ایم اے او بی…بموں کی ماں

Mother Bomb

Mother Bomb

تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
گزشتہ جمعرات کی شام پاکستان سے ملحقہ افغان صوبے ننگرہار کے ضلع آچین میں امریکا کی جانب سے سب سے بڑا غیر ایٹمی بم سی 130 طیارے کے ذریعے گرایا گیا۔ 21 ہزار 600پاؤنڈ (تقریباً 11 ٹن بارودی موادپر مشتمل) جی بی یو 43 میسیو آرڈیننس ایئر بلاسٹ بم” ایم اے او بی (MAOB) جسے ”مادرآف آل بمز” (بموں کی ماں) بھی کہا جاتا ہے ، جو کہ ایٹم بم کے بعد انتہائی تباہ کن اور ہلاکت خیز بم ہے۔اس کے نتیجہ میں داعش رہنماء کے بھائی اور 12 غیرملکیوں سمیت 89 افراد ہلاک ہوگئے۔ حملے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے، جبکہ مستقبل میں بھی اس خطرناک بم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی کا خدشہ ہے، کیونکہ اور اس بم کے انسانی ہلاکتوں پر منتج ہونیوالے زہریلے اثرات پورے علاقے میں پھیل سکتے ہیں۔ افغانستان میں غیرجوہری بم حملے میں پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی عمارتیں متاثر ہوئیں ، قبائلی عمائدین کے مطابق غیرجوہری حملے میں کرم ایجنسی میں بھی گھروں کو نقصان پہنچا۔ امریکی حملے کے وقت زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے، دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ ترجمان پینٹاگون نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس بم کو تمام بموں کی ماں کہا جاتا ہے جس کی تیاری عراق پر امریکی حملے کے دوران شروع ہوئی تھی جبکہ گزشتہ شام افغان صوبے ننگرہار میں اس کا پہلا عملی تجربہ کیا گیا ہے۔ امریکی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق اس وزنی بم کو ایم سی130 جہاز کے ذریعے ننگرہار کے ضلع آچین میں داعش کے ٹارگٹڈ ٹھکانوں پر گرایا گیا، اس آپریشن کا انتظام امریکی فضائیہ کے اہلکاروں کے پاس تھا۔

عام طور پر بموں میں دھماکہ خیز مواد اور اسے جلانے کے لیے فیول یا آکسیڈائز استعمال ہوتا ہے لیکن ایم اے او بی (MAOB) خاصا مختلف ہے۔ یہ ایک تھرموبیرک ہتھیار ہے، جو فضا میں موجود آکسیجن کو زیر استعمال لا کر باردی مواد کو پھاڑتا یا ڈیٹو نیٹ کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اس بم میں زیادہ دھماکا خیز مواد ہوتا ہے۔دنیا میں پائے جانے والے زیادہ تر دیگر بم جس جگہ گرتے ہیں، اسی کے آس پاس کے مختصر حصے میں تباہی مچاتے ہیں۔ لیکن یہ بم بنیادی طور پر فضا ہی میں ارد گرد کی تمام آکسیجن کو آگ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یوں یہ بم ان جگہوں پر بھی تباہی مچا دیتا ہے جہاں کوئی دوسرا بم کارآمد نہیں ہو سکتا۔جی بی یو 43 عملی طور پر ڈیزی کٹر بم کے متبادل کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ امریکا نے ڈیزی کٹر بم ویتنام میں کھیتوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کئے تھے۔ایم او اے بی کنکریٹ اور مضبوط چٹانوں سے گزر کر تباہی نہیں مچا سکتا۔ اسے سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ تاہم اس بم کی آکسیجن کھینچ لینے کی صلاحیت غاروں کے سلسلوں جیسے اہداف پر گرائے جانے کی صورت میں اے مزید تباہ کن بنا دیتی ہے۔یہ بم ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹمی بم سے دگنا وزن رکھتا ہے۔ اس بم کا مجموعی وزن تقریبا دس ہزار کلو گرام یا گیارہ ٹن ہوتا ہے۔عام طور پر ایم او اے بی سطح زمین سے چھ فٹ کی بلندی پر پھٹتا ہے۔ بم کا کنٹینر انتہائی پتلا رکھا گیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اس میں موجود دھماکہ خیز بارود زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلا سکے۔

ایک بم پر سولہ ملین ڈالرز خرچ ہوتے ہیں، امریکا نے اب تک ایسے بیس بم تیار کیے ہیں۔روس نے بھی اس سے چھوٹا لیکن ایسا ہی ایک بم تیار کر رکھا ہے جس کا نام ”تمام بموں کا باپ” رکھا گیا ہے، لیکن روسی بم امریکی بم سے چار گناہ زیادہ تباہ کن ہے، اس طرح امریکا کے پاس غیرایٹمی بموں کی ماں اور روس کے پاس غیرنیوکلیائی بموں کا باپ موجود ہے۔ امریکی فورسز کے سربراہ جنرل جوہن نکولس نے اس بم حملے کو درست امریکی اقدام قرار دیا ہے جن کے بقول داعش افغانستان کے متذکرہ علاقے میں خود کو منظم کررہی تھی اور وہاں اس نے بارودی سرنگوں، بنکرز اور ٹنلز کا اپنے دفاع کیلئے استعمال شروع کردیا تھا اس لئے اس کیخلاف سخت گیر کارروائی ضروری ہو گئی تھی۔ امریکی فورسز کے کمانڈر کا کہنا ہے کہ افغانستان سے داعش کے خاتمے تک فورسز کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

اس سے قبل بھی دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر وسیع پیمانے پر انسانی تباہی کا باعث بننے والے ایٹم بم کا پہلا عملی تجربہ کیا تھا ،جس میں ہونیوالی لاکھوں ہلاکتیں آج بھی عظیم انسانی المیے کے طور پر تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس طرح ایٹمی عدم پھیلاؤ پر زور دینے والے امریکہ نے آج تک خود ایٹمی عدم پھیلاؤ کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں کئے۔ اس وقت افغانستان میں دہشت گرد گروپ اتنے زیادہ منظم نہیں تھے اور انکے ہاتھوں امن و امان کی صورتحال اتنی زیادہ خراب نہیں تھی کہ ان پر امریکاکا سب سے زیادہ طاقتور بم استعمال کیا جاتا، جبکہ اس خطرناک بم کے استعمال سے عام شہریوں کی وسیع پیمانے پر ہلاکتوں اور مختلف امراض میں مبتلاہونے کا خدشہ لا حق ہوگیاہے ۔ عالمی قوانین کے تحت جنگ کے دوران بھی عام مقامات پر بمباری کی ممانعت ہوتی ہے تاکہ بے گناہ شہریوں کی جانیں ضائع نہ ہوں۔ اس کے علاوہ پاکستان جو کہ پہلے ہی امریکی نیٹو فورسز کا اتحادی ہونے کی سزا بھکت رہا اور اس پرائی جنگ میں اپنے دس ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار اور افسران سمیت مجموعی طور پر 70 ہزارسے زائد شہریوں کی جانوں کا نقصان اٹھا چکا ہے۔

حالیہ امریکی مدر بم حملے کے بعد پاکستان کے لئے مذید مشکلات کا خدشہ پیدا ہوگیاہے۔ اس خطرناک ترین غیرجوہری بم کا زہریلا مواد پاکستان کے اندر بھی داخل ہو سکتا ہے جبکہ اس حملے کے بعد داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے لوگ اپنے تحفظ اور مذید بم حملوں سے بچنے کیلئے ایک بار پھر افغان سرحد عبور کرکے پاکستان کا رخ کرسکتے ہیں اور ا س طرح پاکستان میں امن و امان کیلئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کی سول حکومت اور عسکری قیادت ملک کی سلامتی کی صورتحال کا بغور جائزہ لے ، اور پاک افغان سرحد کو باڑ لگا کر محفوظ کر نے کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں، بلاشبہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگا کر، اور دہشت گردوں کا پاکستان میں داخلہ روک کر ہی ملک میں پائیدار امن و امان کا قیام یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

Rana Aijaz Hussain

Rana Aijaz Hussain

تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل : ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033