پاک افغان سرحدی کنٹرول اور تجارتی راستے

Pak Afghanistan Border

Pak Afghanistan Border

تحریر : غلام حسین محب
پاک افغان سرحد کی دونوں طرف آباد لوگوں کا مذہب، ثقافت،زبان ،رہن سہن اور رسم و رواج ایک ہونے کی وجہ سے آپس میں تعلقات ، رشتے اور آمدو رفت کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔پاک افغان سرحد دنیا کی طویل ترین سرحدوں میں سے ایک ہے اس طویل سرحدپر چترال سے چمن بلوچستان تک قبیلے دونوں طرف آباد ہیں لیکن انتظامی طورقیام پاکستان کے وقت وہ علاقہ جو انگریز دور میں ڈیورنڈ لائن کے اِس طرف تھا پاکستان کے حصہ میں آیا۔ تاہم افغانستان نے اس سرحد کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اس سرحد پر بعض علاقے ڈیورنڈ لائن کے باوجود غیر واضح اور متنازعہ رہے جس کی ایک مثال مہمند ایجنسی بھی ہے جہاں ایک بڑا علاقہ چندسال پہلے 2002میں باقاعدہ طور پرپاکستان کا حصہ بن گیا جب ایک سابق گورنرپختونخوا خورشید علی خان نے اس علاقہ کا دورہ کیا۔ فاٹا کا قبائلی علاقہ اسی سرحد پر واقع ہے جو باجوڑ سے شروع ہوکر وزیرستان تک سات قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل ہے۔ہرایجنسی کے بڑے قبیلے سرحد کی دونوں جانب تقسیم ہو چکے ہیں۔مثلاً باجوڑ اور کونڑ میں صافی ، ماموند اور سلارزئی وغیرہ قبیلے آباد ہیں اسی طرح مہمند ایجنسی میں خویزئی، بائزئی اور صافی قبیلے، خیبر میں شینواری قبیلہ ،اورکزئی اور کرم میں طوری ،زازئی ،مینگل قبیلے اور وزیرستان میںوزیر، محسود اور مینگل قبیلے وغیرہ رہائش پذیر ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دونوں طرف کے پختونوں کے آپس میں رشتے ہیں اور صدیوں سے آنا جانا ہے ۔ البتہ اورکزئی ایجنسی کے علاوہ تمام ایجنسیوں کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ یہ سرحد افغانستان پر روسی یلغار سے پہلے کامیاب تجارتی راستہ رہی ہے جس سے دونوں طرف آبادلوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے جو سرحدی راستے ہیں اُن میں چمن،انگوراڈہ، غلامخان، خرلاچی، طورخم اورناواپاس شامل ہیں۔ افغانستان سے غیر ملکی اشیاء پاکستان کے انہی قبائلی علاقوں میں آکرپاکستان کے دوسرے علاقوں میں پہنچ جاتیں جبکہ کپڑا ،خوراکی اشیاء اور دوسری روزمرہ استعمال کی چیزیں یہاں سے افغانستان جاتیں۔ جب روس کے خلاف اس قبائلی خطے کو استعمال کیا گیا تو افغانستان میں قائم روس نواز حکومت نے قبائل کو بھی اپنا دشمن سمجھاکیوں کہ افغانستان کے تمام سیاسی گروپ انہی قبائلی علاقوں میں سرگرم عمل تھے اور وہ سب یہاں سے اپنی اپنی طرز پر جہاد جاری رکھے ہوئے تھے۔حالانکہ وہ آپس میں بھی اختلاف رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ نجیب حکومت کے خاتمے کے بعدمجاہدین کے یہی گروپس آپس میں لڑ پڑے اور مخلوط حکومت پر کبھی راضی نہ ہو سکے سو انکی ان کمزوریوں سے طالبان نے فائدہ اٹھایا اور انکو منظم ہونے کا موقع ملا۔

طالبان حکومت کے سقوط کے بعد طالبان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کا رخ کیاجہاں پہلے ہی انکے حمایتی موجود تھے خصوصاً وزیرستان تو ان کا مرکز بن گیا۔ایک طرف یہ لو گ یہاں سے امریکہ اور اتحادیوں کے لیے درد سرتھے تو دوسری طرف ان میں ایسے گروپوں نے سر اٹھایا جو پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہو گئے۔ حالانکہ طالبان سربراہ ملا عمر ایسے لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے تھے جو امریکہ کے بجائے پاکستان کے خلاف لڑتے تھے۔بد قسمتی سے اسی دوران تمام قبائل بری طرح بدنام ہوئے اور انہیںدنیا بھر میں دہشت گرد کے نام سے یاد کیا گیا۔حالانکہ قبائل مجموعی طور پر طالبان سے نالاں تھے بلکہ سب سے زیادہ نقصان بھی قبائل نے اٹھایاہر ایجنسی میں سرکردہ قبائلی رہنما قتل کردیے گئے سینکڑوں سرکاری املاک تباہ کر دیے گئے لاکھوں قبائل گھر بار چھوڑکر ملک کے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ جبکہ انکا کاروبار بری طرح متاثر ہوا۔ پاک افغان تجارت متاثر ہوئی۔ جس سے قبائل بے روزگار ہوگئے۔ تمام پاک افغان سرحد بند ہوگیا اورسوائے طورخم کے باقی سرحد پر آمد و رفت بند تھی۔اس وقت قبائل ہی نشانہ بنتے گئے کیونکہ وہ محاذ جنگ کی حیثیت میں تھے۔یہاں تعلیمی نظام مفلوج ہو گیا اور سیکڑوں سکول تباہ کردیے گئے۔ نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا۔

Bajaur Agency

Bajaur Agency

ڈیورنڈلائن کی بندش ایک طرف سکیورٹی لحاظ سے ضروری تھا تو دوسری طرف اس اقدام سے قبائل کو معاشی طور پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔باجوڑ ایجنسی کے لوگ افغان صوبہ کونڑ، مہمندقبائل افغان صوبہ ننگرہار، کرم قبائل افغان صوبہ پکتیا، وزیرستان کے لوگ افغان صوبہ خوست اور بلوچستان میں لوگ چمن سے افغان علاقہ سپین بولدک میں آتے جاتے اور تجارت کیا کرتے تھے۔تمام قبائلی ایجنسیوں میں چونکہ روزگار کے دوسرے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے اس لئے اکثریت کا دارومدار پاک افغان تجارت پر تھا۔ پختونخوا کے کئی گورنروں نے دورئہ مہمند ایجنسی کے موقع پر اعلانات کیے تھے کہ بہت جلد پاک افغان بارڈر تجارت کے لئے کھول دی جائے گی۔ مگر یہ وعدہ تا حال ایفا نہ ہو سکا میرے خیال میں اب موقع ہے کہ یہ سرحد کھول دی جائے کیونکہ قبائلی علاقوں میں امن وامان کی صورت حال کافی بہتر ہوئی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ اس اقدام سے پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے گی کیونکہ یہی قبائلی لوگ دونوں طرف کے لیے با اعتماد ہیں اور ان کے دونوں طرف رشتہ داریاں ہیں۔ مہمندایجنسی میں تحصیل بائزئی سے ہوتی ہوئی افغان بارڈر آتی ہے جہاں سے صدیوں تک جانبین سے تجارت ہوتی آئی ہے۔لیکن موجودہ صورتحال میں طورخم اور چمن کے علاوہ تمام راستے بند ہیں جو نہ صرف قبائل بلکہ دونوں ممالک کے لیے بھی باعث نقصان ہے۔بھلاسرحدی راستوں کی بندش کی بجائے سیکیورٹی گیٹ کی تعمیراورقانونی آمدورفت کا راستہ ہموار کیا جائے۔

کیونکہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کا دارو مدار باہمی اعتماد پر ہے سب سے اہم بات یہ کہ افغانستان کو انڈیا سے پہلے اپنے ہمسایوں کی طرف دیکھنا چاہئے کیونکہ ہر ملک کے مفادات اور تعلقات کا دارومدار انکے قریبی ہمسایوں سے تعلقات پر منحصر ہوتا ہے۔اور اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ افغانستان کے عوام کی روزمرہ زندگی کی ضروریات کا انحصار پاکستانی تجارت پر ہے اور یہی معاملہ اِس طرف بھی ہے کہ لاکھوں قبائلیوں کا روزگار پاک افغان تجارت سے وابستہ رہا ہے۔ طورخم گیٹ کی بندش سے کچھ عرصہ پہلے ایک طرف حکومتی سطح پر تعلقات انتہائی خراب ہوگئے تھے تو عوامی طور پر لوگوں کو کافی مشکلات سے گزرنا پڑا،اور تجارتی سطح پر دونوں جانب سوداگروں کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اس کے بعد جب چمن گیٹ بند کیا گیا تو یہی صورتحال سامنے آئی۔ یعنی تعلقات میں تلخی اور تجارتی سطح پر مالی نقصان۔ اب چونکہ پاکستان نے قبائلی لوگوں کے لیے پاسپورٹ اور ویزہ کی شرط کا حکم دیا ہے تو اس پر قبائلی عوام کا کا سخت ردعمل سامنے آیا۔کیونکہ وہ سالوں سے آزادی سے آتے جاتے تھے۔بہرحال دونوں ممالک علیٰحدہ،آزاد اور خود مختار ہیں اس لیے سرحدی کنٹرول اور حکومتی رٹ کے لیے مناسب اقدامات ضروری ہیں مگر دونوں جانب آباد قبائل کے تحفظات اور خدشات کوبھی مدنظر رکھنا ضروری ہے تاکہ پاک افغان تعلقات بھی بہتر سے بہتر رہے اور قبائلی عوام کو بھی مزید مشکلات اور تجربات سے نہ گزرنا پڑے۔۔۔۔

Ghulam Hussain Mohib

Ghulam Hussain Mohib

تحریر : غلام حسین محب