پاک افغان سرحدی راستے اور قبائل

Pakistan and Afghanistan Border

Pakistan and Afghanistan Border

تحریر : غلام حسین محب
ہمسائیوں کی تعریف گھر سے شروع ہوکر گاؤں، قصبہ، تحصیل، ضلع، صوبہ اور ملک تک جا پہنچتی ہے۔اسلام میں حقوق کے لحاظ سے سب سے زیادہ زورہمسایہ کے حقوق پر دیا گیا ہے ۔موجودہ دور میں جبکہ دنیا گلوبل ویلج کی شکل اختیار کرچکی ہے مسائل اندرونی حدود سے نکل کر ہمسایہ ممالک تک پھیل چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک آپس میں سرحدی تنازعات کا شکار ہوچکے ہیں۔اور حکیم الامت سَرورِ کائنات حضرت محمدۖ کے ہمسائیوں سے متعلق فرمان میں یہی حکمت پوشیدہ تھی کہ اچھی ہمسائیگی کے کیا فوائد اور ثمرات ہوسکتے ہیں۔

بات پاکستان کے ہمسائیوں کی ہوجائے جن میں بھارت، چین، افغانستان اور ایران شامل ہیںمگرچین کے علاوہ باقی تینوں کے ساتھ کسی نہ کسی مسٔلے پر اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں۔پاکستان اس وقت شدید دہشت گردی کا شکار ہے تو ہمسائیوں میں اس کے اثرات ہونا فطری بات ہے۔پاک افغان سرحد جو دنیا کی طویل ترین سرحدوں میں شمار ہوتی ہے بقول پاک افغان میڈیا دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ ہرایجنسی کے بڑے قبیلے سرحد کی دونوں جانب تقسیم ہو چکے ہیں۔مثلاً باجوڑ اور کونڑ میں صافی ، ماموند اور سلارزئی وغیرہ قبیلے آباد ہیں اسی طرح مہمند ایجنسی میں خویزئی، بائزئی اور صافی قبیلے، خیبر میں شینواری قبیلہ ،اورکزئی اور کرم میں طوری ،زازئی اور مینگل قبیلے اور وزیرستان میںوزیر، محسود اور مینگل قبیلے وغیرہ رہائش پذیر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں طرف کے پختونوں کے آپس میں رشتے ہیں اور صدیوں سے آنا جانا ہے ۔ البتہ اورکزئی ایجنسی کے علاوہ تمام ایجنسیوں کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران جب پاک افغان سرحدی راستوں پر پاکستان نے باقاعدہ گیٹ بنانے کا آغاز کیا اور دونوں جانب آنے جانے کے لیے سفری دستاویزات کو لازمی قرار دیا تو قبائل میں شور مچ گیا کہ آر پار ہماری رشتہ داریاں ہیں اور ہم صدیوں سے یہ راستے استعمال کرتے آئے ہیں لہٰذا قبائل کے لیے سفری دستاویزات کی شرط ختم کی جائے۔

یہ سرحد افغانستان پر روسی یلغار سے پہلے کامیاب تجارتی راستہ رہی ہے جس سے دونوں طرف آبادلوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ افغانستان سے غیر ملکی اشیاء پاکستان کے انہی قبائلی علاقوں میں آکرپاکستان کے دوسرے علاقوں میں پہنچ جاتیں جبکہ کپڑا ،خوراکی اشیاء اور دوسری روزمرہ استعمال کی چیزیں یہاں سے افغانستان جاتیںلیکن جب روس کے خلاف اس قبائلی خطے کو استعمال کیا گیا تو افغانستان میں قائم روس نواز حکومت نے قبائل کو بھی اپنا دشمن سمجھاکیوں کہ افغانستان کے تمام سیاسی گروپ انہی قبائلی علاقوں میں سرگرم عمل تھے اور وہ سب اپنی اپنی طرز پر جہاد جاری رکھے ہوئے تھے۔سقوط کے بعد طالبان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کا رخ کیا۔جہاں پہلے ہی انکے حمایتی موجود تھے خصوصاً وزیرستان تو ان کا مرکز بن گیا۔ایک طرف یہ لو گ یہاں سے امریکہ اور اتحادیوں کے لیے درد سرتھے تو دوسری طرف ان میں ایسے گروپوں نے سر اٹھایا جو پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہو گئے۔

حالانکہ طالبان سربراہ ملا عمر ایسے لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے تھے جو امریکہ کے بجائے پاکستان کے خلاف لڑتے رہے۔بد قسمتی سے اسی دوران تمام قبائل بری طرح بدنام ہوئے اور انہیںدنیا بھر میں دہشت گرد کے نام سے یاد کیا گیاحالانکہ قبائل مجموعی طور پر طالبان سے نالاں تھے بلکہ سب سے زیادہ نقصان بھی قبائل نے اٹھایاہر ایجنسی میں سرکردہ قبائلی رہنما قتل کردیے گئے سینکڑوں سرکاری املاک تباہ کر دیے گئے۔ لاکھوں قبائل کو گھر بار چھوڑ ملک کے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ جبکہ انکا کاروبار بری طرح متاثر ہوا۔ پاک افغان تجارت متاثر ہوئی جس سے قبائل بے روزگار ہوگئے۔ تمام پاک افغان سرحد بند ہوگیا اورسوائے طورخم کے باقی سرحد پر آمد و رفت بند تھی۔اس وقت قبائل ہی نشانہ بنتے گئے کیونکہ وہ محاذ جنگ کی حیثیت میں تھے۔پاک افغان سرحدی راستوں کی باربار بندش سکیورٹی لحاظ سے ضروری ہوتا ہے مگر اس اقدام سے قبائل کو معاشی طور پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔باجوڑ ایجنسی کے لوگ افغان صوبہ کونڑ، مہمندقبائل افغان صوبہ ننگرہار، کرم قبائل افغان صوبہ پکتیا، وزیرستان کے لوگ افغان صوبہ خوست اور بلوچستان میں لوگ چمن سے افغان علاقہ سپین بولدک میں آتے جاتے اور تجارت کیا کرتے ہیں۔تمام قبائلی ایجنسیوں میں چونکہ روزگار کے دوسرے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے اکثریت کا دارومدار پاک افغان تجارت پر تھا اور ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران ایسے کئی دہشتگردی کے واقعات ہوئے جن کی وجہ سے پاکستان نے طورخم،چمن،خرلاچی ،غلام خان اورانگور اڈہ وغیرہ کے راستے آمدورفت کے لیے بندکیے ۔مگر میرے خیال میں یہ مثالیں دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہیں کہ سخت مخالفت کے باوجود تجارتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں کیونکہ یہ ہردو ممالک کے عوام کے مفاد میں ہوتا ہے۔پاک افغان سرحدی تنازعہ کی موجودہ صورتحال اُس وقت سامنے آئی جب پاکستان میں مسلسل کئی دہشتگردی کے وقعات ہوئے جن کی ذمہ داری افغانستان میں بیٹے شدت پسند گروپ لیتے رہے پاکستان نے آخر کار ایکشن لیتے ہوئے سرحد پارفوجی کارروائی کافیصلہ کیااس مقصد کے لیے سرحدی راستے بند کردیے گئے ان سرحدی راستوں پر روزانہ لاکھوں روپے کی تجارت ہوتی ہے اس بندش سے تاجروں کو شدیدمالی نقصان اٹھانا پڑاجبکہ افغانستان میں خوراکی اشیاء کی قلت پیداہونے سے اشیائے خوردنوش کی قیمتیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں۔اس سلسلے میں افغانستان کی روایتی ہٹ دھرمی بھی ایک رکاوٹ رہی ہے بجائے اس کے کہ وہ اپنے علاقوں میں قیام پذیر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرتاانہوں نے الٹا پاکستان پرالزام لگایا کہ اس کے ملک سے افغانستان میں تخریب کاری ہورہی ہے۔

پاکستان نے نئے اقدام کی صورت میں تمام بارڈر پر باڑھ لگانے کا آغاز کیاہے جس پر افغانستان تحفظات کا اظہار کررہا ہے مگر سرحد پر اس قسم کے حفاظتی باڑ لگانے سے دونوں ممالک سکھ کاسانس لے سکیں گے اور اگر افغانستان اس سلسلے میں تعاون نہیں کرنا چاہتا تو یہ بات ماننی پڑے گی کہ افغانستان پاکستان کے خلاف کارروائیوں کو سپورٹ کررہا ہے۔ ساتھ ہی افغانستان کی طرف سے ڈیورنڈلائن مسٔلہ بھی اٹھایاجاتا ہے جو ایک احمقانہ بات ہے کیونکہ اس وقت دونوں ملکوں کو شدید دہشتگردی کا سامنا ہے دونوں مل کر پہلے اس دلدل سے نکلنے کاسوچیں پھر آپس کے مسائل حل کرنے بیٹھ جائیں۔ طورخم اور چمن کے علاوہ پاکستان نے دیگر قبائلی ایجنسیوں میں بھی سرحدی راستوں پر گیٹ تعمیر کرنے کااعلان کیا ہے جس پر افغانستان واویلا کررہاہے مگر جتنے زیادہ گیٹ تعمیر ہونگے اتنے ہی دونوں ممالک میں دہشتگردانہ کارروائیاں کنٹرول کرنا آسان ہوگااور ساتھ ہی قبائلی عوام کو آمدورفت اور تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے مواقع میسر ہونگے۔موجودہ بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں سرحدی حدبندی ضروری ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان دو الگ الگ ریاستیں ہیں۔

Ghulam Hussain Mohib

Ghulam Hussain Mohib

تحریر : غلام حسین محب