پاکستان گرے لسٹ کی زد میں

FATF

FATF

تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان

انتہائی افسوسناک امر ہے کہ عالمی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کا نام دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں ناکام ممالک کی فہرست میں شامل کردیا گیاہے۔ اجلاس میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے لئے ووٹ دیا، جبکہ پاکستان کے حلیف تصور کیے جانے والے ممالک ترکی، چین اور سعودی عرب نے بھی اس کی حمایت کی۔ایف اے ٹی ایف ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جسے 1989ء میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سے منسلک مالی معاونت کی روک تھام اور بین الاقوامی مالیاتی نظام کو اس سلسلے میں درپیش خطرات سے بچانے لیے قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد ان ممالک پر نظر رکھنا اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ہے۔ گرے لسٹ میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کیلئے مناسب اقدامات نہیں کرتے ، جبکہ بلیک لسٹ میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جو کھل کر دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتے ہیں۔ پاکستان اس سے قبل 2012ء سے 2015ء تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں رہ چکا ہے۔پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے بعض شدت پسند تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے، اور فرانس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی بات اس لیے کی کہ فرانس کی طرف سے پاکستان میں حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ تھا، لیکن اس کے باوجود حافظ سعید کی کالعدم تنظیم کو مختلف ناموں سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو 26 نکات پر مشتمل ایک مفصل پلان دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس پر عمل در آمد کرے، اس کے پاس پندرہ ماہ تک کا وقت ہے اس کے بعد پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔

بلاشبہ فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنا پاکستان اور اہل پاکستان کی انتہائی بد قسمتی اور ہماری غلط خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے ۔ درحقیقت بانی پاکستان کے انتقال کے بعد ہماری خارجہ پالیسی کی سمت اس وقت ہی بگڑ گئی تھی جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ماسکو کے باضابطہ دورے کی دعوت ٹھکرا کر امریکہ کا رخت سفر باندھا تھا اور اسکے اتحادی بن گئے تھے۔ امریکی اتحادی ہونے کے اس کردار کے ناطے ہی ہم نے سوویت یونین کیخلاف شروع کی گئی امریکی سردجنگ میں امریکہ کی مدد کی اور اس جنگ میں سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کیلئے تیار کئے گئے افغان مجاہدین، ہماری سرپرستی میں ہی سوویت فوجوں کیخلاف گوریلا جنگ لڑتے رہے ، جنہوں نے بالآخر سوویت یونین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور اوردنیا کی اس دوسری بڑی طاقت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سرد جنگ میں افغان مجاہدین کی کھیپ تیار کرنے سے متعلق امریکی اتحادی کے ہمارے کردار نے ہی پاکستان کو ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کے تحفے دیئے جن کے افغان مجاہدین عملاً اسیر ہوگئے تھے۔

یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ نے تو اس جنگ میں کامیابی کے بعد مجاہدین کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا مگر یہی مجاہدین بعدازاں ہمارے لئے لائبیلٹی بن گئے جنہیں پیسے کی ریل پیل اور کلاشنکوف کے آزادانہ استعمال کی پڑی ہوئی لت نے اپنی ضروریات پوری کرنے کی خاطر انتہاء پسندی اور لوٹ مار کے راستے پر ڈال دیا۔ پاکستان پر کسی بھی طرح کے الزام لگانے سے پہلے اس امر پر غور کیا جائے کہ پاکستان کیلئے مسائل اور مشکلات امریکہ کی سوویت یونین کیخلاف سردجنگ کے بعد پیدا ہوئیں جب امریکہ نے پاکستان کو بطور آلہ کار استعمال کیا۔ سوویت یونین کیخلاف جنگ میں حصہ بننا ہمارا غلط فیصلہ تھا، اصولی طور پر تو ہمیں بھی اپنی خارجہ پالیسی ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں سے ہی ہم آہنگ رکھنی چاہیے تھی جس میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرنے اور اسکے ”ڈومور” کے رعونت بھرے تقاضوں کی تعمیل کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی مگر ہم نے امریکی احکام کے آگے اپنی گردن جھکائے رکھی، اور غلط سمت کی جانب متعین ہوئی ہماری خارجہ پالیسی نے بدستور ہمیں امریکہ کے پلڑے میں ڈالے رکھا ، چنانچہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی افغان جنگ میں بھی ہمارے اس وقت کے جرنیلی صدر مشرف نے امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرنے کیلئے امریکی نائب وزیر دفاع کی محض ایک ٹیلی فون کال پر ہی سر تسلیم خم کرلیا۔

پاکستان نے امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر امن و امان کے قیام اور خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جنگ اس قدر جانفشانی سے لڑی کہ پاکستان کے تقریباً 73ہزار سے زائد شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو جان کی قربانی دینا پڑی، اس کے علاوہ پاکستان کو تقریباً 150 ارب ڈالر سے زائد کا اقتصادی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ دیکھا جائے تو کسی بھی جنگ میں اس سے بڑی قیمت ، اور اس سے بھاری نقصان اور کیا ہوسکتا ہے۔ مگر امریکہ جسے اپنی ناقص حکمت عملی اور جابرانہ سوچ کی بدولت افغان سرزمین پر شکست فاش کا سامنا ہے ، دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان کی مثالی خدمات کے اعتراف کی بجائے کھلی دھمکیاں دیتے ہوئے اور دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی شکست کا نزلہ پاکستان پر ڈالتا رہا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ پوری قوم، افواج پاکستان اور سول سکیورٹی اداروں کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے، اور اس فیصلے کا اس وقت کیے جانا جب پاکستان میں ایک نگران حکومت قائم ہے، تعصب پر مبنی ہے جس کامقصد پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگانا ہے۔ جبکہ پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے لئے دہشت گردی کے الزامات میںبھارت بھی پیش پیش رہا ہے۔اس حقیقت سے پوری دنیا آگاہ ہے کہ ہمارے ساتھ بھارت کا تنازعہ صرف کشمیر پر ہے جسے وہ اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور کشمیریوں کے حق رائے دہی کی حمایت کرنے کے جرم میں ہی وہ ہم پر تین جنگیں مسلط اور ہمیں سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرچکا ہے ، اور اب باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے۔

جبکہ بھارت آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے آواز اٹھانے والے کشمیریوں کو دہشت گرد، اور پاکستان کی جانب سے انکے حق میں آواز اٹھانے والوں کو درانداز قرار دیتا ہے۔ حافظ سعید اور انکی جماعت بھی بھارت کو اسی لئے کھٹکتی ہے کہ وہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد میں آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ اسی تناظر میں بھارت نے حافظ سعید اور انکی جماعت لشکر طیبہ پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کی سازش کی جس کیلئے اس نے ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچا کر جواز پیدا کیا اور پھر اپنے زہریلے پروپیگنڈے کے باعث امریکہ کو اپنا ہمنوا بنا کر اسکے ذریعے حافظ سعید اور انکی تنظیموں پر اقوام متحدہ کی پابندیاں لگوا ئیں۔ بھارت کے ساتھ کشمیر پر ہی تو ہمارا تنازعہ ہے جس کی آزادی کی جنگ کشمیری عوام لڑ رہے ہیں چنانچہ مسئلہ کشمیر حل ہوئے بغیر ہماری بھارت کے ساتھ امن کی کوئی خواہش کیسے پوری ہو سکتی ہے۔ عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نو منتخب حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرح ایکشن پلان میں پیش کیے گئے نکات پر عمل در آمد کرتی ہے تاکہ جلد از جلد پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالا جا سکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی میں بہتری کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کو یہ باور کروایا جائے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو کردار ادا کیا ہے دنیا بھرمیں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔

Rana Aijaz Hussain

Rana Aijaz Hussain

تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان

ای میل:ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033