لہو کا سراغ

Police Encounter

Police Encounter

تحریر: روہیل اکبر
چند سال قبل پاکستان کے دل شہر لاہور میں ایک سفاک اور بے رحم قاتل ایک سو معصوم بچوں کو قتل کرکے انکے اعضاء تیزاب کے ڈرم میں پھینکتا رہا اور پھر آخر کار خود ہی روزنامہ جنگ کے دفتر آکر اپنے ظلم کی داستان سناتے ہوئے گرفتاری دیدی یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ بڑھتا رہا ملک کے مختلف شہروں میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کر دینے جیسے کا وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنا شروع ہوگئے اور صرف پچھلے چند ماہ کے دوران چھوٹے اور بڑے شہر وں میں درندگی اور سفاکی کے درجنوں واقعات رونما ہوئے مظلوم افراد پولیس کے پاس جاتے ہیں تو وہاں سے انہیں بے عزت کرکے بھگا دیا جاتا ہے۔

اگر کچھ دے دلا کر یا سفارش کے زور پر ایف آئی آر درج بھی ہوجائے تو چند دنوں بعد وہ درخواست داخل دفتر کردی جاتی ہے ظالم اور سفاک درندے دندناتے اور انکے ظلم کا شکار ہونے والے حصول انصاف کے لیے دربدر بھٹک رہے ہوتے ہیں تھانہ سے لیکر کچہری تک انصاف بھی عزتوں کی طرح سرے عام نیلام ہو رہا ہے حکمران جو اسی مظلوم عوام کے ووٹ لیکر انکے حقوق کے تحفظ کے لیے اقتدار میں آتے ہیں وہ اپنے کتوں کی حفاظت کے لیے بھی پولیس کے شیر جوانوں کو تعینات کر دیتے ہیں۔

انکا اگر کوئی پرندہ بھی مر جائے تو اسکی نگہداشت پر تعینات پولیس کی پوری بٹالین معطل کرکے لائن حاضر کردی جاتی ہے چوکیداری سے لیکر گھیٹ کھلوانے اور اپنی تابعداری پر پولیس کو تعینات کررکھا ہے تھانوں میں تعیناتیوں سے لیکر جنرل ڈیوٹی لگوانے اور ہٹوانے کے لیے بھاری پیسے چلتے ہیں اپنی اوقات سے بڑھ کر عہدہ لینے کے لیے حکمرانوں کے ہر ناجائز کام کو پہلی فرصت میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے شوقین نااہل افسران بے گناہوں کو پولیس مقابلوں میں مارنے میں مصروف ہیں قصور میں ننھی اور معصوم بچی زینب کے ساتھ پیش آنے والے صرف ایک واقعہ نے 20کروڑ عوام کی آنکھیں کھول دی ہیں دس بچیوں کے قتل کا اعتراف کرنے والے عمران کی بجائے قصور پولیس نے 6بے گناہ افراد کو ذمہ دار قرار دیکر پولیس مقابلہ میں اگلے جہان پہنچا دیا جبکہ پچھلے سال پورے ملک میں 3 ہزار خواتین ،بچے اور معصوم بچیوں کیساتھ زیادتی کے مقدمات درج ہوئے جن میں سے اکثر کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیاجس طرح قصور پولیس نے غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کاظاہرہ کرتے ہوئے بے گناہ افراد کو مبینہ مقابلوں میں ہلاک کیا اسی طرح پورے ملک میں کتنے بے گناہ افراد جان سے گئے ہونگے کیونکہ پولیس ہمیشہ غریب ،معصوم اور بے سہارا افراد کو ہی اپنا نشانہ بناتی ہے۔

جبکہ جرائم پیشہ اور رسہ گیر افراد کے گھر کی لونڈی بن جاتی ہے قصور میں سیریل کلر عمران کی گرفتاری کے بعد معصوم بچیوں کے اغواء وزیادتی کے الزام میں پولیس مقابلوں میں مارے گئے 6بیگناہ انسانوں کے قتل کا ذمہ دار کون ہے؟اور وہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں یہ سب کیسے ہوتا رہا اسکے لیے ہمیں زینب قتل کیس سے پیچھے جانا پڑے گا قصور لاہور کے قریب ترین اور پاک بھارت بارڈر کے بلکل اوپر ہے یہاں جرائم اور کرائم کی نرسریاں ہیں اکثر لوگوں بارڈر بھی بڑی آسانی سے کراس کرجاتے ہیں اسی راستے سے بھارتی شراب اور ادویات پاکستان لائی جاتی ہیں یہاں کی پولیس پیسہ کمانے میں بے پناہ مہارت رکھتی ہے بلکہ اس علاقے کے پولیس ملازمین خود جرائم کرواتے اور انکی سرپرستی کرتے ہیں پیسے کی خاطر بندے مارنا انکے لیے کوئی مشکل نہیں ہے یہاں کے عوامی نمائندے بھی کسی سے کم نہیں ہیں کچھ عرصہ قبل قصور میں بچیوں اوربچوں کیساتھ اغواء وزیادتی کے واقعات تواتر سے رونما ہونا شروع ہوئے زینب کیس سے قبل قصور میں ہونیوالے اغواء و زیادتی کے واقعات کو دبانے اور اپنی ناکامی چھپانے کیلئے پولیس نے 6بیگناہ انسانوں کاناحق قتل کیاپولیس معاملے کو دبانے کیلئے کسی نہ کسی معصوم اور بیگناہ انسان کو پکڑ کر اپنے روایتی تشدد سے اقرار جرم کرواتی اور پھر معاملہ عدالت تک جانے سے پہلے ہی اسے جعلی پولیس مقابلے میں پار کردیتی یوں معاملہ دبا دیا جاتا قصور میں پچھلے ایک سال کے دوران 11بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیاج س کے بعد ورثاء کے احتجاج اور عوامی ردعمل سے بچنے کیلئے پولیس نے 6بیگناہ افرادکی جان لے لی۔

اب زینب قتل کیس میں گرفتار ہونے والے سیریل کلر عمران کے 8بچیوں کے قتل میں ملوث ہونے کے اعتراف کے بعد پولیس مقابلوں میں مارے گئے 6افراد کی ہلاکت سوالیہ نشان بن گئی ہے اور جعلی مقابلو ں میں مارے جانے والے 6بے گناہ انسانوں کے قتل کا ذمہ دار کون ہے؟پولیس نے اپنی نااہلی چھپانے اور جھوٹی کارکردگی دکھانے کیلئے 6بے گناہوں کو مبینہ مقابلوں میں پار کرکے خود کو بری الذمہ کرلیا لیکن سوال یہ اٹھتا ہے جعلی مقابلوں میں پار کرنے سے قبل تمام افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا گیا،ناحق مارے جانیوالوں کے لواحقین کو انصاف کون دیگا؟پولیس کی کارکردگی ایسی ہی رہی تو بڑھتی آبادی کے ساتھ جرائم بھی بڑھناشروع ہوجائیں گے اور پتہ نہیں کتنے ہی ایسے بے گناہ انسان جعلی مقابلوں کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے میری چیف جسٹس آف پاکستان سے استعدا ہے کہ جس طرح کراچی میں راؤ انوار کو جعلی مقابلوں کے بعد شامل تفتیش کیا جارہا ہے اسی طرح قصور سمیت ملک بھر میں جعلی مقابلوں میں ہلاک کرنے والے پولیس افسروں کیخلاف بھی مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کیا جائے اور انکی درندگی کا نشانہ بننے والے بے گناہ افراد کے لہو کا سرغ لگایا جائے تاکہ آئندہ کسی ماں کا لال بے گناہ نہ مارا جائے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر
03004821200