پاکستان میں میڈیا کا منفی کردار

Pakistani Media

Pakistani Media

تحریر: صبا نزہت، کراچی
کہا جاتا ہے کہ دنیا اب ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔تیز ترین ذرائع آمدورفت اور ذرائع مواصلات نے فاصلوں کو مٹا کر رکھ دیا ہے۔اب تو اپنے گھر کی آرام کرسی پر بیٹھے ہی دنیا کے ہر خطے کی سیر کی جاسکتی ہے۔اپنے پیاروں کو ناصرف بھیجا جاسکتا ہے بلکہ ہم انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ بھی سکتے ہیں۔جی ہاں یہ میڈیا ہی ہے جس نے دنیا کے فاصلوں کو انگلی کی پوروں کی مدد سے سمیٹ کر رکھ دیا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا نے ہماری زندگیوں میں اپنی جڑیں اتنی گہری کر لی ہیں کہ اب زندگی اس کے بغیر ادھوری سی لگتی ہے۔

بلاشبہ میڈیا کے مفید پہلو سے کسی صورت بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اپنی ہر شکل میں خواہ ٹی وی ہویا ریڈیو،اخبارات ہوں یا انٹرنیٹ کی جادونگری ہے بہت کام کی چیز۔ دور حاضر میں میڈیا ایک بہت بڑی قوت بن چکا ہے مگر یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس قوت سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نقصان۔ بالکل ایسے ہی جیسے چاقوایک مفید ہتھیار بھی ہے۔ چاقو کی مدد سے پھل کاٹا جاسکتا ہے اور درخت کی لکڑی بھی،چاقو دکھا کر اپنی جان بچائی بھی جاسکتی ہے اور کسی کی جان لی بھی جاسکتی ہے۔

میڈیا بھی ملک کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔اپنی ثقافتی عکاسی کرتاہے ،ملکی نظریات کو مضبوط بناتا ہے۔تعلیمی سرگرمیوں کو عام کرتا ہے۔اسکے ذریعے ہی ایک ملک اپنا مثبت اور روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔غرض میڈیا انسانی ذہنوں کو فتح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں میڈیا کا منفی کردار زیادہ نمایاں ہے۔وہ خود ہی اپنے ملک کی جڑیں کاٹ رہا ہے اور ساکھ کو دنیا کی نظر میں تباہ کرنے میں پیش پیش ہے۔یہاں جھوٹ کی سیاست ہوتی ہے۔اسی لیے اخبار اور ٹی وی چینلز جھوٹ کو ہی بیچتے اور خریدتے ہیں۔صحافی حضرات جھوٹ کو بڑی مہارت سے خوشنما لفظوں کے کاغذ میں لپیٹ کرسچ بنا دیتے ہیں۔مجرم کو معصوم اور معصوم کو مجرم بنانے کے فن میں یکتا ہیں۔اخبار ہوں یاصحافی ،ٹی وی کے چینلز ہوں یا نیوز اینکرز سوائے چند ایک کے سب ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔یہاں روز میڈیا پر نظریہ پاکستان کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ہندو،یہود ونصاری کے نظریات کو فروغ دیا جاتا ہے۔

اسلام کے نام پر بننے والے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میڈیا پربیخ کنی کی جاتی ہے۔اسلامی حدود کو پامال کیاجاتاہے۔غلط اعدادوشمار،سنسنی خیز خبریں، افواہیں، نفرت انگیز سیاست اور جرائم کی حوصلہ افزائی نے قوم کو مایوسی کے سمندر میں دھکیل دیاہے۔دہشت گردی،سیاسی رساکشی،اور کرپشن کی خبروں کے باعث عوام کا پاکستان کی سالمیت پر سے یقین کمزور ہوتا جارہا ہے۔یہ ایک خوفناک حقیقت ہے کہ پاکستان کا میڈیا امریکہ کی فورتھ جنریشن وار جیسی جنگی حکمت عملی کا شکار ہوچکاہے۔جس میں میڈیا کے ذریعے ملک میں خلفشار اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔اس حکمت عملی میں امریکہ،انڈیا اور اسرائیل اتحادی ہیں۔پاکستان کی ساری قوم اس امریکن فورتھ جنریشن وار کی زد میں ہے۔ صرف یہی نہیں پاکستانی میڈیا ملک کے خاندانی نظام کی جڑیںبھی کھوکھلی کررہاہے۔اخلاقی اور خاندانی اقدار کوپامال کررہا ہے۔ٹی وی پر مارنگ شوز میں کبھی میاں بیوی لڑتے جھگڑتے دکھائی دیتے ہیں جو ایک دوسرے پر گھٹیا الزامات لگاتے اور کیچر اچھالتے ہیں تو کبھی ساس بہو کی ناچاقیوں کو موضوع بنایا جاتا ہے۔

ڈراموں کی صورتحال اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔خفیہ معاشقے ہر ڈرامے کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔سالی بہنوئی کا معاشقہ ،ہم جنس پرستی، حلالہ، ناجائز اولاد،زنا بالرضا کو ڈرامے کے ذریعے معاشرے میں قابل قبول بنایا جارہاہے۔ڈرامے میں دکھائے جانے والے اداکاروں کے قیمتی ملبوسات،عالیشان بنگلے ،بڑے شاپنگ مالز ملک کی غریب عوام کو احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہیں۔لوگوں میں مادیت پرستی،بے سکونی اور ناشکری کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔وہ ان مادی چیزوں کے حصول کے لیے جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔پاکستان کے اپنے ڈرامے تو اخلاق وکردار کی دھجیاں اڑا رہے ہیںوہ الگ ہے سونے پہ سہاگا سٹار پلس کے ڈرامے جو ہمارے ملک میں دکھائے جارہے ہیں۔

کبھی نہ ختم ہونے والے یہ بے مقصد ڈرامے نہ صرف لوگوں کا وقت ضائع کرتے ہیں،عریانیت پھیلاتے ہیں،بلکہ ہندو کلچر مذہبی عقائد اور زبان کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ٹی وی پر دکھائے جانے والے اشتہارات بھی عریانیت عریانیت کی اعلی مثال پیش کرتے ہیں ۔ اسلامی چینلز بھی میڈیا کی یلغار سے محفوظ نہیں ہیں۔اسلام کے نام پر نت نئے بدعات فروغ پارہی ہیں۔رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر جو پروگرامز رمضان میں پیش کیے جاتے ہیںوہ اس بابرکت مہینے کا تقدس پامال کرتے ہیں۔لوگ سحری و افطاری کے قیمتی اوقات دعا مانگنے کی بجائے فضول اشتہارات دیکھنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔

علماءکی جگہ فاسق ،فاجر اور جہلا ءنے لے لی ہے۔جس کا جی ناچ گانے سے بھر جاتا ہے تو وہ دین سکھانے لگتا ہے۔ایسے لوگوں کی فہرست میں ڈاکٹر عامر لیاقت کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔غیر مستند علماءمیڈیا کے ذریعے دین کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔پاکستان کی فلم اور میوزیک انڈسٹری بھی بے حیائی پھیلانے میں کسی سے پیچھے نہیں۔فحش لباس میں بیہودہ ڈانس دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ یہ ناچنے والیاں اسلام کی نام لیوا اور امت محمدی میں سے ہیں۔فیشن شو میں نیا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔اب مرد بھی زنانہ لباس پہن کرکیٹ واک کرنے لگے ہیں۔جو خود بھی اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں اور انھیں دیکھنے والے بھی ملعون ہی ہیں۔ان تمام پروگرامز میں وقار ذکاءکا شو بھی اپنی مثال آپ ہے۔جہاں ڈئیر کے نام پر وطن عزیز کی بیٹیاں ایسی ایسی شرمناک حرکتیں کرتی ہیں کہ الحفیظ الامان۔ مارنگ شو سیاسی ٹاک شو غیر اخلاقی سستی عامیانہ گفتگو،گالیوں کی بھرماراور بیہودگی کے انبارکے سوا ناظرین کو اور کچھ نہیں ملتا۔ کچھ ایسا ہی حال سوشل میڈیا کا بھی ہے۔ قندیل بلوچ ہو یا چائے والا۔

وہی بے ہودگیاں وہی فحاشیاں
وہی تاریکیاں وہی مایوسیاں

غرض یہ کہ آزادی صحافت کے نام پر ہمارا میڈیا بالکل ہی مادر پدر آزاد ہوچکا ہے۔اپنے ساتھ ساتھ ملک اور عوام کو بھی تباہی کی طرف لیے چلاجارہا ہے اور کوئی روکنے والا نہیں۔

Journalism

Journalism

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام ایسے پروگرامز کا سختی کے ساتھ بائیکاٹ کریں۔ملک کے پڑھے لکھے ،باشعور،اسلامی ذہن رکھنے والے اور سمجھ دار لوگ اس فیلڈ میں آگے آئیں۔اچھے اور معلوماتی پروگرامز ٹی وی پر پیش کیے جائیںجو نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام سے مطابقت رکھتے ہوں۔حیا کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوں اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں معاون ہو۔بلاشبہ میڈیا کو باطل سے آزاد کرانا بھی جہاد ہے۔اللہ ہمیں اس جہاد میں حصہ لینے والا بنائے۔اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایک صاف ستھرا ماحول دینے والا بنائے۔(آمین)

ابھی تو طفل مکتب ہوسمجھا لو اپنے جوبن کو
پرندے کچی فصلوں کا بڑا نقصان کرتے ہیں

تحریر: صبا نزہت، کراچی