پاکستانی سیاست کے چار ستون، جمہوریت، آمریت، شہادت اور کرپشن؟

Politics

Politics

تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
اِس سے انکار نہیں کہ دنیا میں پیدا ہونے والا ہر انسان پیدائشی طور پر روتا ہوا تو پیدا ہوتا ہے مگر درحقیقت اللہ رب العزت اسے دنیا میں امن وآشتی کا پیامبر بنا کر بھیجتا ہے اِس سے یہ تو واضح ہواکہ اِنسان پیداہی زمینِ خداپرامن اور سکون اور بھائی چارگی پھیلانے کے لئے آیاہے وہ تو زمانے ،تہذیب اور معاشرے ایسے کے حالات پیدا کر دیتے ہیں جو اسے کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں اور اس کی شخصیت جن بنیادں اور ستونوں پر قائم ہوتی ہے وہ اِنہی سے اپنی پہنچان بنا لیتا ہے۔ یہاں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ جس طرح دنیا کی بلندو بالا عمارتوں کا وجود مضبوط ستونوں پر قائم رہتاہے اور یہی ستون برسوں عمارتوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر برداشت کئے رکھتے ہیں یوں عمارتیں اور ستون ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہوتے ہیں اس طرح جب تک دونوں اپنے باہمی اتفاق اور اتحاد سے اپنا وجود زمین پر قائم رکھتے ہیں یہ اقوام عالم کے لئے کارآمد ثابت ہوتے ہیں اور عالمِ انسانیت کو اپنے فیض سے مستفید کرتے ہیں۔

یکدم اِسی طرح 68 سالوں سے میرے دیس پاکستان کی سرزمین پر ماضی میں جتنے بھی سیاستدان آتے رہے ہیں، اور جوابھی ہیں اوراِسی طرح مستقبل میں جتنے بھی آتے رہیں گے یہاں اِن سب میں ایک بات اور ایک نکتہ یہ ضرور مشترک ہے کہ اِن سب نے ہی اپنی عوامی خدمت اور ملکی تعمیر وترقی کی سیاست سے لے کراپنی حقِ حکمرانی تک جو عمارت تعمیر کی ہے اِنہوں نے اِس عمارت کواپنے ہی بنائے ہوئے چارستونوں جن میں ”جمہوریت، آمریت، شہادت اور کرپشن یا کمیشن و پرسنٹیج“ شامل ہیںاِن پر قائم رکھاہواہے۔

اَب آپ کو میری یہ بات بھی ضرور تسلیم کرنی ہوگی کہ میرے مُلک کے سیاست دان دعوے تو عوامی خدمت اور خوشحالی اور مُلکی تعمیر وترقی کے بہت کرتے ہیں مگر افسوس ہے کہ سرزمینِ پاکستان کے سیاستدانوں کے یہ دعوے ہمیشہ محض دعوے ہی رہے ہیں آج اگر یہ اپنے اِس دعوے میں سچے اور مخلص ہوتے تو میرادیس ایٹمی طاقت بن کر بھی توانائی بجلی اور گیس جیسے دیگر بحرانوں کا شکار نہ ہوتااور اِس کے عوام پینے کے صاف پانی، جدیداسپتالوں وجدید طریقہ علاج ، بہترین اور یکساں نظامِ تعلیم، جدید سفری سہولیات اور دیگر بنیادی اِنسانی ضرورتوں اور آسائشوں سے ہرگز محروم نہ رہتے اور پاکستانی عوام کبھی بھی خط غربت سے نیچے نہ ہوتے اور بھوک و افلاس کی وجہ سے ایڑیاں رگڑرگڑ کر اِس طرح تو نہ مرتے جیسے کہ یہ آج مررہے ہیں۔

Landlord

Landlord

افسوس ہے کہ میرے ملک پاکستان میں سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہمیشہ اپنی ہی فلاح اور بہبود کا سوچا ہے، گزشتہ 68 سالوں سے تو سرزمین پاکستان کے کچھ مٹھی بھر خاندانوں جن میں مالدار ، زمیندار، جاگیردار، خان، چوہدری، وڈیرے اور بھٹو شامل ہیں انہوں نے میدان سیاست میں اپنے جیسے تیسے جتنے بھی جوہردکھائے ہیں اِن سے بھی ساری قوم واقف ہے مگراب تو پچھلی ایک دودہائیوں سے ملکی سیاست میں جس طرح شریفوں اور زرداریوں نے قدم رکھاہے یہ بھی سب ہی جانتے ہیں اور اَب تک کی دونوں کی آپس کی مفاہمتی اور فرینڈلی سیاست سے بھی دنیا اچھی طرح سے واقف ہوچکی ہے۔

اگرچہ ..!! گزشتہ سالوں کے دوران نواز اور زرداری سیاست مُلک اور قوم کے لئے تو اتنی کارآمد ثابت نہ ہوسکی ہے جتنی کہ اِس دوران دونوں نے اپنی سیاست سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچایاہے مجھے اِس سے انکار نہیں کہ نوازاور زرداری سیاست نہ صرف مُلک بلکہ خطے کی سیاست کے حوالے سے بھی ایک ایسی سیاست ہے جس کے ثمرات کئی برسوں تک محیط رہیں گے اور اِن کی آپس کی اِس مفاہمتی اور فرینڈلی سیاست کا خمیازہ قوم اور مُلک کو ہی بھگتنا پڑے گااور ایسا اُس وقت تک ہوتارہے گا جب تک صحیح معنوں میں دونوں میں سے کوئی ایک میدانِ سیاست سے کسی بھی سیاسی حربے اور شاطرانہ سیاسی چلوں اور سیاسی پینترے بازیوں سے پوری طرح ناک آو ¿ٹ نہیں ہو جاتا ہے۔

آج تب ہی تو شائد کوئی اِس حقیقت سے انکاری ہوکیوںکہ اَب اِس بات اور اِس نکتے کا بڑی شدت سے پی پی پی اور زرداری والوں کوبھی احساس ہونے لگاہے کہ ن لیگ نے میدانِ سیاست سے پی پی پی کو ناک آوٹ کرنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان کے نام سے کراچی آپریشن جو صرف سندھ اور کراچی میں شروع کیا گیا ہے دراصل ” اِس نیشنل ایکشن پلان کے اوٹ سے ن لیگ نے سیاسی انتقام کا ایک پلان تیارکررکھاہے“ آج اِس پر خاص طور پر پی پی پی اور اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات کا خام اور قوی خیال یہی بن چکا ہے کہ یہ سب کچھ اِن کے ہی خلاف کیا جارہاہے اَب اکثرمقامات پر یہ شخصیات برملا جس کا ظاہری اور باطنی طور پر کچھ اِس طرح کرنے لگی ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان اور کراچی آپریشن کی آڑ میں اصل نشانہ پی پی پی کو ہی بنایاجارہاہے جس کا دوٹوک انداز سے اظہار پچھلے دِنوں 27 دسمبرکو نوڈیرو میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹونے اپنی والدہ شہید رانی بینظیر بھٹو کی آٹھویں برسی کے موقع پربڑے اجتماعِ عام سے خطاب کرتے ہوئے کچھ یوں کیا کہ ”شہیدبے نظیر بھٹونے جان دیدی۔

National Action Plan

National Action Plan

مگر دہشت گردوں کے سامنے سر نہیں جھکایا“ ”عوام پوچھتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے نام پرصوبوں کی خلاف سازش کب بند ہو گی؟ یہ وہ نیشنل ایکشن پلان نہیں جس پر سب متفق تھے..!!یہ تون لیگ کا ایکشن پلان ہے…!!؟؟ نیشنل ایکشن پلان سیاسی انتقام کے سِواکچھ نہیں…؟؟!!“ اِس موقعے پر اِن کا مطالبہ تھاکہ” ایکشن پلان کی نگرانی کے لئے پارلیمانی کمیشن بنایا جائے “اِن کا یہ بھی کہنا تھاکہ” کیا ماڈل ٹاو ¿ن میں دہشت گردی نہیں ہوئی، چودہ انسانوں کے قاتل کدھر ہیں؟پولیس کس کی آواز پر سہولت کار تھی؟آج پھر سیاسی انتقام کی روایت ڈالی جارہی ہے ، قومی اداروں کو ماں کا زیور سمجھ کر بولی لگائی جارہی ہے، عوام کے معاشی قتل کی اجازت نہیں دیں گے،ہمیں دھمکاکر خاموش نہیں کیاجاسکتا، پارلیمنٹ میں آواز نہ سنی گئی تو عوامی عدالت میں جائیں گے اور پھردمادم مست قلندر ہو گا“اِسی طرح وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ ”ہم ڈرنے والے نہیں ، کوئی سندھ کی طرف آنکھ نہیں اٹھا سکتا، ایک آدمی جو خود کو چوہدری سمجھتاہے اِس کے فیصلے مسلط نہیں ہونے دیں گے“۔

جبکہ پی پی پی اور زرداریوں کی اِن ساری باتوں اور دمادم مست قلندر والی دھمکی کا جواب اِس کے اگلے روز کراچی تشریف لا کر وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ایک مقامی ہوٹل میں وفاق ایوانِ ہائے صنعت و تجارت کے تحت منعقدہ 39 ایکسپورٹ ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کچھ یوں دیاکہ” کراچی آپریشن ہم نے شروع کیا، ادھورا نہیں چھوڑیں گے، دہشت گردی کا خاتمہ اور کراچی میں مکمل بحالی امن ہمارامشن ہے، تین سال پہلے کا کراچی دیکھیں اور آج کا فرق نظر آئے گا، © صوبائی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں، سندھ میں مداخلت کا تاثر غلط ہے، سندھ حکومت کے تحفظات قانون اور آئین کے مطابق حل کریں گے“۔

جبکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ قبل ازیں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی کراچی آمدپر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اِن کا استقبال کیا اور اِسی دوران اپنی مختصر ترین ملاقات کے دوران ہی وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے شکوہ بھرے انداز سے وزیراعظم نواز شریف سے کہاکہ”وفاق رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر سندھ حکومت کے تحفظات کو سُن نہیں رہاہے، اِس موقع پر اِن کا یہبھی کہنا تھاکہ ” وزیراعظم صاحب! وفاقی وزیرداخلہ براہ راست سندھ حکومت کے امورمیں مداخلت کررہے ہیں، آپ بھی ہماری نہیں سن رہے ہیں،اَب آپ ہی یہ بتائیں کہ ہم کیا کریں؟ اِس پر وزیراعظم نے صرف یہ کہاکہ” آپ اسلام آباد آجائیں مل بیٹھ کرمسئلے کا حل نکال لیں گے“ ۔

Qaim Ali Shah

Qaim Ali Shah

اَب ہم دیکھتے یہ ہیں کہ 30 دسمبر کو سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ اسلام آباد جارہے ہیں اِن کے وہاں پہنچنے کے بعد وفاق اور اِن کے درمیان رینجرز اختیارات کا معاملہ کتنا سلج ھتا ہے یا مزید الجھ جاتاہے یہ تو شاہ صاحب کے اسلام آباد پہنچنے اور وہاں سے واپسی کے بعد ہی پتہ چلے گاکہ سندھ اور وفاق کے درمیان متنازع ہوتا ہوا رینجرز اختیارات کا معاملہ کیسے حل ہوتا ہے۔ بہرحال، یہ مسئلہ آج نہیں تو کل کہیں نہ کہیں پہنچ کر توضرورحل ہوہی جائے گا مگر ہمیں اِس حقیقت سے کبھی بھی انکار نہیں کرناچاہئے کہ جب تک سیاستدان اپنی جمہوریت کے حقیقی ثمرات عوام الناس تک نہیں پہنچائیں گے اور خود ہی جمہوری دیوی کے پوجاری بنے رہیں گے اور عوام کو یکسر نظر انداز کرکے جمہوریت کا لبادہ اُوڑھ کر جمہوریت کے سارے کا ساراسو فیصد فائدہ اپنے ہی دامن سمیٹتے رہیں گے تو پھر لامحالہ اِنہیں کنٹرول کرنے کے لئے آمرکا ڈنڈاچلے گااور مُلک پر آمریت کے اقتدارکا جھنڈالہر ادیا جائے گا پاکستانی قوم یہ بات خوب جانتی ہے کہ دورِ آمریت میں عوام کو روپے میں چارآنے اور آٹھ آنے جتناتو فائدہ ضرور پہنچاتا ہے جبکہ دروِ جمہوریت میں عوام کو آٹے میں نمک جتنابھی فائدہ نصیب ہیں ہوتاہے۔

آج پاکستانی قوم کا ہر فرد اِس سوچ اور فکر میں مبتلاہے کہ ہمارے سیاستدان جمہوریت کا نعرہ لگاکر سیاست کرتے ہیں اور اقتدار بھی اِسی کے سہارے لے لیتے ہیں مگر جب یہ اِس حد سے بے قابو ہوکر آگے نکل جاتے ہیں تو یہ خود ہی اپنے کرتوتوں اور حرکتوں (جیساکہ اِن دِنوں سندھ میں دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور کرپشن کے بڑھتے ہوئے معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے وفاق نے رینجرز کو خصوصی اختیارات دیئے ہیں تو کرپشن میں ملوث ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر سندھ حکومت سینہ کوبی کرتے اور چیخ چیخ گلے پھاڑتے احتجاج کرتے پھررہی ہے آج اگر یہ معاملہ سیاسی طور پر حل نہیں ہو جاتا ہے تو پھر حالات دونوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے) کی وجہ سے آمر کے ڈنڈے اور آمریت کو مسلط کر لیتے ہیں۔

پھر آمر کے ہتھے جو چڑھتاہے آمر اس کے اعمالوں کی وجہ سے الٹا دیتا ہے جِسے سیاستدان شہید کا ررجہ دے دیتے ہیں اور پھر شہید کی پارٹی اس کی شہادت پر اپنا سیاسی قد اُونچے سے اُونچا کرتی چلی جاتی ہے جیساکہ اِن دِنوں ملکی سیاست میں سیاسی جماعتیں اپنے شہدا ¾ کے تذکرے کرکرے عوام سے ووٹ لیتی ہیں پھر اِن ہی ووٹوں کی بدولت اقتدار حاصل کرلیتی ہیںیا اقتدار کی کُرسی پر بیٹھ جاتی ہیں اور جب یہ ایسا کرلیتی ہیں تو پھر یہ اور اِن کے سرگرداں لوگ اور وزراءیہی کچھ کرتے ہیں آج جس کرپشن میں ڈاکٹرعاصم حُسین جیل کی سلاخوںکے پیچھے ہیں یعنی کہ ہماری ملکی سیاست میں یہی وہ چارعناصر ”جمہوریت، آمریت، شہادت اور کرپشن /کمیشن وپرسنٹیج ہیں جس پر ہماراہر بڑاچھوٹااور پرانااور نیاسیاستدان اپنی سیاست کرتا ہے۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر:محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com