پاکستانیت کی ٹانگیں

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
جی ہاں عمران خان نے کیہڑا کوئی جھوٹ بولا ہے کہ کے پی کے کا مقابلہ سندھ اور پنجاب پولیس سے نہیں کیا جا سکتا آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ ایک لہر سی اٹھتی ہے میڈیا کسی ایک چیز کے پیچھے لگ جاتا ہے ۔گزشتہ کئی دنوں نے ایک بھونچال سا آیا ہوا کہ کے پی کے کی پولیس بھی پنجاب اور سندھ جیسی ہے اس سے ثابت ہوا کہ یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ پنجاب اور سندھ کی پولیس کم درجے کی پولیس ہے۔صاحبو!معاملے کو سمجھنے کی کوشش کریں پاکستان میں پولیس کا امحکمہ اس قدر بدنام ہے کہ اب کچھ لوگ اسے فوج کی طرز پر شیرازہ بندی کا مشورہ دے رہے ہیں ۔پولیس کے بارے میں ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اپنی بھی نہیں ہوتی۔چھلڑ ایک ایسا بدنام لفظ ہے جو اس پولیس کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے۔ہمیں پنجاب میں رہتے ہوئے اتنے ہی برس ہوئے ہیں جتنی پماری عمر ہے اور اس ساری ساٹھ سالہ زندگی میں جب ہوش سنبھالا اس ادارے کے ساتھ جتنی بار بھی پالا پڑا کچھ دے کر ہی جان چھٹی۔ہم کوئی عادی مجرم نہ تھے لیکن زندگی میں کبھی نہ کبھی تھانے کچہری جانا ہی ہوتا ہے۔

سچ کہیں اگر اس محکمے کو ختم بھی کر دیا جائے تو جرائم میں اگر کمی نہ ہوں تو سانوں پھڑ لینا۔زیاد عباسی اسلام آباد پی ٹی آئی کے صدر تھے پچھلے سال اس دنیا سے رخصت ہوئے ان کے جنازے میں گئے تو کوئی درجن بھر کے قریب لوگوں کی جیؤبیں کٹ گئیں جن میں ایک عدد جیب میری بھی تھی میں نیجیسے ہی منہ دؤیکھنے کی کوشش کی کوئی ماہر کھیسہ تراش مجھے نشانے ؤپر لے بیٹھا اس سے پہلے دینہ جہلم میں ایک گجر دوست کے جنازے میؤں بھی یہی کچھ ہوا خیر میں نے بلند آواز میں ایس او ایس کالؤ دی بہت سے لوگ بچ گئے ایک ستم گر دفنانے کے عمل کے دوران پکڑا گیا۔اس دوران میں نے کھنہ چوکی آ کر اطلاع دی کہ میرے ساتھ یہ واقعہ ہو گیا ہے۔مجھے اطلاع ملی کہ آئیے ایک پکڑ لیا ہے۔تھانے لے جایا گیا شام کو میں چوکی پہنچا تو پتہ چلا کہ ملزم اندر بند ہے اور اس کو بڑا مارا گیا ہے۔

میں نے اپنے اس ستم گر سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا کوئی چیمہ صاحب تھے انہوں نے کہا آئو جی مل لیں دیکھا تو وہ بڑے مزے سے سو رہا تھا۔بعد میں ایک شخص کو بلایا گیا اور میری رقم جو لکھوائی تھی مجھے واپس کر دی گئی اس طرح ملزم بچ گیا اور میرے پیسے واپس ہوئے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ملزم کس نے پال رکھا تھا یہ اسلام آباد پولیس کا ایک کارندہ تھا جو سول وردی میں یعنی عوام میں سے پولیس سے مل کر عوام کی مدد کر رہا تھا۔ایسے کئی ایجینٹ کام کرتے ہیں جنازوں میں شادی بیاہ میں جیبیں کاٹنے کا کام بڑی بے دردی سے ہو رہا ہے ہم میں سے ہر ایک شخص اس زندگی میں ان فنکاروں کے ہاتھ لگ چکا ہے۔میںیہ نہیں کہتا کہ یہ لوگ کے پی کے میں نہیں ہیں اگر ایسا ہوتا تووہاں گنڈ کپ نام مشہور نہ ہوتا۔لیکن سچ پوچھیں یہ جو کچھ سندھ اور پنجاب میں انھی مچی ہوی ہے یہ پاکستان کے کسی حصے میں نہیں ہے۔کل ایک نجی چینیل کے پروگرام میں بھی یہی کہا تھا کہ آپ جو کچھ بھی کہہ لیں پنجاب اور سندھ میں جو اندھیر مچا ہوا ہے اس کا عشر بھی کے پی کے میں نہیں ہے۔

یار لوگ اب پشاور میں جلسہ کرنے جا رہے ہیں یہ وہی پشاور ہے ناں جہاںلال ٹوپی والوں کا سربراہ اپنی حکومت کے دور میں نہیں آ سکا اب نون لیگ بھی جلسہ کرتی ہے سرخ پوش بھی مجمع لگاتے ہیں یہ کمال کس کا ہے یہ اللہ کے بعد پاک فوج اور کے پی کے پولیس کا کام ہے جتنی شہادتیں کے پی کے پولیس کے مقدر میں لکھی گئی ہیں اتنی پنجاب اور سندھ یا دیگر صوبوں کے حصے میں نہیں آئیں ۔صاحب لوگوں کا کہنا ہے کہ عاصمہ رانی کا قتلہوا مردان کی بچی کا وقعہ ہوا بھائی لوگو انسان تو بنیادی طور پر ہے ہی فسادی قتل تو ہر معاشرے میں ہوتے ہی اس میں چیخنے چلانے کی کیا بات ہے شور تب مچائیں کہ پولیس اور وہاں کی حکومت اس واقعے پر پردہ داری کرے۔چھوٹا سا مگر ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا قصور اور کے پی کے واقعات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے انگریزی کی مثال ہے کہ سیب کا مقابلہ سیب سے اور کیلے کا کیلے سے ہو یہاں کے پی کے میں اور وہاں پنجاب میں دو مختلف قسم کے جرائم ہوئے ہیں وہاں بین الاقوامی گروہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تین سو کے قریب بچے پہلے زیادتی اور قتل کا شکار ہوتے ہیں وہاں کا وزیزر قنون رانا ثناء اللہ جو قانون کی بجائے قنون کا وزیر ہے کہتا ہے کہ جی جناب وہاں تو زمین کا مسئلہ تھا۔اب کیا کہیں جن لوگوں کے منہ خون لگا ہو وہ ایسی ہی تاویلیں ڈھونڈتے ہیں عاصمہ رانی کا قتل ہوا ملزم نے پہلے ہی سے بھاگنے کے انتظامات کئے ہوئے تھے وہ بھاگ گیا سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بھاگنے میں پولیس نے مدد کی ؟کیا اس کو روکنے کے لئے ایف آئی کو بروقت آگاہ کیا گیا؟ان سب سوالوں کا جواب لیجئے حضور وہ بھاگا پہلی بات ہے پاکستان میں پکڑے جانا مشکل ہے سعودی عرب میں پکڑنا ایسے ہی جیسے گھڑے کی مچھلی کو پکڑنا ہے وہ پکڑا جائے گا لیکن یہ بات بھی تو زہن میں رہے کہ اس کا بھائی کے پی کے پولیس کی ستائش کر رہا ہے وہاں کا ایم این اے شہر یار آفریدی دن رات اہل خانہ کے ساتھ ہے۔

پرویز خٹک کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کسی بھی معاشرے میں جرائم ہوتے ہیں لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس معاشرے میں ان مجرموں کو پکڑا جاتا ہے؟کیا ملزمان کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے یا ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے؟پنجاب اور سندھ میں بد قسمتی سے یہ لوگ حکومتی شہہ پر قتل کرتے ہیں قبضے کرتے ہیں لوگوں کی جان و مال کو ناجائز تصرف میں لاتے ہیں۔حضور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پولیس کے لئے یہ بات بڑی آسان تھی کہ پولیس مقابلے میں مردان اور کوہاٹ ایک دو بندے اڑا دیتی اور طوفان بد تمیزی یہ کہہ کر بند کر دیا جاتا کہ ملزم مقابلے میں مارا گیا۔یہ پولیس مقابلے پنجاب ہی میں کیوں ہوتے ہیں یہ سندھ میں ہی کیوں ہوتے ہیں۔رائو انوار کو تو سب جانتے ہیں یہ ذوالفقار چیمے بھی یاد ہیں آپ کو۔مجھے خود ایک بار غلام حیدر وائیں نے جدہ میں کہا تھا ایک میٹینگ میں کہ امن قائم کرنے کا نیا طریقہ ہمارے پاس ہے اور وہ ہے پولیس مقابلے ۔مکافات عمل دیکھئے جس ملوکے کو مارا تھا انہوں نے اسے بر سر عام روک کے مارا۔خدا را انصاف تاخیر سے ہونے دیں مگر انصاف ہونے دیں۔بہتر گھنٹوں میں پھر پولیس مقابلے ہی ہوں گے۔سیالکوٹ کے معصوم بچے ہوں ننھو گورایہ جیسا ظالم ہو بے گناہ محسود ہو یا مدثر یہ تیزیاں ہی بیڑہ غرق کرتی ہیں۔آپ نے کیا کیا؟محسود کو مار کر جو نفرت کے پہاڑ پختونوں میں کھڑے کئے ہیں جائیں جا کر فاٹا میں دیکھیں۔آپ نے پاکستانیت کا قتل کیا ہے رائو انوار۔یہ اچھا ہوا عمران خان نے معاملہ ہاتھ لیا ورنہ لال ٹوپی والے تو افغان افغان پختون پختون کر رے تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کبھی بھی اپنی حکومت میں ایسے کی ملزم کی پشت پناہی کرے گی وہ مشتاق غنی ہو پرویز خٹک ہو یا کوئی اور سب کو تفتیش کے مراحل سے گزرنا ہو گا۔میں نے ایک بار پہلے بھی کہا تھا اس کا نام ہے عمران خان مارے گا چن چن کے۔اسے اس بات کی کوئی غرض نہیں کہ کوئی وزیر رگڑے میں آتا ہے یا کوئی با تدبیر پکڑا جاتا ہے۔کیا خوب بات ہے جو ہمارے نبی حضرت محمد ۖ نے کی کہ تم میں سے پہلی قومیں اس لئے تباہ کر دی گئیں کہ وہ امیروں اور طاقت والوں کو چھوڑ دیتی تھیں اور غریبوں ناکسوں کو سزائیں دیتی تھی۔

سچ پوچھیں یہ فلسفہ اگر میں نے اور آپ نے سمجھ لیا تو کوئی وجہ نہیں یہ معاشرہ درست ہو جائے۔سپریم کورٹ کے فیصلے بھی اسی عظیم حکم کے سائے میں ہونے چاہئیں۔یہ نہیں کہ نہال اور طلال تو اڈیالہ جیل میں جائیں اور کیپٹن صفدر نواز شریف اور اس قبیل کے لوگ موجیں ماریں یہ فیصلہ کمال کا فیصلہ ہے مگر اس کے بعد عوام سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ لوہے کے چنے ہیں اب کورٹ کو وہ درجہ ء حرارت بھی دینا ہے جس میں لوہا پگلے اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کو تگنی کا ناچ نچانے کی دھمکی دینے والے اپنے اس انجام کو پہنچیں ۔پلس مقبلے ٹنگاں ونگیاں رنگیلے نے کسی فلم میں کہا تھا یہاں مقابلوں کے بعد پاکستانیت کی ٹانگیں ٹیڑھی ہو رہی ہیں حضور۔

Engineer Iftikhar Chaudhary Logo

Engineer Iftikhar Chaudhary Logo

تحریر : انجینئر افتخار چودھری