پاکستان کے بقا کے لیے احتساب اہم ہو چکا ہے

Raheel Sharif

Raheel Sharif

تحریر : سید توقیر حسین زیدی
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ کرپشن کی لعنت ختم کئے بغیر پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ملکی سالمیت کے لئے سب کا احتساب ضروری ہے۔ ملکی یکجہتی اور خوشحالی بھی احتساب سے مشروط ہے۔ اس سمت میں فوج محاسبے کی ہر بامقصد کوشش کی مکمل حمایت کرے گی جو آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل کو یقینی بنائے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پوری قوم کی حمایت سے کامیاب جنگ لڑ رہے ہیں۔ سگنل رجمنٹل سنٹر کوہاٹ کے دورے کے موقع پر پاک فوج کے افسروں، جوانوں اور شہداء کے ورثا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا سگنل رجمنٹ کی مدد سے آپریشن ضرب عضب میں ہونے والی کامیابیوں میں معاونت ملی۔ انہوں نے افسروں، جوانوں اور شہریوں کی جانب سے جانوں کے نذرانے پیش کرنے کو سراہا۔آرمی چیف نے کرپشن اور احتساب کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے۔

جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے اس کے خاتمے سے تو وہ بھی اختلاف نہیں کرتے جن کے اپنے ہاتھ اس معاملے میں پوری طرح صاف نہیں ہیں، ملک میں کرپشن ختم کرنے کے بہت سے ادارے موجود ہیں وفاقی اور صوبائی سطح پر ان اداروں کی موجودگی کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہو پا رہی بلکہ اگر بنظرِ عمیق دیکھا جائے تو اس کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے جو شعبے اور ادارے پہلے کرپشن سے پاک ہوا کرتے تھے اور جن کے متعلق یہ تصور محال تھا کہ وہ بھی کرپٹ ہو سکتے ہیں کرپشن کی جڑیں پھیل کر ان اداروں تک بھی پہنچ چکی ہیں، پہلے کرپٹ لوگوں کی تعداد کم تھی تو کرپشن کی رقم بھی تھوڑی ہوتی تھی۔ لیکن اب کرپٹ افراد کا دائرہ پھیلا ہے تو کرپشن کی رقم بھی اربوں، کھربوں تک پہنچ چکی ہے۔ کرپشن کے بارے میں درست اور حتمی اعداد و شمار تو موجود نہیں لیکن ذمے دار حضرات کے بیانات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ سلسلہ اربوں روپے روزانہ تک جاتا ہے۔

کرپشن کے سلسلے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ ادارے اور افراد بھی کرپٹ ہو گئے جو خاص طور پر کرپشن روکنے کے لئے بنائے گئے تھے۔ غالباً ان اداروں سے وابستہ حضرات نے یہ سوچا ہوگا کہ جب پورا معاشرہ ہی کرپشن میں لتھڑا ہے تو وہ کیوں محروم رہیں چنانچہ انہوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے شروع کر دیئے۔ بہت بڑی تعداد نے تو باقاعدہ ڈبکیاں لگانا شروع کر دیں، ایسے میں کرپشن کا خاتمہ تو کیا ہونا تھا اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونا شروع ہو گیا۔ آج آپ کو ایسے واقعات مل جائیں گے کہ انسداد بدعنوانی کے کسی ادارے سے متعلقہ افسر نے کرپشن میں ملوث افسر کو رشوت لے کر چھوڑ دیا یا پھر تفتیش کے عمل میں کوئی ایسی کوتاہی چھوڑ دی کہ رشوت لینے والا بالآخر عدالت سے بری ہو گیا۔

Corruption

Corruption

سرکاری خزانے سے جو اربوں، کھربوں کی رقوم مختلف منصوبوں پر خرچ کرنے کے لئے رکھی جاتی ہیں ان کا ایک بڑا حصہ ان افسروں اور اہل کاروں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے جن کے واسطے یا وسیلے سے یہ رقوم خرچ ہوتی ہیں کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ لے لیں اس میں متعلقہ افسروں اور اہل کاروں کو ”حصہ بقدر جثہ” مل رہا ہوگا، چنانچہ ترقیاتی منصوبوں کا بمشکل ساٹھ، ستر فیصد ہی منصوبے پر خرچ ہو پاتا ہے۔ بعض صوبوں اور علاقوں میں تو یہ حصہ الٹ ہے یعنی ساٹھ ستر فیصد خرد برد ہو جاتا ہے اور بمشکل تیس، چالیس فیصد منصوبے پر خرچ ہو پاتا ہے۔ چند برس قبل آزاد کشمیر میں جو زلزلہ آیا تھا اس میں زیادہ تر سرکاری عمارتیں زمین بوس ہوگئی تھیں جبکہ پرائیویٹ بلڈنگیں نسبتاً محفوظ رہی تھیں۔ آپ نے کبھی گہرائی میں جا کر غور کیا ہوتو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ سرکاری عمارتوں کی تعمیر پر کرپشن کی گئی تھی (یا کمیشن کھایا گیا تھا) اور پرائیویٹ عمارتوں پر چونکہ ایسا ممکن نہیں اس لئے ان کا کم سے کم نقصان ہوا۔

سرکاری عمارتوں کی تعمیر میں اگر کمیشن کھانے والے انجینئر عمارتوں کے تعمیراتی سامان پر کمپرومائز کریں گے تو ظاہر ہے اس سے کام کی کوالٹی متاثر ہو گی۔ سڑکوں کی تعمیرات کے منصوبوں میں اگر معیار کا خیال رکھا جائے تو یہ سڑکیں دس دس بیس بیس سال تک پائیدار رہ سکتی ہیں اگر یہ چند برس بعد ہی ٹوٹنا شروع ہو جائیں تو اس امر میں شبے کی گنجائش نہیں رہتی کہ ان منصوبوں میں کرپشن ہوئی ہے۔ صرف سڑکوں اور عمارتوں پر ہی کیا موقوف ہر قسم کے سرکاری منصوبوں میں کرپشن ہوتی ہے۔ سرکاری اداروں کے لئے جو مال خریدا جاتا ہے اس کی اوور انوائسنگ کی جاتی ہے غیر معیاری مال زیادہ قیمت پر خریدا جاتا ہے حالانکہ دیانت داری سے کام لیا جائے تو کم رقم میں معیاری مال بھی مل جاتا ہے۔

سکولوں، کالجوں کی سائنس لیبارٹریوں میں سائنسی تجربات کا جو سامان خریدا جاتا ہے اس کی قیمت بہت زیادہ ادا کی جاتی ہے اسی طرح فرنیچر کی خریداری میں بھی گھپلے کئے جاتے ہیں اور تو اور لائبریریوں کے لئے کتابوں کی خریداری بھی اس لعنت سے پاک نہیں اور اس میں بھی کئی طرح کی کرپشن پائی جاتی ہے حتیٰ کہ لائبریریوں کے لئے کتابوں کی خریداری کے لئے بیرون ملک سے جو عطیات ملتے ہیں ان میں بھی کرپشن ہوتی ہے۔ پاکستان کے اخبارات میں یو ایس ایڈ کی طرف سے ایک اشتہار باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے جس میں لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اگر یو ایس ایڈ کے کسی منصوبے میں کرپشن دیکھیں تو اطلاع کریں ،ممکن ہے اس طرح کرپشن روکنے میں مدد ملتی ہو لیکن اس اشتہار کی اشاعت بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کرپشن کہاں تک پھیل چکی ہے۔

NAB

NAB

اس بات کا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ معاشرے میں بدعنوانی ایسے گردش کر رہی ہے جیسے انسانی رگوں میں خون دوڑتا ہے۔ جب کرپشن کی سطح اتنی بلند ہوگی تو ظاہر ہے اس پر قابو پانا بھی سہل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے ہمارے کرپشن کے خاتمے کے ادارے اس میں ناکام ہوگئے۔ ہمارا نظام احتساب بھی اسی طرح ناکام ہوگیا ہے جس طرح کرپشن کے خاتمے کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ قومی احتساب بیورو (نیب) اپنی کامیابیوں کے بڑے چرچے کرتا رہتا ہے لیکن یہ ادارہ بھی نکتہ چینی سے بچا ہوا نہیں، اعلیٰ عدالتوں میں دورانِ سماعت مقدمات میں فاضل جج اس ادارے کے متعلق جو ریمارکس دیتے رہتے ہیں ان سب کو اگر ایک جگہ جمع کیا جائے اور سب کو ملا کر پڑھا جائے تو نیب کے متعلق کوئی اچھی تصویر سامنے نہیں آتی۔ ”پلی بارگین” کے تحت گرفتار لوگوں سے رشوت میں لی گئی یا لوٹی ہوئی رقم کا کچھ حصہ واپس ضرور مل جاتا ہے لیکن ”لائنزشیئر” تو پھر بھی بدعنوان شخص کے پاس ہی رہتا ہے۔ ایسے میں یہ بات فخر سے بیان کرنا کہ اتنے ارب روپے وصول کر لئے گئے ہیں بے معنی بات ہے اس کے ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے کہ ”پلی بارگین” کے تحت رہا ہونے والے کتنے ارب روپے آسانی کے ساتھ ہڑپ کر گئے۔

حالیہ چند برس میں کرپشن کے سلسلے میں جو بڑے بڑے نام سامنے آئے ہیں اگر ان کی ایک فہرست بنائی جائے تو واضح ہوگا کہ پاکستان کی مملکت نے جن لوگوں کے سروں پر عزت کا تاج رکھا انہوں نے پاکستان کا نام سربلند کیا یا داغ دار کیا۔ بڑے بڑے عبادت گزار لوگ بھی جن کے ماتھوں پر سجدوں کے نشان بنے ہوئے ہیں اس لعنت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے کرپشن کے بارے میں نہ جانے اپنے تصورات کیا ہیں، کیونکہ وہ خود تو کرپشن کرتے ہیں لیکن معاشرے کو اس لعنت سے پاک کرنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ ہمیں وہ لوگ اچھی طرح یاد ہیں، جنہوں نے کرپشن ختم کرنے اور احتساب کا نعرہ لگایا لیکن جب چند برس بعد معلوم ہوا کہ وہ تو خود قابلِ احتساب ٹھہرتے ہیں۔

ان حالات میں جناب آرمی چیف کا عزم بہت مبارک ہے اور ان کے خیالات کو پوری قوم کی تائید بھی حاصل ہے لیکن وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے ”ضرب عضب ” اور ” ضرب آہن” کی طرح کا آپریشن ہی کامیاب ہوسکتا ہے اس سے پہلے معاشرے کے اندر سے ایسے افراد کی ایک ٹیم تلاش کرنا ہوگی جو صحیح معنوں میں ایماندار ہو اور نظربھی آتی ہو،جولوگ کانِ نمک میں جاکر نمک ہو جاتے ہیں وہ نہ کرپشن روکنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں نہ احتساب کا بھاری پتھر اٹھا سکتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس اربوں کھربوں کی دولت ہے اور روزانہ بڑھ بھی رہی ہے وہ ایمانداری کا دعویٰ کر بھی دیں تو اس پر یقین کرنا مشکل ہوگا جس شخص کا بظاہر کوئی کاروبار نہ ہو اور اس کا لائف سٹائل شاہانہ ہو، وہ ہم وطنوں کو اپنی ایمانداری کا کیسے یقین دلا سکتا ہے۔۔؟

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر حسین زیدی