گوجرہ میں نیا پاکستان

pakistan

pakistan

تحریر: واٹسن سلیم گل
اس وقت تمام دنیا میں بے چینی کی سی کیفیت ہے۔ حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ سرد جنگ اور پھر نیو ورلڈ آرڈر کے بات اب جو حالات کروٹ لے رہے ہیں وہ بہت زیادہ خطرناک ہیں۔ تفصیل میں نہی جاؤں گا ۔ ایک تو یہ میرے کالم کا موضوع نہی ہے دوسرا یہ کہ ہوسکتا ہے کہ یہ میرے اگلے کالم کا موضوع ہو۔ ہم پاکستان کی سیاست اور معاشرے کی دیگر برائیوں پر بہت لکھتے ہیں ۔ ہر ٹی وی چینل پر ہر شخص ایک دوسرے کو کرپٹ، منافق اور نا جانے کون کون سے نام دیتا ہے مگر اپنے آپ کو پارسا سمجھتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں تو منافقت میں سب سے آگے اس لئے نظر آ جاتی ہیں کیوں کہ میڈیا کی نظرکرم ان پر زیادہ ہوتی ہے۔ معاشرے میں کرپشن اور منفی سوچ نے ہمارے نظریات میں خوفناک تبدیلی پید ا کر دی ہے اس کی مثال اس طرح سے دیتا ہوں کہ ہمیں اب ٹی وی پر وہ پروگرام اچھے ہی نہی لگتے جو اصلاح کا پہلو لئے ہوئے ہوتے ہیں۔

پرائم ٹائم میں بجائے اچھے ڈراموں کے ہم سیاستدانوں کی گالی گلوچ والے پروگرامز دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ ایک طرف اگر تھر میں مرتے ہوئے بچوں کی ڈاکومینٹری چل رہی ہو اور دوسرے چینل پر عمران خان کے جلسوں میں خواتین کے ساتھ بتمیزی، تو تھر کی ڈاکومینٹری پر بھی چینل تبدیل ہو جائے گا۔ ہم پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ تو لگاتے ہیں مگر اس کے بگڑے ہوئے معاشرے میں تبدیلی کے لئے عملی طور پر کچھ نہی کرتے ۔ اور اگر کوئ شخص انفرادی طور پر کوئ انقلابی قدم اٹھاتا ہے تو اسے وہ عزت اور مقام نہی دیتے کہ جس وہ لائق ہے۔ میرے سامنے چند نام ہیں جیسے کہ عبدل ستار ایدھی ، ڈاکٹر عبدل السلام ، ڈاکٹر عبدلقیر خان ، ملالہ ، حبیب جالب، انصار برنی وغیرہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے طور پر عملی اقدامات سے ملک کی خدمت کرنے کا آغاز کیا۔ اور آج دنیا ان کو جانتی ہے۔ مگر ہم نے ان کو وہ مقام نہی دیا ہے جس کہ یہ حقدار ہیں۔ چند روز قبل میری نظروں سے یکجہتی اور اتحاد کے حوالے سے ایک ایسی خبر گزری کہ میں خوشی سے جھوم اٹھا، برطانوی اردو اخبار کی خبر یہ تھی کہ پنجاب میں فیصل آباد کے ایک علاقے گوجرہ میں مسلمان بھائ اپنی جیب سے مسیحی بھائیوں کے لئے ایک چرچ تعمیر کر رہے ہیں۔

Church

Church

ایک مسلمان بھائ اعجاز فارق اور اس کے ساتھ علاقے کی دیگر مسلمان اپنے ہاتھوں سے مسیحیوں کے لئے سینٹ جوزف چرچ کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہماری مسجد علاقے میں موجود ہے تو مسیحیوں کو بھی چرچ کے لئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہی ہے۔ اس خبر کی تفصل سے معلوم ہوا کہ یہاں مسیحی اور مسلمان ایک دوسرے کے گھروں میں کھاتے پیتے ہیں اور بہت محبت سے رہتے ہیں۔ اس علاقے میں مسیحیوں کے لئے کوئ علیحدہ کالونی نہی ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کے پڑوس میں رہتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑی خبر تھی۔ یہ تاریک سرنگ میں روشنی کی ایک ہلکی سی کرن تھی۔ اس خبر کی اور اس عمل کی حوصلہ افزائ ہونی چاہئے تھی۔ میں نے جب اس خبر کو معروف برطانوی اردو اخبار میں دیکھا تو میں سمجھا کہ اس خبر کو پاکستان میں بھی میڈیا پر بہت جگہ ملے گی۔ اور میں انتظار میں رہا مگر مجھے مایوسی ہوئ۔ ہمارے میڈیا کو ہر اس خبر کی حوصلہ افزائ کرنی چاہئے کہ جس میں مزاہب ، رنگ، نسل اور مسالک کے درمیان محبت، یکجہتی اور بھائ چارے کی فضا قائم ہوتی نظر آئے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہمارا میڈیا اس خبر کے ساتھ مکمل انصاف کرتا تو آپ کو اس خوبصورت عمل کی تصویر پجناب کے اور بھی شہروں میں نظر آتی۔ اسی گوجرہ میں چند برس قبل مسلمانوں نے مسیحیوں کا پورا گاؤں جلا کر راکھ کر دیا تھا۔

جس میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد زندہ جل گئے تھے۔ اس افسوسناک خبر کو بھی تو میڈیا نے بہت جگہ دی تھی۔ تو پھر اس اچھی خبر کو کیوں نظرانداز کیا گیا ہے۔ پاکستان کے قیام اوراستحکام کے لئے ہمارا اتحاد اور یگانگت بہت ضروری ہے ۔ قوموں پر زوال تب ہی آتا ہے جب وہ منتشر ہوں۔ ورنہ ایک متحد قوم ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ہمیں باہر سے خطرہ نہی ہے۔ کیونکہ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ اور کوئ بھی دُشمن ملک ہم پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ مگر ہمیں خطرہ اپنے اندر کے دشمنوں سے ہے جو ہمیں مزہب اور مسالک میں تقسیم کر کے ہمارے ملک کی جڑوں کو کزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کے عناصر نہ صرف پاکستان میں موجود ہیں بلکہ یہ یورپ میں ہمارے سفارتخانوں میں بھی موجود نظر آتے ہیں۔ جو پاکستان کی مختلف کمیونٹیز میں تقسیم کر کے رکھتے ہیں۔

اور جو گروپ ان کی چمچہ گیری کرتا ہے اس کو پاکستانی ہونے کا سرٹیفیکٹ جاری کرتے ہیں۔ لوگوں کے کام بھی پسند اور نہ پسند کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ میں گوجرہ اور اس کے ارد گرد کے رہایشی مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو رسول اسلام حضرت محمد کے اُس مہایدے کی پیروی کر رہے ہیں جو انہوں نے 628 بعد از مسیح کوہ سینا کی سینٹ کیتھرین منسٹری کے مسحیوں سے کیا تھا کہ کوئ بھی مسلُمان مسیحیوں کی عبادتگاہوں اور گھروں کو تباہ نہی کرے گااور نہ ہی ان کو لوٹے گا۔ اس مہادے کی آخری شق غور طلب ہے جس میں رسول اسلام دنیا کہ تمام مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اس مہایدے کی روز قیامت تک خلاف ورزی نہی کریں گے۔ خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔ آمین۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر: واٹسن سلیم گل