساماں سب سے بڑھ کر یہ تھا کہ ان خطرناک پہاڑوں پرگرمی کی تپتی دوپہروں میں کہیں کوئی انسان نظر آتا ہے نہ حیوان۔ سبی سے آب گم اور آب گم سے مچھ اورپھر کوئٹہ تک آپ کو کڑی دھوپ اوربے آب وگیاہ پہاڑوں کی بلندوبالا چوٹی پر وقفے وقفے سے بس ایک جیسے جواں ہی نظر آئیں گے۔ سر پر ہیملٹ۔ ہاتھ میں گن اور جھلسا دینے والی دھوپ میں تن کر کھڑے ہوے یہ سپوت پاک فوج کے وہ جوان ہیں جو ان ہزاروں مسافروں کی حفاظت اورپاک دھرتی کی سلامتی کے لیے صحرائوںمیں کھڑے ذمہ داریاں نباہ رہے ہیں۔

مچھ تک میں نے ایسے بہت سے سپوتوں کو ٹرین میں بیٹھے بیٹھے سیلوٹ کیاکہ پاک دھرتی کے یہ سپوت پاکستانیوں کی حفاظت کے لیے کہاں کہاں تک جان کی قربانی پیش کررہے ہیں۔ مائوں کے لاڈلے، بہنوں کے پیارے اور بھائیوں کے سہارے سب رشتے چھوڑے ان ویرانوں میں فرائض کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہیں تو دل سے ایک سلام نہیں ہزاروں سلام اوردعائیں نکلتی ہیں شاید یہی پاک فوج کی قربانی اور فرض شناسی ہے کہ میرے جیسے کروڑوں پاکستانی اپنے ہرمسئلے اورہر دکھ میں پاک فوج کو ہی پکارتے ہیں اورپھر سلام پیش کرتے ہیں باوجود اس کے کہ ان کی خدمت کے لیے کوئی اور”خادم” بھی ہوتے ہیں جوخود کو عوامی خدمتگار کہلواتے ضرو رہیں مگر خدمت کرتے ہیں نہ عوامی مسائل حل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی کامیابیاں بھی فوج کے نام کرنے پر فخر کرتے ہیں۔اور یہ بات ہمارے بعض سیاستدانوں کو اچھی بھی نہیں لگتی۔

یہ ”آواز خلق نقارہ خدا” نہیں تو اور کیا ہے کہ لوگ جنہیں عرف عام میں عوام کہاجاتا ہے وہ ”اپنے نمائندوں” سے اکتا کر فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سیاستدانوں پر لوگوں کا اعتبار ہی نہ رہاہو۔ ہر مسئلے کے حل کے لیے ہر بندے کی اپیل فوج سے ہے۔ چھ ماہ ہونے کو آئے کہ پاکستان بھر سے بالخصوص بچوں کے اغواء کی وارداتیں حد سے بڑھ گئیں۔والدین نے اپنے بچوں کو گھروں میں محصور کر لیا۔ کوئی روز ایسا نہیں گزرتا کہ دو یا تین بچے اغواء نہ ہوتے ہوں جن کے لخت جگر گم ہوئے انہیں چین اور صبر کہاں جب حکومت اور سیاسی ”خدمت گار” بے بس نظر آئے تو لوگوں نے فوج سے مدد مانگنا شروع کر دی حکومت خاموش۔

Police

Police

پولیس تماشائی اور حکومتی مشینری اورنج ٹرین میں مصروف نظر آئی تو عدالت کا رخ کرتے والدین کے دبائو نے جج صاحبان کو ازخود نوٹس لینے پر مجبور کر دیا تب سپریم کورٹ کا حکم ہو اکہ لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی زمہ داری ہے ریاست سوئی ہوئی ہے جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ بچے کیوں اغوا ہو رہے ہیں ۔ بچے کیوں اغوا کرنے کے گینگ ایک دن میںنہیں بن جاتے، پتہ چلایاجائے یہ گینگ کون چلارہاہے۔ بچوں کوبازیاب کروانا اولین ترجیح ہے، بچوں کے اعضاء نکالنے، بیگار لینے، بدفعلی اور بیرون ملک منتقلی جیسے مسائل کا مستقل بنیادوں پر حل چاہتے ہیں گھروں سے بھاگنے والے بچوں کوبھی بے یارومددگار نہیں چھوڑا جاسکتا اگر وہ دہشت گردوں یامنشیات فروشوں کے ہاتھ لگ گئے تو برین واشنگ کر کے انہیںغلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عدالت میںسینئر سول جج راولا کوٹ خواجہ یوسف ہارون سمیت دیگر بچوں کے والدین اوراعلیٰ پولیس حکام بھی پیش ہوئے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمن نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ عدالتی حکم پرپورے صوبہ سے بچوں کے اغوا کے 10 کیس منتخب کیے گئے ہیں جن میں پولیس کی تحقیقات تسلی بخش نہیں تاہم متعلقہ پولیس حکام کو تفتیش کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔ سماعت کے دوران راولپنڈی سے 2 سال قبل اغواء ہونے والے 8 سالہ بچے سعد یوسف کے والد سینئر سول جج راولاکوٹ خواجہ یوسف ہارون نے روتے ہوئے بتایاکہ بیٹے کے اغوا کی ایف آئی آر شریف اللہ کے خلاف درج کروائی جوپولیس کی حراست سے فرار ہوکرصوابی چلا گیا اور تاوان مانگنے لگا۔ فوج نے ملزم شریف اللہ کو افغانستان فرار ہوتے ہوئے پکڑ لیالیکن پولیس افسروں نے بے گناہ قرار دے کرچھوڑ دیا۔ پولیس پر اعتماد نہیں، استدعا ہے کہ میرے بیٹے کو فوج کے ذریعے بازیاب کروایاجائے۔

اب یہاں صورتحال یہ ہو کہ سینئر سول جج تک کہنے لگیں کہ پولیس پر اعتماد نہیں فوج بچے کو بازیاب کرائے تو یہ حکومت کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے۔ کسے یاد نہیں چیف جسٹس ہائیکورٹ کے بیٹے کو کراچی سے اغوا کیا گیا تو مہینوں صوبائی حکومت بھی ٹامک ٹوئیاں مارتی رہی اور وفاقی حکومت علاج معالجے میں مصروف رہی۔ اعلیٰ ترین شخصیت کے بیٹے کا اغواء ہوسکتا ہے تو پھر عام آدمی کا تحفظ کیسے ہوگا۔ جب عوام نے ایسے سوال آپس میں کیے تو ہرزبان پر یہی تھا کہ اب عام آدمی کا کیا بنے گا تب بھی فوج ہی نے اس مسئلے کو حل کیا اغواء کار پکڑے اور دکھی والدین تک پہنچائے شاید اب کوئی وہ الفاظ نہ دہرائے تب بیٹے کے ساتھ چیف جسٹس نے میڈیا نمائندوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہا تھا۔”مجھے امید تھی کہ یہ مسئلہ صرف فوج ہی حل کر سکتی ہے اور ایسا ہی ہوا۔ میں شکرگزار ہوں۔” رات کے تین بجے جب تمام وفاقی وزیر میٹھی نیندمیں خواب دیکھ رہے تھے تب کون تھا جس نے اٹھ کر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو بیٹے کی بازیابی کی نوید سنائی تھی وہ قوم کا محافظ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف تھا۔

Raheel Sharif

Raheel Sharif

ظاہر سی بات ہے نام سے فرق نہیں پڑتا بلکہ کام سے فرق پڑتا ہے بلاشبہ جنرل راحیل شریف نے دن رات ایک کر کے پاکستان کو محفوظ ملک بنایا فوج نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ جانوں کے نذرانے دیئے تو آج لوگ خود کو بھی محفوظ سمجھتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر بینر آویزاں ہوتے ہیں تو ان میں یہی آواز ہوتی ہے کہ ”خدا کے لیے اب جانے کی باتیں نہ کرو” لوگ جشن آزادی منائیں تو سب سے زیادہ ان اشیاء کی مانگ ہوتی ہے جن پر فوج اور جنرل راحیل شریف کی تصاویر ہوں اور تو اور پاکستان کے سٹارز جب کوئی کارنامہ سرانجام دیں تو وہ فوج کے نام کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔

پاکستانی قوم ٹیم نے لاڈز ٹیسٹ میچ میں تاریخی فتح حاصل کی تو تمام کھلاڑیوں نے سلیوٹ کر کے پاک فوج کو سلام کیا پھر خبر آئی کہ تیسرے ٹیسٹ میچ میں پہلے دن پاکستانی فاسٹ بولر سہیل خان نے ایک اننگز میں پانچ کھلاڑی آئوٹ کیے تو قومی فاسٹ بائولر سہیل خان نے اپنی 5 وکٹوں کی کارکردگی پاک فوج کے نام کر دی۔

پاک فوج کو ہونے والے سلام اور پکارنے والی آواز میں بلاشبہ پارک آرمی کی کامیابیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اب پاکستان کاہر شہری یہ سوچ رکھتا ہے کہ اگرپاکستان میں امن وامان کی ذمہ داری اٹھا سکتی ہے تو وہ صرف فوج ہے۔ شاید اسی لیے ہر مسئلے کے حل کے لیے سب کی زبان پر اپیل ہے کہ ہر کام فوج کرے یہ فوج سے عوام کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور پاک فوج سے محبت عوام کے دل میں بھی ہے اور اب زبان زد عام بھی ہے۔اسی لیے سب کہتے ہیں پاک فوج کو سلام۔

Abdul Waris Sajid

Abdul Waris Sajid

تحریر : عبدالوارث ساجد