پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی کچھ یادیں

Liaquat Ali Khan

Liaquat Ali Khan

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے پاس شہادت کے وقت نہ کوئی بینک اکاؤنٹ تھا، نہ کوئی جائداد حتیٰ کہ ایک انچ زمین کا ٹکرا بھی نہیں تھا۔ شہادتکے بعد دنیا یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ ان کی پتلون کو پیوند لگے ہوئے تھے، جرابیں بھی پھٹی ہوئی اور جوتے بھی پرانے مرمت شدہ تھے۔ جی یہ وہ ہی خان لیاقت علی خان تھے
آپ ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور 1922ء میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کی۔ 1923ء میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1936ء میں آپ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے۔ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ خان لیاقت علی خان اپنے علاقہ کے بہت بڑے جاگیردار اور نواب تھے، پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد لیاقت علی خان نے اپنی پوری جاگیریں ، جائدادیں نہ صرف چھوڑ دی بلکہ پاکستان بننے کے بعد کبھی دوسرے مہاجرین کی طرح کلیم بھی نہیں کیا۔

آپ کرنال کے ایک نامور نواب جاٹ خاندان میں پیدا ہوئے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ آپ 2 اکتوبر، 1896ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ محمودہ بیگم نے گھر پر آپ کے لئے قرآن اور احادیث کی تعلیم کا انتظام کروایا۔ 1918ء میں آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918ء میں ہی آپ نے جہانگیر بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد آپ برطانیہ چلے گئے جہاں سے آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔

1923ء میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد آپ نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کروانے کے لئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1924ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔ اس اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دربارہ منظم کرنا تھا۔ اس اجلاس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔ 1926ء میں آپ اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک آپ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔

1932ء میں آپ نے دوسری شادی کی۔ آپ کی دوسری بیگم بیگم رعنا لیاقت علی ایک ماہر تعلیم اور معیشت دان تھیں۔ آپ لیاقت علی خان کے سیاسی زندگی کی ایک بہتر معاون ثابت ہوئیں۔:
پاکستان اللہ پاک کے کرم و فضل سے دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ساتھ ہی اسلام اور پاکستان کے دشمنوں نے بھی سازشوں کا جھال بچھا دیا جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ سولہ اکتوبر1951 کا دن تھا۔ وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راولپنڈی میں پاکستان مسلم لیگ کے جلس? عام سے خطاب کرنا تھا۔ اوائل سرما کی اس شام نوابزادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے۔ ان کیاستقبال کے لیے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی رہنما موجود نہیں تھا۔مسلم لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم لیگ گارڈز کے مسلح دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔ پنڈال میں چالیس پچاس ہزار کا مجمع موجود تھا۔

مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔وزیر اعظم نے ابھی ‘برادران ملت’ کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے۔ اگلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر نے پستول نکال کر وزیر اعظم پر یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلائیں۔ پہلی گولی وزیر اعظم کے سینے اور دوسری پیٹ میں لگی۔وزیرِ اعظم گر پڑے۔

فضا میں مائیکرو فون کی گونج لحظہ بھر کو معلق رہی۔ پھر تحکمانہ لہجے میں پشتو جملہ سنائی دیا ‘دا چا ڈزے او کڑے؟ اولہ۔’ یہ آواز ایس پی نجف خان کی تھی جس نے پشتو میں حکم دیا تھا کہ ‘گولی کس نے چلائی؟ مارو اسے!’ نو سیکنڈ بعد نائن ایم ایم پستول کا ایک فائر سنائی دیا پھر یکے بعد دیگرے ویورلے ریوالور کے تین فائر سنائی دیے۔ اگلیپندرہ سیکنڈ تک ریوالور اور رائفل کے ملے جلے فائر سنائی دیتے رہے۔ اس وقت تک قاتل کے ارد گرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر لیا تھا۔ اسکا پستول چھین لیا گیا تھا مگر ایس پی نجف خان کے حکم پر انسپکٹر محمد شاہ نے قاتل پر سرکاری پستول سے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلا کر اسے ختم کر دیا۔ وزیر اعظم شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لائے گئے۔ وزیر برائے امور کشمیر نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم کو اسی گاڑی میں ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے۔

لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے پُراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ لیاقت علی خان کا قتل وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی قیادت سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ سے نکل کر سرکاری اہل کاروں اور ان کے کاسہ لیس سیاست دانوں کے ہاتھ میں پہنچی۔ قتل کے محرکات، سازشیوں کے نام اور واقعات کا تانا بانا شکوک و شبہات کی گہری دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔ ذیل میں ہم اسی سازش سے پردہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک بہت بڑا الزام خان لیاقت علی خان پر لگایا جاتا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے روس کو نظر انداز کر کے ” امریکہ ” سے دوستی کی جو غلط اور بہت ہی غلط تھا ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لیاقت علی خان روس کا دورہ کرنا چاہتے تھے، لیکن روسی حکام نے گو کہ انہیں دعوت نامہ بھیج دیا، مگر شرط 20 اگست کے بجائے 15 اگست رکھ دی جو ممکن نہ تھی۔ تقسیم ہند کے بعد روس کی ہمدردیاں تو ویسے ہندوستان کے ساتھ تھیں۔ روسی سیاستدانوں کو بخوبی اس بات کا اندازہ تھا کہ انڈیا ہی ان کا قدرتی اتحادی ہوگا۔ لگتا ہے کہ ہندوستانی سفارت کاروں نے اس دورے کو منسوخ یا ناکام بنانے کے لیے اپنی کاوشیں کی تھی جناح صاحب کی امریکا دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ 5اکتوبر 1947 میں قائد اعظم کے ایلچی لائق علی نے امریکی حکام کو ایک یادداشت پیش کی تھی جس میں ان سے پاکستان کو قرضے کی فراہمی کی درخواست کی گئی تھی۔

ایم ایس وینکٹے رامانی کی کتاب ”پاکستان میں امریکا کا کردار” کے اردو ترجمے کے صفحہ نمبر 24ـ23 پر درج ہے کہ لائق علی نے محکمہء خارجہ کو دو مزید کاغذات پیش کیے۔ ایک میں پاکستان کی ضروریات کی تشریحات تھیں اور دوسرے میں مختلف ضرورتوں کا جواز پیش کیا گیا تھا۔ ان میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو صنعتی ترقی کے لیے 70 کروڑ ڈالر، زرعی ترقی کے لیے 70 کروڑ ڈالر اور اپنی دفاعی سروسز کی تعمیر و آلات کی فراہمی کے لیے 51 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔ دو ارب ڈالر کے لگ بھگ مجموعی رقم پانچ برس کی مدت میں استعمال کے لیے قرضے کے طور پر طلب کی گئی تھی۔

ان حقائق کی روشنی میں ایک بات تو واضح ہے کہ لیاقت علی خان نے پاک امریکا دوستی کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ آغاز قائدِ اعظم کی موجودگی میں تقسیم ہند سے قبل اور اس کے بعد ہو چکا تھا۔ لیاقت علی خان کے ساتھ ایک المیہ یہ تھا کہ انہوں نے جناح صاحب جیسے بااختیار گورنر جنرل کے ساتھ کام کیا تھا۔ جب تک جناح صاحب حیات رہے، کابینہ کے تمام اجلاس ان کی سربراہی میں ہوتے تھے اور فیصلہ کن شخصیت ان ہی کی تھی۔لیاقت علی خان کے پورے دور حکومت میں آئین نہ بن سکا۔ انہیں اپنے ہم عصر سیاستدانوں خصوصاً حسین شہید سہروردی کی عوامی مقبولیت کا بھی اچھی طرح اندازہ تھا۔ اس حوالے سے ان کے ذہنی تحفظات بھی تھے۔ لیاقت علی خان ایک انتہائی محتاط شخص تھے۔ حد یہ تھی کہ وہ بھی انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے لیکن ان کی پوری کوشش تھی کہ ان کے دفتری عملے میں کوئی ایسا فرد نہ ہو جو انڈیا اور پاکستان کی دہری شہریت رکھتا ہو۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا