پاکستان افغان سرحد پر فوجی جھڑپ

Pak-Afghan Border

Pak-Afghan Border

تحریر : میر افسر امان
پاکستان اور افغانستان کی سرحد طور خم پر کئی روز سے فوجی چھڑپیں جاری ہیں۔ لنڈی کوتل میں کرفیو جاری ہے۔ افغانستان کی جانب سے مسلسل فائرنگ کی جاری تھی جس کاجواب پاک فوج دے رہی ہے۔ افغان فوج کی فائرنگ سے ہمای فوج کے ایک بہادر میجر شہید ہو گئے ہیں۔ زخمی اس کے علاوہ ہیں۔ جھڑپ کی بظاہروجہ ایک سیکورٹی گیٹ ہے جو پاکستان اپنے سرحد کے اندر تعمیر کر رہا ہے۔ تاکہ سیکورٹی چیکنگ صحیح طریقے سے ہو سکے اور دہشت گردی پر کنٹرول کیا جا سکے۔پچھلے کچھ دنوں میں افغان کی خفیہ تنظیم کے کچھ لوگ پاکستان میں جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔

پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر کی پشت پنائی کرنے والی امریکا نواز پھٹو افغان حکومت کو ان کی روک تھام کے لیے سیکورٹی گیٹ کی تعمیر کو پسند نہیں کرتی۔ افغانستان سرحد پربھارت کے کہنے پر کشیدگی پیدا کر رہا ہے۔اگر کشیدگی کی محرکات کا تجزیہ کیا جائے تو افغانستان کی ساری حکومتیں بھارت کی حمائتی اور پاکستان کی دشمن رہی ہیں۔ افغانستان کی تاریخ میں صرف افغان طالبان کی اسلامی حکومت پاکستان کی دوست حکومت تھی۔

اس کی وجوہات پر اگر غور کیا جائے تو سب سے پہلی بات کہ افغان طالبان نے افغانستان میں پہلی بار ایک اسلامی حکومت قائم کی تھی جس نے اسلامی اخوت کی بنیاد پر اپنے برادر ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان سے دوستی کی بنیاد رکھی تھی جس سے پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہو گئی تھی لہٰذا ہمارے مقتدر حلقوں کو اس کا ادراک کرنا چاہیے۔ دوسرے جہاد افغانستان کے دوران پچاس لاکھ افغانیوں کو پاکستان کے اندر پناہ دینا تھا اس لیے افغان طالبان کی اسلامی حکومت نے پاکستان کو ہمیشہ دوست ملک قرار دیا تھا۔ افغانستان کی بھارت نواز حکومتوں کے حامی قوم پرست لیڈرغفار خان سرحدی گاندھی ، تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم سے سیاسی شکست کھانے اور بعد میں اس کے پیرو کاروں کی افغان حکومتوں کو سرپرستی حاصل رہی ہے۔

Major Ali Jawad

Major Ali Jawad

سرحدی گاندھی کو افغانستان سے اتنی محبت تھی کہ اپنے جست خاکی کو جلال آباد میں دفن کرنے کی خواہش ظاہرکی تھی جس پر ان کے بیٹے مرحوم ولی خان نے عمل کیا تھا اور ان کو جلال آباد میں دفن کیا گیا تھا۔ غفارخان ہمیشہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے دورے کیا کرتا تھا اور وہاں سے روپوں کی تھیلیاں بھر بھر کر لاتا رہتا تھا۔ اس کا بیٹا ولی خان پاکستان دشمن افغان حکومت کے طور خم کی سرحد سے سو سو گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ افغانستان کے دورے کیا کرتا تھا۔ ان حضرات نے ہمیشہ پاکستان دشمنی کی بنیاد پر اور بھارت کہنے پر پغتونستان کا مسئلہ کھڑا کئے رکھا تھا۔ اب ان کو پاکستان دوستی کا مظاہرہ کر کے پاکستان کی پالیسیوں کی حمایت کرنا چاہیے۔ ان باتوں کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ قوم کو پرانا سبق یاد کرائیں کہ افغانستان کی بھارت نواز حکومتیں کبھی بھی پاکستان کی دوست نہیں رہی ہیں۔

اب اس وقت بھی افغانستان کی امریکی پھٹوحکومت بھارت کی دوست ہے جو طور خم باڈر پر خواہ مخو ا کشیدگی پیدا کر رہی ہے۔افغان حکومت کو اتنا بھی شرم نہیں کہ پاکستان کے اندر اس وقت بھی اس کے تیس لاکھ افغان مہاجرین رہ رہے ہیں جن کی دیکھ بھال پاکستان کر رہا ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں افغان باشندے کاروبا کر رہے ہیں۔ بڑی بڑی پراپرٹیوں کے مالک ہیں۔ پاکستان تو افغان باشندوں کے لیے یورپ سے کم نہیں۔بھر بھی افغان حکومت امریکا اور بھارت کی آلہ کار بن کر پاکستان کے ساتھ دشمنی پر اتر آئی ہے اور شکر گزار ہونے کے بجائے طور خم پر کشیدگی بڑھا رہی ہے۔ افغانستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ پناہ لیے ہوئے ہیں۔پاکستان کے اندر دہشت گردی ان ہی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔

پاکستان نے امریکا کے کہنے پر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیا بغیر کسی تمیز کے اچھے بُرے دہشت گرد طالبان کو ختم کیا۔ ہمارے ملک کے لاکھوںشہری اپنی عورتوں ، بچوں اوربوڑھوں کے ساتھ در بدر ہوئے جن کو ابھی تک بھی اپنے گھروں میں آباد نہیں کیا جا سکا۔اب بھی امریکا ہم پر اعتبار نہیں کر رہا اور ڈو مور کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ ہم نے امریکا کے کہنے پر طالبان لیڈروں کو مذاکرات کی ٹیبل پر جمع کیا اور مری میں چار ملکوںکے طالبان سے امن مذاکرات بھی ہوئے۔امریکا سمیت ساری دنیانے دہشتگردی کے خلاف ضرب عضب آپریشن کی تعریفوں کے پل باندھ دیے تھے۔ مگر پھر امریکا نے ہمارے ملک کی ساورنٹی کا خیال نہ کرتے ہوئے ملااختر منصور کو ڈرون حملہ کر کے پاکستان کی سرحد کے اندر نوشکی میں قتل کر دیا جبکہ وہ ایران سے آیا تھا اسے وہاں بھی نشانہ بنایا جا سکتا تھا مگر ایک سازش کے تحت اسے پاکستان کی سرزمین پر نشانہ بنایا گیا۔

Terrorism

Terrorism

اس سازش کو سمجھتے ہوئے ہمارے سپہ سالار اور ہماری سول حکومت نے امریکی حکومت سے احتجاج بھی کیا اور مطالبہ کیا ہے کہ سب سے بڑے دہشت گرد فضل اللہ پر ڈرون حملہ کیا جائے جو افغانستان کے اندر سے پاکستان میں دہشت گردی کررہا ہے۔صاحبو! ہمارے مقتدر حلقوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ تجربات سے یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ امریکا کے اپنے مفادات ہوتے ہیں وہ اس کے تحت دوستی کرتا کرتا ہے جب اس کا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو وہ آنکھیں پھیر لیتا ہے۔

یہی کچھ وہ پاکستان سے کر رہا ہے۔ہمیں امریکا کے اس چنگل سے آہستہ آہستہ نکلنا چاہیے اور چین سے جاری دوستی کو مذید مستقم کرنا چاہیے۔روس بھی بھی ہماری طرف قدم بڑھا رہا ہے اس سے بھی دوستی کو نئے سرے سے ترتیب دینا چاہیے۔ ایک آزاد اور غیر جانبدار خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے۔ اس کے لیے ایک فل ٹائم وزیر خارجہ کا تقرر کرنا چاہیے۔

حادثاتی طور پر بنائے گئے وزیر دفاع کو فارغ کر کے کسی قابل شخص کو وزارت دفاع پر لگانا چاہیے۔وزیر اعظم صاحب اب صحت مند ہوگئے ہیں۔ وہ فوراً ملک واپس آکر یہ معاملات طے کریں۔پاکتان کے دشمن پاکستان کے خلاف شازشیں کر رہے ہیں ان کا سفارتی اور دفاعی طور پر توڑ کی اشہد ضرورت ہے۔افغانستان دوسروں کے کہنے پر کشیدگی بڑھا رہا ہے اس کے توڑ کی سفارتی سطح پر کوششیں کرنی چاہیے۔ اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان