رد ا لفساد فی الارض کی ضرورت

Terrorist

Terrorist

تحریر : قادر خان افغان
بھارت نے پراکسی وار کیلئے دہشت گردوں کو استعمال کرنے کا اظہار کچھ یوں کیا تھا کہ “بھارت کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے دہشت گردوں کا استعمال کرنا چاہیے”۔ بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کے اس بیان کی تائید بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی کی تھی ۔ دو سال قبل دیا جانے والا یہ بیان محض ایک سیاسی بیان نہیں تھا بلکہ یہ بھارت کی نئی ڈاکٹرائن پالیسی کا حصہ تھا جس میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرکے ایک جانب تو ہندو انتہا پسندی فروغ دیا جاسکے تو دوسری جانب اپنے مخالفین کے خلاف اسی ہتھیار کو استعمال کرکے اپنے مذموم مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے ۔ بھارتی وزیر دفاع یہ بھی کہہ چکے تھے کہ “ضروری نہیں کہ دشمن کے خلاف ہمارے فوجی ہی لڑیں “۔پاکستان عالمی استعماری قوتوں کے ہاتھوں جس طرح استعمال ہوا اُس کے مُضر اثرات تادیر قائم رہیں گے ۔یوم دفاع پاکستان کے موقع پر پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فکر انگیز ایک بیان دیا کہ”جہاد ریاست کا حق ہے ۔بھٹکے ہوئے لوگ جہاد کے نام پر فساد کررہے ہیں۔

پاکستان نے بہت کرلیا اب دنیا ڈومور کرے۔”بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی موجودہ سوچ مختلف اور روشن ہے ۔بد قسمتی سے پاکستان کو ایسے فسادیوں کے لئے تجربہ گاہ بنا دیا گیا تھا جن کی وجہ سے پاکستانی ریاست مسلسل خطرات سے دوچار ہوتی چلی گئی ۔ پاکستانی فوج تو کسی پرائی جنگ میں براہ راست ملوث نہیں رہی ، لیکن سویلین فوج کی وجہ سے ماضی کی پالیسیوں نے پاکستان کو نقصان زیادہ پہنچایا ہے ۔ افغانستان ۔سوویت یونین کی جنگ میں پاکستان نے براہ راست فوجی مداخلت کے بجائے سویلین فوج کا طریقہ اپنایا اور پاک۔افغان سرحدیں سوویت یونین کے خلاف اس طرح کھول دیں کہ دنیا بھر سے “جہاد”کے نام پر غیر ملکی پاکستان کے راستے افغانستان جاتے اور گوریلا جنگوں میں اپنا کردار ادا کرتے ۔ جہا د کے نام پر بننے والی غیر ملکی عسکری تنظیموں نے پاکستان میں اس طرح ڈیرے ڈال دیئے کہ پشاور کے قہوہ خانوں میں غیر ملکی یوں جوق در جوق بیٹھے ہوتے جیسے یہ خرطوم یا مغادیشو کے کوئی ہوٹل ہیں۔سوویت یونین کے جانے کے بعد ان غیر ملکی عسکری تنظیموں کے مطالبات پورے نہیں ہوئے اور ان کی شاخیں در شاخیں پھیلتی چلی گئیں ۔

مقبوضہ کشمیر میں سیاسی مزاحمت نے مسلح تحریک کا علَم بلند کیا اور پاکستان کی اخلاقی حمایت کے پس نظر میں مقبوضہ کشمیر میں مسلح مزاحمت کرنے والی تنظیموں نے پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کرلئے ، جس سے دنیا کو یہ تاثر گیا کہ پاکستان نے اپنی باقاعدہ فوج کے بجائے شہری فوج مقبوضہ کشمیر میں بھیجی ہوئی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے معروف حریت پسند تحریکوں کے دفاتر پاکستان میں ہونے کے سبب بھارت کو یہ موقع ملا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی تحریک آزادی کو دہشت گردتنظیمیں ثابت کیا جائے جس میں اُسے کامیابی ملی اور امریکہ نے حریت پسند تنظیموں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دینا شروع کردیا اور اِن آزادی پسند تحریکوں کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو سوویت۔افغان جنگ کے درمیان غیر فوجی مسلح مزاحمت کاروں و آزادی پسند وں کے ساتھ ہوا ۔برکس تنظیم کے مشترکہ اعلامیہ میں چین نے وہی موقف اپنایا جو بھارت دنیا کے سامنے دیکھا رہا تھا، اسی وجہ سے امریکہ ان حریت پسند تحریکوں اور اُن کے رہنمائوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے پاکستانی احتجاج کو نظر انداز کرچکا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب پاکستان سے ان تنظیموں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھارت ہی نہیں بلکہ امریکہ اور پاکستان کے قریب ترین دوست ملک چین کو بھی کرنا پڑا۔بھارت نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے ذریعے عدم استحکام اور بے امنی کی پالیسی اپنائی۔

بھارت نے بلوچستان میں اپنے ملک سے سویلین فوجی نہیں بھیجے بلکہ پاکستانیوں کو ہی بھرتی کرکے ریاست کے خلاف کھڑا کردیا اور ان کا سہولت کار بن گیا ، صوبہ پختونخوا میں بھارت سے مسلح جھتے نہیں گئے بلکہ اپنے بھارتی ایجنٹوں سے کالعدم تنظیموں کے سربراہوں کو خریدا اور پاکستانیوں کو ہی پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی کو اپنایا۔ کیا کسی بھی “جہادی تنظیم” میں بھارتی مسلمانوں کی تعداد موجود ہے۔جو پاکستانی ریاستی اداروں نے پکڑے ہوں۔ را کے ایجنٹ ضرور پکڑے گئے ہیں لیکن” بھارتی جہادی” نام کے پرندے پاکستان میں نہیں پائے گئے۔ پاکستانی انتہا پسندوں نے اپنے جتھوں کے ساتھ بھارت کے کسی پہاڑی علاقے میں نہیں بلکہ مسلم ملک افغانستان میں ہی ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔لیکن ان کا نظریہ فساد،پاکستانی نوجوانوں کو راہ سے بھٹکا رہا ہے۔ آزادی کے لئے اسلام کا نام استعمال کرکے جہاد کی غلط تشریح کی بنا پر پڑھے لکھے اعلی تعلیمی اداروں کے تربیت یافتہ نوجوان بھی محفوظ نہ رہ سکے اور ریاست کے خلاف ملک دشمنوں کے آلہ کار بن گئے ۔ کراچی میں بھارت کے مسلح جھتے نہیں تھے کہ کئی عشروں سے کراچی میدان جنگ بنا رہا ، بلکہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کے تربیت و حلف یافتہ دہشت گردوں کو سیاسی جماعت کے عسکری ونگ کا حصہ بنا دیا گیا ۔ سادہ لفظوں میں یہ کہہ کر جان چھڑا لی گئی کہ کراچی آپریشن کے نتیجے میں اگر کچھ نوجوان بھارت چلے گئے تھے تو اس کی ذمہ داری اُن پر عائد نہیں ہوتی ۔ سادہ لفظوں میں یہ کہہ دیا گیا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا جا رہا ہے اس لئے پہاڑوں میں جانے والے ناراض پاکستانی ہیں ۔ سادہ لفظوں میں یہ کہہ دیا گیا کہ عالمی استعماری قوتوں نے ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف قوم کے مذہبی جذبات کو استعمال کیا اس لئے اب اگر کچھ ہو رہا ہے تو یہ محض ردعمل ہے۔

بھارت کے اندر ان گنت علیحدگی پسند مسلح تحریکیں ہیں لیکن اُن کی مدد کے لئے دنیا بھر سے ہندو یا مسلم نہیں جاتے بلکہ وہ اپنے حقوق کی جنگ کیلئے خود پر بھروسہ کرکے جبر کو شکست دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ سر ی لنکا جو خود کش حملوں کا گڑھ تھا ، اُن ناراض گروپ کے خلاف سری لنکا حکومت بھرپور کوشش کرتی رہی اور بالا آخر کامیاب ہوگئی ۔بھارت کی مسلح تحریکیں اس کی مملکت کے اندر ہی رہیں ، سری لنکا کی مسلح تحریکیں اپنے حدود میں رہیں ۔ لیکن جب ہم پاکستان کو دیکھتے ہیں تویہاںافغانستان، ایران، لبنان، شام ، عراق ، یمن ، الجزائز ، چیچینا ، چین میں مختلف عسکری گروہوں کی کوئی نہ کوئی شاخ نکل آتی ہے۔ ستم بلائے ستم مغربی ممالک میں دہشت گردی کرنے والوں کا تعلق بھی کسی نہ کسی توسط سے پاکستان کے ساتھ جوڑ جاتا ہے ۔ سعودی عرب میں 34ملکی فوجی اتحاد کی سربراہی کا معاملہ ہو تو پاکستان کے کردار پر سب سے زیادہ انگلیاں اٹھ جاتی ہیں ۔ موجودہ حالات میں جہاں دیکھیں کہ اگر شام ، یمن اور عراق میں خانہ جنگیاں ہو رہی ہیں تو مختلف مسلح جتھوں میں پاکستانی شہریوں کی بڑی تعداد کی شمولیت کوئی پوشیدہ راز نہیں رہی ہے۔

سوشل میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں تو ہر مسلک کا گروہ اپنے ہم مسلک کو کسی دوسرے مسلک کے خلاف “جہاد”کے فتوی جاری کرتا نظر آتا ہے۔ ان تمام مسائل کی وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ اگر جنرل قمر جاوید باوجوہ کے مطابق عمل کیا جاتا کہ “جہاد ریاست کا حق ہے” ، تو اس پر عملی طور پر کاربند ہونا چاہیے ۔ پراکسی وار کا استعمال جس طرح بھارت کررہا ہے وہ انتہائی مکروہ عمل ہے، جس میں اس کے بھرتی کئے گئے دہشت گرد مساجد ، بازاروں ، عوامی مقامات ، سرکاری عمارتوں اور سیکورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں لیکن اس کا یہ چہرہ دنیا کے سامنے ہم بے نقاب کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔آج ہمارے سیاسی رہنما جب قبائلی علاقوں کی صورتحال کو کشمیر اور برما کی صورتحال کو کراچی سے مماثلت دینے لگنے تو پاکستان تو اپنا مقدمہ پہلی سماعت میں ہار جاتا ہے کہ پہلے اپنے گھر کو درست کرو پھر ہم سے بات کرنا ۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر ان قوم پرستوں جماعتوں نے کبھی احتجاج نہیں کیا اور ان کی احتجاجی ریلی عالمی ابلاغ میں ریکارڈ نہیں ہوئی ۔ روہنگیائی مسلم کے خلاف ہونے والے مظالم کو کراچی کے مہاجروں سے تشبہہ دینے والوں نے جب بھی کوئی احتجاجی ریلی نکالی تو وہ مملکت کے اداروں کے خلاف زہر افشانی یا پھر مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کیلئے تنازعات کی پیدا وار ثابت ہوئیں۔ہم نہیں کہتے کہ پاکستانی حکومت بھی بھارت کی طرح دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دینے کی پالیسی اپنائے ، لیکن اتنا ضرور ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ پہلے پاکستان کی عوام میں اداروں کا اعتماد بحال ہو ، رہنمائوں کے قول و تضاد کا خاتمہ ہو اور مسلم امہ کے لئے سفارتی ذرائع چینل استعمال ہو۔اگر مقبوضہ کشمیر ، میانمار سمیت کسی بھی ملک میں مسلمانوں کے خلاف ظلم کی انتہا ہو رہی ہے تو او آئی سی کے پلیٹ فارم کوفعال کرائیں۔ عالمی استعماری قوتوں کے ڈومور مطالبات کوپاکستانی پارلیمنٹ اور او آئی سی کی اجازت سے مشروط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان عالمی استعماروں قوتوں کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے ۔ ہمارے نوجوانوں و عوام میںرد الفساد فی الارض کا سپاہی بننے کا جذبہ ابھارنا وقت اور پاکستان کی اصل ضرورت ہے۔

Qadir Khan Afghan

Qadir Khan Afghan

تحریر : قادر خان افغان