پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی۔۔۔ دوسری قسط

Pakistan Foreign Policy

Pakistan Foreign Policy

تحریر : سید انور محمود
بھارتی حکومت کشمیر کو بھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ کہتےہوئے نہیں تھکتی۔ بھارت جو اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپین کہتا ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چار ماہ سے 1989سے شروع ہونے والی تحریک کے تسلسل میں آزادی کی جو نئی لہر اٹھی ہے، اس میں آٹھ جولائی 2016 کو قابض بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں ایک حریت پسند نوجوان کمانڈر برہان وانی کو شہیدکردیا۔نوجوان برہان وانی کے مارے جانے کے بعد سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کشیدہ ہے، بھارتی فوج کی نہتے کشمیریوں کے خلاف ظلم و ستم کی کارروائیاں جاری ہیں، بھارت مخالف مظاہرے روکنے کیلئے وادی میں کرفیو نافذ کردیا جاتاہے۔ آٹھ جولائی سے اب تک 125 سے زائد کشمیری نوجوان شہید ہوچکے ہیں، پیلٹ گنوں کے چھرے لگنے سے 1000 کے قریب بینائی سے محروم اور فوج کی فائرنگ سے ہزاروں افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، 9 دسمبر 2016 کو بھی بھارتی فوج نے 4 نوجوان کشمیریوں کو سرچ آپریشن کے دوران شہید کردیا ۔

بھارت اپنی خفیہ ایجنسی ’را‘کے ایجنٹ پاکستان منتقل کرتا ہے اور ان کی رسائی پاکستان میں موجود دہشتگردوں اوران کے سہولت کاروں تک ہوتی ہے ۔ بھارت ممبئی، پٹھان کوٹ ائیر بیس یا اڑی پر حملوں کی خود منصوبہ بندی کرکے خود دہشتگردی کرتا ہے اور تھوڑی دیر بعد بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا ان حملوں کا الزام پاکستان پر لگادیتے ہیں، جیسا وہ 1971 میں بنگلہ دیش کے لیے کرتا تھا، مشرقی پاکستان سے بھارت چلے جانے والوں کی واپسی کی آڑمیں بھارتی فوج آتی تھی۔ دہشت گردی بھارت میں جہاں بھی ہوتی ہے، بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف دہائی دیتے ہیں، اپنے آپ کو مزید مظلوم ثابت کرنے کےلیے بھارت پاکستان سے نہ کرکٹ ، نہ ہاکی اور نہ ہی کبڈی کھیلنے کو تیارہوتا ہے، اس قسم کی حرکتوں مقصدصرف یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ پاکستان ایک دہشتگرد ملک ہے اس لیے ہم اس کے ساتھ کھیلتے تک نہیں۔ بھارت کشمیر میں اپنی فوج کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں کو جس طرح سے ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لئے وہ کبھی پاک بھارت لائن آف کنٹرول پر بلا سبب گولہ باری کرتا ہے اور کبھی پاکستان پر الزام ترشی کرتا ہے۔ پاکستان کے خلاف الزام لگانے کا مقصدصرف پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی ایک بھارتی گھناونی سازش ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا بھی آئے دن پاکستان کے خلاف بولتی رہتی ہیں۔ بال ٹھاکرے، بھارتی انتہا پسند لیڈر جو مسلمانوں اور پاکستان کا بدترین دشمن تھا شیو سینا کا سربراہ تھا۔1995 میں بھارتی ریاست مہاراشٹر میں شیو سینا اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بھی بنی تھی۔ شیو سینا کے غنڈئے، انتہا پسند بھارتی قصائی نریندرمودی کی آشیرباد سےآئے دن پاکستان کے خلاف غنڈہ گردی کرتے رہتے ہیں۔

بھارت کی ان تمام پاکستان مخالف حرکتوں، الزامات اور سازشوں کے جواب میں ہماری خارجہ پالیسی یہ ہوتی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے شکوہ کرتے ہیں کہ پچھلی بار امریکی صدر بارک اوباما نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاک بھارت مسائل حل کرنے میں مدد کریں گے لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا، لہٰذاانھیں یاد کرائیں کہ ہماری بھارت کے ساتھ دوستی کرائی جائے۔ وزیراعظم نواز شریف نے پاکستانی عوام کے دباو کی وجہ سے22 ستمبر 2016 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تو نریندرمودی، پوری بھارتی سرکار اور بھارتی میڈیا بلبلا اٹھے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی اس تقریر میں پوری دنیا اور خاص کرمقبوضہ کشمیر کے عوام کو یہ یقین دلایا کہ پاکستانی ریاست اور اس کے عوام آزادی کی اس جنگ میں اپنے کشمیری بھایوں کے ساتھ ہیں۔ 26 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے تقریر کرتے ہوئے وہی پرانا بھارتی راگ الاپا کہ ‘‘کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور بھارت سے اسے کوئی علیحدہ نہیں کرسکتا’’۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے تقریر پر ردعمل میں کہا کہ ‘‘اگر کشمیر بھارت کا لازمی حصہ ہے تو سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر کیوں ہے؟’’۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بعد سے اب تک وزیراعظم نواز شریف کا کوئی ایسا بیان سامنے نہیں جس میں انہوں نے نریندرمودی کے خلاف کوئی بات کی ہو، جبکہ بھارتی قصائی نریندرمودی مسلسل پاکستان کے خلاف بولتا ہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ان تمام واقعات میں ہمارئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز دور دور نظر نہیں آتے۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان میں اس سال پہلے سے طے شدہ 9 اور10 نومبر2016 کواسلام آباد میں جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کی کانفرنس ہونی تھی۔ وزیراعظم نواز شریف کی 22 ستمبر 2016 کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تقریر سے 50 دن پہلے سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس3 اور 4 اگست ہوئی جس کے ایجنڈے میں دہشت گردی، سمندری جرائم، منشیات، سائبر کرائمز، کرپشن اور عورتوں و بچوں کی اسمگلنگ جیسے مسائل شامل تھے لیکن بھارتی ایجنڈے میں صرف اور صرف پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی نئی لہر سے پوری بھارتی قیادت پریشان ہے ، یہ ہی وجہ ہے کہ سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کانفرنس میں بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ خود آئے اور پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کی بجائے اس میں مزید اضافہ کر کے چلے گئے۔ بھارتی وزیر داخلہ نے پاکستان پر بہتان تراشی کی اور کابل اور ڈھاکہ کے بم دھماکوں کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا۔ بھارتی وزیر داخلہ کے ایما پر افغانستان اور بنگلہ دیش کے نمائندوں نے بھی پاکستان کے خلاف الزام تراشی کی، لیکن پاکستانی وزیر داخلہ کا کرارا جواب سن کر راج ناتھ سنگھ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر واپس نئی دہلی چلے گئے۔

بھارت کی شدید خواہش تھی کہ پاکستان میں سارک کانفرنس نہ ہونےپائے اس کے لیے بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس میں بنیاد رکھ دی تھی۔ پندرہ اگست 2016 کو بھارت کی یوم آزادی کے موقع پر نئی دہلی کے لال قلعے میں اپنے خطاب میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں جاری پرتشدد واقعات کا براہ راست تذکرہ کرتے ہوئے بہت ہی بے شرمی کے ساتھ کہا کہ ’دہشتگردی کے مددگاروں‘ کو کڑے ہاتھوں لیا جائے گا، یعنی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ کو مودی نے دہشت گردی قرار دئے دیا۔ نریندر مودی کی تقریر میں مرکزی نکتہ پاکستان اور دہشتگردی تھا۔ مودی کا بلوچستان کے حوالے سے کہنا تھاکہ ‘‘پاکستان بلوچستان اور اپنے زیرقبضہ کشمیر کے لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا جواب دے’’۔ مطلب’’ الٹا چور کوتوال کوڈانٹے‘‘۔ 18ستمبر 2016 کی صبح میڈیا کے ہر چینل پر ایک ہی خبرکا شور تھا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے اڑی سیکٹر میں 12 انفٹری بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہاں تعینات 19 بھارتی فوجی مارے گئے ہیں۔ بھارت نے بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام لگانے میں دیر نہیں کی۔

نوٹ: محترم دوستوں پاکستان مسلم لیگ (ن) تیسری مرتبہ گذشتہ ساڑھے تین سال سے پاکستان میں برسراقتدار ہے، لیکن افسوس اس عرصے میں وزیراعظم نواز شریف کو پورئے پاکستان سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملا جس کو وہ وزیر خارجہ بناسکیں ۔ میرا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر ایک طویل مضمون لکھوں جو پانچ قسطوں تک چلاجائے ، لکھنا شروع کیا تو یہ مضمون طویل ہوتا چلاگیا، میں نے اس مضمون میں پوری کوشش ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی حقیقت کوسامنے لاوں، آپ کے تبصروں سے پتہ چلے گا کہ میں اپنے مقصدمیں کسقدر کامیاب ہوا۔ آیئے مضمون پڑھیں اور اپنا تبصرہ کرنا نہ بھولیں۔ شکریہ

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر : سید انور محمود