قوم کو کیا بنا دیا

Politics

Politics

تحریر : شاہ بانو میر

قوم کو کیا بنا دیا

تو نے تو اے چارہ گر اور ہی گل کھلا دیے
بخیہ گری کے شوق میں نئے زخم لگا دیے

پاکستان کی سیاست کا تقاضہ تھا ملک کا غریب ظالم خاندانی روایتی سیاستدانوں سے آزاد کروانا ہے فلاحی مملکت جیسے مغربی ممالک میں اس طرز پر فلاحی اسلامی ریاست کا قیام اب ضروری ہے جس کیلئے ایک صاف ستھرا نتھرا ہوا انسان چاہیے تھا وہ کرکٹ میں قوم کا ہیرو پھرکینسر ہسپتال پھر نمل یونیورسٹی کی وجہ سے ہیرو بن چکا تھا صرف اور صرف یہی تھا جو ہر لحاظ سے فِٹ تھا اس کا کام سب کے سامنے تھا لہٰذا کچھ لوگ بیٹھے اور اسے قائل کر کے آخر کار مائل کر لیا اور یوں سیاست کا نیا باب شروع ہوا
مگر
اس چناؤ میں ایک قابل پڑھا لکھا مگر نفیس سوچ اور نرم خیالات سے محروم شخص بھی شامل تھا
نئی سیاست کا موجد تباہ کن ذہنی حالت کے ساتھ اندھا دھند غضبناک سیاست کرواتا رہا
نتیجہ
آج ملک و قوم اس کے ذہن کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار
نہ سر ہے نہ پیر
بس دیوانگی دیوانگی ہے
تُکا لگ جائے تو کئی دن کئی مہینے شور ہی شور
ورنہ سوائے جوشیلی باتوں کے جو اندرونی حبس کا ظاہر کرتی ہے
اس کے سوا قوم کو کچھ نہیں ملا
مجھے یہی اندازہ ہوا کہ
کامیاب دانشور !! جو محروم بچپن ہو وہ کتنا ہی پڑھ لکھ جائے
مگر
اس کے اندر ذات کا انتشار اس کی تعلیم اور دانشوری کو دیمک کی طرح چاٹ کر قلم سے صرف انتشار اور تباہی ہی پھیلاتا ہے
اور
ایسے لوگوں کی رسائی کسی رہنما یا ادارے تک ہو تو وہ بھی انہی کی سوچ کا عکس دکھائی دیتا ہے
ملک و قوم کو عمران خان جیسا لیڈر تخلیق کر کے دینے پر قوم یقینی طور پے شکریہ ادا کرتی
اگر عمران خان کی سیاست میں یہ انسان اسے زہریلے بد تمیزی کے ٹیکے نہ پلاتا
ایک خاموش طبع انسان جو قوم کا بہترین رہنما بن سکتا تھا
ایک بد مزاج الجھے ہوئے ذہنی پسماندہ دانشور کی صحبت کا شکار ہو کر اپنی ہر خوبی گنوا بیٹھا
پتہ ہی نہیں چلا
خاموش طبع سلجھا ہواشرمیلا انسان کہاں چھپ گیا؟
اس دانشور کا عکس اب اس پڑھے لکھے رہنماکی تقریروں میں باتوں میں نظر آنے لگا
وہی جو یہ خود ٹی وی پر کہتا ہے اس کی زبان سے سنائی دئے جانے لگے
اوئے چور اوئے فلاں مزید غلیظ سے غلیظ الفاظ اب یہ رہنما بے جھجھک کہنے لگا
مگر
یہ سیاسی غنڈہ گردی بد لحاظی جو اس لیڈر کے شایان شان ہر گز نہیں
پہلے یہ زبان ان پڑھ عام نچلی سطح کے کارکن کرتے تھے
یہ تحفہ تھا
اس بد تمیز دانشور کا جسے بولنے کا طریقہ سکھانا بڑے بھول گئے
آج اتنے سالوں کی بد لحاظی اور بد تمیزی کے لیکچر سننے کے بعد یہ قوم تیار ہو چکی ہے
سیاسی تربیت مکمل ہو گئی
آج مثبت سوچ سے محروم یہ نوجوان صرف اور صرف برائی خامی اور کمی دیکھنے پر اکِتفا کر بیٹھا ہے
یہ ہمیشہ کا المیہ ہے
اس قوم کے پاس اپنا دماغ نہیں ہے رہنما کے اشارے پر چلتی ہے
ماں کا شہزادہ تربیت بھول کر اس تند خُو دانشور کی عامیانہ زبان بول رہا ہے
اس کی زباں اب ہر کارکن بول رہا ہے
ایسی زبان تنور میں اخباری ٹکڑوں کو لپیٹنے والے اخباری تراشوں سے سیکھی جاتی ہے
آج
ہر پاکستانی فخر سے ہر سیاستدان کو گریبان سے پکڑ کر فلم بنا کر
سوشل میڈیا پر حریف سیاسی جماعت کو زیر کرنا چاہتا ہے
گالیوں کا کلچر سیاست میں پورے جوبن پر ہے
جس ملک کو ٹھیک کرنے نکلے تھے
ماؤں کے لعلوں کو اسی کی سادگی کو تباہ کر کے غنڈے بنا دیے
اس بِھیڑ کو بہت جتن سے قائد نے “”قوم”” کی حیثیت دی تھی
ثانی قائد کہلانے والے نے آج اس قوم نامی مخلوق کو پھر سے بھیڑ میں بدل دیا ہے
اور
جو ظلم اس رہنما نے اس دانشور کے مشورے سے کیا وہ یہ ہے
کہ
قوم کو صرف اور صرف منفی باتیں کرنے پھیلانے اور سوچنے پر لگا دیا
تعمیری سوچ اور تعمیری گفتگو سب کی سب خواب و خیال ہوئی
قوم کو قوم نہیں رہنے دیا
مکھی بنا دیا
کوئی اچھی بات ان کے منہ سے نہیں نکلتی
کوئی خیر کا کلمہ کوئی اچھائی کبھی نہیں سنیں گے
آپس میں سیاست نے ایسا دشمن بنا دیا کہ ملک کی یکجہتی داؤ پر لگا دی
اعلیٰ قومی نظریہ پر قوم بننے والی یہ موجودہ بھِیڑ آج صرف متلاشی ہے ای، دوسرے کی برائیوں کی خامیوں کی
ہمیشہ مکھی کی طرح وہیں جا کر بیٹھیں گے جہاں کوئی غلط بات ہوگی
دشمن ہمیں تباہ کرنے کے دعویٰ کر کے پوسٹس شئیر کر رہا ہے
اور
ہم باہم دست و گریباں کیوں؟
سیاستدان سیاست کرتے اچھے لگتے ہیں
جب ایک ذہنی طور پے پسماندہ اور احساس کمتری کا شکار مصنف اٹھ کر
سیاست دان تخلیق کرے گا
تو وہ اس قوم کو اپنی ذہنی تخریب کاری کے ذریعے راستہ نہیں دکھائے گا
بلکہ
اپنی ذہنی تسکین کیلئے ممکنہ منفی طرز عمل سے معاشرے کو تقسیم کر کے اپنی سوچ میں سرخرو ہو گا
جاگ جائیں
ایک ایک مفاد پرست کو پہچانیں
عمر بھر کام کرنے والے ورکرز وہیں کے وہیں رہتے ہیں ٌ
مگر
سیاست میں اپنی ذات کے فائدے حاصل کرنے والے بظاہر ملک کا نام لیتے ہیں
در پردہ رو رو کر دہائیاں دے دے کر اپنے گرد ایک حلقہ جمع کرتے ہیں
اور
دیکھتے ہی دیکھتے کل کا گمنام انسان بے نام ورکر آج کا کامیاب نام بن جاتا ہے؟
یہی ہیں وہ لوگ جو صرف فائدے حاصل کرنے سیاست میں آتے ہیں
اپنے ساتھ اپنی اولاد کو بھی کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں
اصل ذمہ دار یہی لوگ ہیں جو رہنما کی ہر غلط بات پر لبیک اس لئے کہتے ہیں
کہ
یہ سیاست ان کیلئے سونے کی کنجی ہے جس سے وہ امنے مقدر کا بند دروازہ کھول کر
کامیاب ہو جاتے ہیں
ایسی ہر ہستی کو جانیں پہچانیں اور اس کو اٹھا کر سیاست کے ایوانوں سے باہر پھینک دیں
دوسروں کو حقوق غصب کرنے کی دہائی یہی دیتے ہیں
تا کہ
اس شور میں ان کی اپنی سیاسی کرپشن کا بھانڈہ نہ پھوٹے
یہ بد اخلاقی بد تہذیبی اور پیسے کی سیاست کو رواج دیتے ہیں
جو آج ہوا ٌ
جس انداز سے چوروں کو آج ساتھ ملایا
اس خاص کرپٹ طبقے کو کو ئی اعتراض نہیں ہوگا
کیونکہ
انکی مزید تصاویر بن جائیں گی
جو انکی ذہنی حیثیت ہے
ملکی نقصان یا فائدہ وہ ان کی سوچ میں کہیں نہیں
ان جیسے لوگ بڑھ گئے اور تعمیری سوچ پارٹی سے باہر نکل گئی
نتیجہ
سیاست میں نظریاتی اختلاف سنا تھا
مگر
ایسا طرز سیاست پہلی بار دیکھا
لاہور میں اورنج ٹرین کی تاخیر کا کون ذمہ دار ہے ؟
اللہ کو حاضر ناظر جان کر بتائیں
آج جتنا نقصان ہوا بارشوں کی طغیانی سے اس کا اصل ذمہ دار وہی ہے
قابیل نے ھابیل کو جب قتل کیا تو علماء کرام تفاسیر میں بیان کرتے ہیں کہ
قیامت تک ہر قاتل کے قتل کا حصہ قابیل کے اکاونٹ میں جمع ہوگا
یہ تاخیر جس نے کروائی اور لوگوں کا نقصان اور اموات ہوئیں تو
یقین رکھیں اللہ ظلم نہیں کرتا
لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی جا سکتی ہے
حیرت ہوئی ایسے پریشان کُن ماحول میں
پھر سے یہی رہنما فرما رہے ہیں کہ
اس بار ہم ہی جیتیں گے پنجاب سے ؟
اللہ اکبر
نہ کسی کی جان کا دکھ نہ کسی کی مالی پرہشانی کا احساس
یہ انسان ہیں؟
جنہیں صرف تباہی کے وقت بھی اپنی کامیابی کے چانسسز بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں
تباہ حال ذہنی کیفیات نے اپنا اثر اس قوم تک منتقل کر دیا
یہ قوم جو دنیا کی بہترین امت کی حامل اس قوم کی اعلیٰ صفات کو اس سیاست نے نکال باہر کیا
اور
اسے صرف اور صرف بری باتوں کے پرچار پر لگا دیا
اے رہنما وطن
تو نے کیا کیا؟
ترقی کا چاند دکھانے کا وعدہ کر کے اندھیرے میں گُم کر دیا اسے؟
خودبھی کیا سے کیا بنے
اور
یہ میری قوم کو کیا بنا دیا؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر