پاکستان میں سب کچھ ہوتا ہے لیکن

Pakistan

Pakistan

تحریر : جنید رضا، کراچی
مکرمی:گزشتہ رات سائٹ حبیب بینک کراچی میں واقع نادرا کے آفس ایک کام کے سلسے میں جانا ہوا،بائیک پارک کرکے گیٹ کی طرف نظر دہرائی، جو عوام الناس کی بھیڑ میں جکڑا ہوا مجھے وہی سے ہی گھر پلٹ جانے میں عافیت کی دوہائی دے رہا تھا،خیر میں نے ہمت کی اور سیدھا گیٹ پر پہنچا ،اور وہاں موجود گارڈکو اپنے آنے کے مقصد سے آگاہ کیا،انہوں نے بغیر کسی چوںوچاں اوربغیرکسی چائے پانی کے مجھے اندر جانے دیا ،خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے میںاپنے مطلوب کائونٹر کا ٹوکن لیتے ہوئے کائونٹر کی جانب لپٹا،انتظار گاہ میں اپنا تھوڑا سا وقت بتانے کے بعد کائونٹرسے اپنا کام انجام پاتے ہی نکل رہا تھا،کہ ساتھ والے کائونٹرسے آنے والی آواز نے مجھے الٹے پائوں اپنی طرف متوجہ کیا،وہاں موجود سوٹ کوٹ میں ملبوس ایک شخص (اطلاع کے مطابق آفس کاذمدار ہے)اپنے سامنے سیٹ پر بیٹھے دوسرے شخص سے کہ رہا تھا،آپ پریشان کیوں ہوتے ہو ؟یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ ہوتا ہے ،اس سوٹ کوٹ والے صاحب کی بات مجھے تخیل کی دنیا میں لے گئی اور سوچنے پر مجبور کرگئی ،کہ کیا یہی وہ پاکستان ہے جہاں کے باسیوں کو پریشانی کے عالم میں زندگی بسر نہیں کرنی چاہی ہے ،کیوں کہ یہاں سب کچھ ہوتا ہے ۔جی ہاں:میرے ضمیر نے مجھے جھنجوڑتے ہوئے جواب دیا،یہی وہ پاکستان ہے جہاں سب کچھ ہونے کے دعوے تو ہوتے ہیں لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں۔

کیا تونے نہیں دیکھا،یہاں عدالتوں کے نظام کے باوجود سزا کوئی تھانیدار،آفیسر اور SHOدے رہا ہوتا ہے۔کیا تونے نہیں دیکھا،مظلوم کی درخواست کے باوجود بھی ظالم آزاد اور مظلوم ہی پابند سلاسل ہوتا ہے،کیا تونے نہیں دیکھا،دوسو جعلی مقابلے کرنے والا رائو انوارابھی تک آزاد اور مقتول نقیب مسعود کے ورثا کو ڈرا دھمکا کر واپسی گھر جانے پر مجبور کردیا جاتا ہے،کیا تونے نہیں دیکھا،غریب لائن میں اور امیر اے سی میں بیٹھے بیٹھے ہی کام کرواجاتا ہے،کیا تونے نہیں دیکھا،اپنے ضمیر کو نا بیچنے کے عزم پر غریبوں کو انصاف دلانے کے لئے کھڑے ہونے والا،لاپتہ کرکے لاش جھاڑیوں سے وصول کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے،کیا تونے نہیں دیکھا ،اپنے ضمیر کو بیچنے والا غریب امیدوار ایک سال میں ہی امیر ہوجاتا ہے ،کیا تونے نہیں دیکھا ،جب تیری دو ہنڈا بائیکیں چوری ہوئی تھی اور تو پرچہ کٹوانے کے لئے تھانوں کے چکر کاٹتا رہتا تھا،کیا تونے نہیں دیکھا ،جب تیرے ہار نا ماننے پرچہ تو کاٹ دیا جاتا ہے لیکن وہ پرچہ تھانے کی چار دیواری میں ہی محفوظ رہتا ہے۔

کوٹ تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ،کیا تونے نہیں دیکھا ،22فروری جمعہ کی نماز کے بعد تیری آنکھوں کے سامنے ہی تیرے دوست کو گولیوں سے چھلنی چھلنی کردیا جاتا ہے،نشاندہی کے باوجود قاتل آج تک آزاد پھرتے ہیں،کیا تونے نہیں دیکھا ،بہن کی عصمت کا محافظ شاہ زیب سرے عام خون میں نہلادیا جاتا ہے،کیا تونے زینب کے باپ کے آنسواور ماں کی سسکیاں نہیں دیکھی ،کیا تونے مردان میں شادی سے انکار پر طالبہ کا چھلنی جسم نہیں دیکھا ،کیاتونے 39ممالک کا اسلامی اتحاد نہیں دیکھا ،لیکن عملی کردار میں ایک ملک بھی میدان میں نہیں آیا،کیا تونے بھارتی ادکارہ سری دیوی کی موت پراس دیوی کی سری کو تین دن تک میڈیا کے آنسو میں ڈوبتے نہیں دیکھا،،کیا تونے نہیں دیکھا، بھارتی ادکارہ دیوی کی ١یک سری کوتین دن تک رابعہ بصری کی طرح پیش کیا اور دوسری جانب شام وغوطہ میں کٹنے والی لاکھوں سریوں کی جانب توجہ غم بھی نہ دلائی،کیا تونے یہاں کا دوغلہ نظام نہیں دیکھا ،بہت باتیں سنائی دل ہی دل میں ،پھر اس سوٹ کوٹ والے نوجوان کو دیکھ کر یہ خیال آیاکہ باہر جاکر بسینے،بھوک اورتھکن سے دوچار تمام لوگوں کو چیخ چیخ کر کہو،پریشان مت ہو۔

یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ ہوتا ہے،بس پھر اس خیال سے رک گیاکہ اگر انہو ں نے یہ پوچھ لیا، کیا یہی وہ پاکستان ہے جہاں سب کچھ ہونے کے دعوے تو ہوتے ہیں لیکن ہوتا کچھ بھی نہیں،بس اسی سوچ وبیچار میں اپنی بائیک کی طرف جانے لگا اورآج میراضمیر مجھ سے بہت خفا تھا ،باربار مجھے یہ طعنے دئے جارہا تھا۔کہ آج تک تیرا یہ قلم کبھی پاکستان کے خلاف نہیں اٹھا،ہمیشہ تونے پاکستان کی عزت ومقام میں لکھا ،لیکن آج تیرے دل،تیری سوچ اور تیرے قلم نے اس پاک مٹی سے بیوفائی کی ،آج تیرے قلم نے اس کے تقدس کو اپنی سیاہی کی بھینٹ اتار دیاہے۔میںاسی مایوسی کے عالم میں اپنے ضمیرکی جانب مخاطب ہوااور اسے یہ احساس دلانے لگا،کہ میرا قلم پاکستان نہیں بلکہ وطن عزیز میں جاری اس یک طرفانہ نظام کے خلاف ہے،مگروہ میری ایک بات بھی سننے کو تیار نہ تھا۔

بس اسی بے بسی کے عالم میں بائیک پر بیٹھا،چابی نکالی ،بائیک اسٹاٹ کی ،پیچھے سے آواز آئی مولوی صاحب :کچھ خرچہ پانی تو دیتے جائو،میں نے چھپک کر پیچھے دیکھا ،ہلکی داڑھی ،نادرا کی خاص وردی اور گلے میں غلامی (نادرا)کا کارڈ لٹکائے ہوئے ،ایک شخص اپنا داہنا ہاتھ میری جانب بھڑہایاہوا تھا ،میں اپنے ضمیر کی جانب متوجہ ہوا ،تو وہ اپنی آنکھیں نیچے اور شرم ساری سے سر جکھائے ہوئے مجھے یہ کہنے کا احساس دلا رہا تھا ،کہ مجھے میرا جواب مل گیا ،تم اورتمہارا قلم دونوں ٹھیک کہتے ہیں ،میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بیس کا نوٹ اس کو تھماتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔۔۔

ہر شخص ہے خدا ہونے میں مصروف
یہ تماشا بھی خدا دیکھ رہا ہے

Junaid Raza

Junaid Raza

تحریر : جنید رضا، کراچی
متعلم : جامعہ سعیدیہ زمزمہ ڈیفنس کراچی
0303-2972058
0310-2238341
junaid53156@gmail.com