پاکستان: دہشت گردی کے مقدمات میں شواہد سے متعلق قانون سازی پر غور

Police

Police

پاکستان (جیوڈیسک) پاکستان کی وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں پولیس کی تفتیش کے دوران گواہان کے بیانات کی آڈیو اور وڈیو ریکارڈنگ کو لازمی قرار دینے پر قانون سازی کی جائے۔

اس بارے میں غور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی سربراہی میں پیر کو ایک خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔

اجلاس کا مقصد دہشت گردی سے نمٹنے کے قومی لائحہ عمل کے تحت دہشت گردی سے متعلق تمام مقدمات اور اس کے مجرمان کی سزائے موت سے متعلق پیش رفت کو یقینی بنانا تھا۔

اطلاعات کے مطابق گواہان کے بیانات کی آڈیو اور وڈیو ریکارڈنگ کو عدالت میں پیش کرنے کے علاوہ گواہوں کو ان کے بیانات پر دستخط کرنے کو لازمی بنانے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی جائے گی۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کے موجود قوانین میں پائے جانے والے سقم کو قومی لائحہ عمل کے موثر نفاذ سے دور کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کو یقینی بنایا جائے گا اور حکومت ان مقدمات کی سماعت کرنے والے جج صاحبان، ان کے اہل خانہ، وکلا اور گواہوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔

ایک عرصے سے مختلف قانونی حلقوں کے علاوہ سماجی تنظیموں کی طرف سے بھی یہ مطالبات کیے جاتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے مقدمات سے وابستہ عدلیہ، وکلا اور گواہوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے تاکہ بلا خوف خطر ان مقدمات پر شفاف طریقے سے قانون کے مطابق عمل ہو سکے۔

ایسے مقدمات میں عموماً جان کے خطرے کے پیش نظر یا تو گواہان نہیں ملتے اور وکلا کی طرف سے بھی ایسے ہی خدشات کے باعث قانونی عمل طوالت کا شکار ہو جاتا ہے۔

ملک میں دہشت گردی کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لیے ایک طرف فوجی عدالتیں بھی قائم کی گئیں ہیں تو دوسری طرف انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں بھی متعدد مقدمات کی کارروائیاں جاری ہیں جن میں متعدد افراد کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔

بظاہر اسی بنا پر حالیہ ہفتوں میں ملک کے مختلف حصوں میں خاص طور پر شدت پسندوں کی طرف سے وکلا برادری کے نمائندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے صوبہ خیبر پختوںخواہ کے ضلع مردان میں کچہری میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے میں وکلا سمیت کم ازکم 13 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ گزشتہ ماہ کے اوائل میں کوئٹہ کے سول اسپتال کے باہر خود کش بم دھماکے میں درجنوں وکیلوں سمیت 73 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔