ہمیشہ کراچی کو سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھا گیا مگر

Karachi

Karachi

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
گزشتہ دِنوں نئی مردم شماری کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں شہری آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی شہری آبادی ایک کروڑ60لاکھ اور پاکستان میں تجارتی حب کا درجہ رکھنے والے شہر کراچی کی زبوحالی اور غیرمعیاری حالتِ زندگی پر ورلڈبینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کراچی کے انفرااسٹریکچر اور خدمات کی فراہمی کے حوالے سے ” کراچی کو 10 سال میں9 سے 10ارب ڈالرز کی مالی معاونت کا تخمینہ لگایاہے“جس کا اپنی رپورٹ میں واہ شگاف انداز سے بس یہ کہنا ہے کہ خالصتاََیہ رقم ٹرانسپورٹ، فراہمی آب، صحت و صفائی اور میونسپل سائیڈ ویسٹ مینجمنٹ کے لئے درکار ہو گی۔

اگرچہ ،شہر میں آلودگی نے سنگین صورت اختیار کرلی ہے،ہر دوسرا شخص ہپاٹائس بی اور سی اورسانس اور دمے جیسے موذی ا مراض میں مبتلا ہورہاہے اگر اِس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو شہر میں قبرستان آباد اور شہری آبادی ویران ہو جا ئے گی ،شہر سیاسی لحاظ سے اپنی تاریخ کی اقتصادی بدحالی کا شکار ہو نے کے ساتھ تمام انسا نی بنیادی ضروریات اورخدمات کی فراہمی سے بھی محروم ہے حکمرانوںاورسیاستدانوں کے شہر پر قبضے کی وجہ سے منتخب بلدیاتی حکومتوں کا نظام کمزور اور صلاحیتوںکی فقدان ہے جس کی وجہ سے شہر ی اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں الغرض یہ کہ شہر میں جتنے بھی عوا می خدمات انجام دینے والے ادارے کام کررہے ہیںسب کے دعوے اخباری اور چینلز کی خبروںاور سُرخیوں تک ہی محدود ہیں اداروں کی شہر اور عوامی فلاح کے لئے خدمات کی بجا آوری غیر واضح ہیں، سب ایک دوسرے کے کا ندھے پر بندوق رکھ کر چل رہے ہیں اپنی ذمہ داری انجام دینے کو کو ئی بھی تیار نہیںہے شہر کا سارا ترقیاتی بجٹ کدھر جارہاہے؟ نہ کو ئی پوچھنے والا ہے؟ اور نہ کوئی بتا نے والاہے؟ کہیں بھی عوامی فلا حی منصوبے ،پا ئیدار سڑکوں اور پینے کے پا نی کی لا ئیوں کا بچھا جال دکھا ئی نہیںدے رہاہے، اور صحت و صفا ئی کا مناسب انتظام ہے شہر کو اداروں میں بیٹھے سیاسی لیٹروں اور کرپٹ مافیاکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیاہے، شہر میں برسوں سے حکومت کی طرف سے چلا ئی جا نے والی ایک بھی بپلک ٹرانسپورٹ کا نظام نہیں ہے اگر کہیں ہے بھی تو آٹے میں نمک سے بھی کم ہے یا وہ بھی غائب ہے گویا کہ شہر میں لگژری اور آرام دہ بپلک ٹرانسپورٹ کے بجائے چنگ چی رکشوں کو سندھ حکومت نے ریگولائز کرکے عوامی خدمات کا جھنڈابلند کررکھا ہواہے ،شہر میں پا نی کا ناغہ ہفتوں اور مہینوں تک محیط ہوگیاہے یعنی کہ شہر کراچی کووفاق اورسندھ حکومتوں اوربلدیاتی اداروں نے اپنی دیدہ دانستہ نا قص حکمتِ عملی سے 21ویں صدی کربلا بنادیا ہے حکمران شہر کا پا نی بند کرکے دورِ جدید کے یزید بن گئے ہیں۔

آج اِس صورتِ حال میں کراچی پر قبضے کے حق دار تو سب ہی ہیں مگر شہر کراچی کے باسیوںکے مسائل حل کرنے والاکو ئی نہیں ہے ایسے میں اَب سوا ئے اہلیان کراچی سے ووٹ لینے اور اقتدار کے حصول میں غرق رہنے والا کو ئی بھی شخص اور جماعت یا پارٹی کراچی کے مکینوں کا کو ئی بھی مسئلہ شاید حل ہی نہیںکرنا چاہئے گا بھلے سے ورلڈبینک جتنے ارب ڈالرز بھی امداد دے یا دنیا سے دلادے کیو ں کہ سب کو کراچی کے ترقیا تی بجٹ ہڑپ کرنے اور سینیٹ الیکشن میں اِس بجٹ سے ہارس ٹریڈنگ کرنے کی عادت جو پڑ گئی ہے سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک جماعت کراچی کر ترقیاتی بجٹ اپنی الیکشن مہم اور سیاسی مقاصد کے لئے ہڑت کرتی ہے تو دوسری سیاسی جماعت ہارس ٹریڈنگ کی مد میں اُس سے یہ رقم نکلاتی ہے یعنی کہ دونوں کے مزے چل رہے ہیں۔

تب ہی تو مسائل میں گھیرے اہلیان کراچی اپنے پچھلوں کی کارکردگی پر مایوس ہیں اور ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ بے حسوں کی بے حسی کی بھی کو ئی حد ہوتی ہے، آج شہر کراچی کی خستہ اور زبوحالی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ما ضی و حال میں” چلو چلو کراچی کو لوٹیں“ کا نعرہ لگا نے اور کراچی کو سُونے کا انڈیا دینے والی مرغی سمجھنے والوں ہی نے اِس شہر کے ترقیاتی بجٹ کو اپنے اللے تللے میں اُڑایا اور سب ہی نے کراچی کے بجٹ کو اپنی عیاشیوں اور سیاسی مقاصد کے لئے اپنے آباو ¿اجداد باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر لوٹا کھایا اور چلتے بنے یعنی کہ اپنے سینے جوڑے کرکے سب نے کراچی کی ترقیاتی منصوبوں کے سارے بجٹ اپنی اپنی جھولی میں بھرے جس کا جیسا بنااور بس چلا سب نے اِس شہر کی بے توقیر کرنے میں اپنا بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالاہے، ایک زما نہ تھا کہ کراچی عرس ا لبلاد کہلاتا تھا اَب کے (کُتا/ کافر) الیکٹرک کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوبا رہتاہے اور آج سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کی نااہل انتظامیہ کی نا قص اور فرسودہ حکمتِ عملی کے باعث نا کارہ ا نتظامات اورقدامات کی وجہ سے سیوریج کے بہتے گٹروں ،ٹوٹی پھوٹی سڑکوں ، اُجرے محلے گلی کو چے ، میدان اور بازار کھنڈر بن گئے ہیں یا بنا دیئے گئے ہیں ، آہ ،کبھی یہاں ما ضی میں لسانیت سے پاک ، محبت ، اخوت ومساوات، بھا ئی چارگی،ملی یکجہتی اتحاد ویگانت اور ترقی و خوشحالی کا راج تھا اور اِس شہر کے لوگ بھی خوش حال تھے اور چھوٹے موٹے مسائل کے علاوہ (آج کی طرح )بہت سے بڑے مسائل عوام سے دور تھے مگر اَب یہاں مسائل ہی مسائل ہیں ، ہر جگہہ خاک اُڑتی ہے اور کُتے لوٹتے ہیں کیوں کہ اداروں میںڈونکی قابض ہیں تب ہی شہر کے باسی مایوس ہیںاور جگہہ جگہہ ہنستے بستے مسائل کا راج ہے، باسیوں کے مکانوں سے اُونچے تو کچرے اور گندگی و غلاظت کے انبار ہیں اور حکمرانوں ، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس و ٹیکنو کریٹس کے نزدیک یہی اِس شہر کی ترقی کی پہچان اور راض ہیں۔

اِس سے کسی کو انکار نہ ہو اور سب ہی متفق ہو ں گے کہ پچھلے 35/30سالوں سے جو شہر کراچی کے مالک ہو نے کے دعویدار تھے آج اِنہیں اقتدار کی چاشنی ایسے منہ لگی کہ چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے یہی وجہ ہے یہ بھی اقتدار کی جنگ کا حصہ بن گئے ہیں اَب یہ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ بغیر اقتدار کے شہر کے مسائل کا حل ہونا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے اہلیانِ کراچی ذراسی دیر کواپنے دل پرہاتھ رکھ کر یہ سوچیں سوا ئے کراچی کے چند علاقوں عزیزآباد، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد ، گلشن اقبال(اور جہاں شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی جماعت کے ٹھیکیداران کراچی یعنی کہ عہدیداران کی اکثریت رہتی ہے اُن علاقوں کے لانڈھی ، کورنگی ، ملیر ، لالوکھیت، لائنز ایریااور دیگر غریب علاقوں میں ) اِنہوں نے پہلے کتنے اپنے ووٹرز اور اِس جماعت پر تکیہ کرنے والوں کے مسائل حل کردیئے تھے جو اَب اقتدار سے پَرے رہ کر یہ کراچی کے غریب مجبور اور مفلوک الحال باسیوں کے دیرینہ مسائل کا حل نکالیں گے کراچی کے ٹھیکیدار بننے والی جماعت کی آپس کی لڑا ئیوں اور اقتدار کی چھینا جھپٹی کے باعث سندھ کی حکمران جماعت کراچی میں اپنے قا بض ہو نے کا خواب دیکھ رہی ہے اِس لئے شہر کو مسائلستان بنا نے کی حربے خو ب تیزی سے بروئے کار لا ئے جارہے ہیں۔

اَب اِس سارے منظر اور پس منظر میں سیاست دانوں کی اقتدار اور کراچی شہر پر قبضے کی لڑا ئی اور سازش میں شہرقا ئد کو مجموعی طور پر کھنڈربنا نے میں ثوابِ دارین سمجھ کر سب ہی حصہ ڈال رہے ہیں،اِن دِنوں اپنی اندرونی چپقلش اور آپس کی لڑا ئی کی وجہ سے سینیٹ الیکشن میں اپنے ہدف سے کم نشست حاصل کرنے والی شہر کراچی ایک بڑی سیاسی جماعت بی جمالو اور مظلوم کسی بیوہ کی طرح اپنی بے چارگی اور بے حسی کا رونا روکر اگلے متوقعہ جنرل انتخابات میں عوام میں اپنی کھو ئی ہو ئی پوزیشن بحال کرنے کی کو ششوں میں لگی پڑی ہے جس کا فائدہ اُٹھا تے ہوئے شہر کی حلقہ بندی کرنے والوںنے حلقہ بندی کچھ ایسی کردی ہے کہ ماضی کے مقابلے میں شہر کی بڑی سیاسی جماعت کے دعویداروں کو حلقہ بند ی کے بعد بہت بڑا دھچکالگاہے اور اَب اِن نا سمجھوں کے مقدر میں سر پر ہاتھ رکھ کررونے دھونے اور ایک دوسرے کا بُرا بھلاکہنے اور دیوار سے سرٹکرانے کے کچھ بھی ہا تھ میںنہیں آیا ہے۔

جبکہ سندھ کی ایک قدیم سیاسی جماعت جس کی ہمیشہ سندھ میں کسی نہ کسی طرح حکومت بنتی ہے آج اِس جماعت کی برسوں پرا نی کراچی پر قبضے کی خواہش پوری ہوتی نظر آرہی ہے،اِس جماعت نے کراچی پر قبضے کے لئے کیا ؟کیا؟ جتن نہیں کئے ؟مگر بالآخر اِس نے اپنی کوششوں سے پتھر میں بھی سیاسی سوراخ کرہی دیاہے اور اپنے سیاسی مقا صد میںپوری طرح کا میا ب ہو رہی ہے اندازہ کیجئے کہ وہ پتھر جس سے متعلق سب کا یہی خیال تھا کہ کبھی بھی کو ئی اِس بھاری بھرکم اور کئی حوالوں سے منظم اور متحد و مضبوط پتھر میں سُوراخ تو کیا کو ئی اِسے ٹس سے مس یعنی کہ اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیںسکتاہے آج سندھ کی سیاسی جماعت نے اپنی جدوجہد اور مسلسل اپنی شاطرانہ چالوں سے شہر کراچی کی بڑی سیاسی جماعت ہو نے کے دعویداروں کا شیرازہ بکھیر کررکھ دیاہے یقینا اِنہیںاِس حال تک پہنچانے میں دوسرے کے علاوہ اِن کے اپنے پچگا نہ( لوٹ مار ، چائنہ کٹنگ ،کھالیں لینے ، کھالیں چھننے، زکوة و فطرہ کی وصولی،اپنے زیر کنٹرول علاقوں کی سڑکوں کے کنارے پیسے لے کر ٹھیلے لگا نے اور دکانداروں کے سامنے بنے فٹ پاتھوں پرسامنے رکھنے کی اجازت دینے والوں اور کبھی کبھی تبرک کے طور پر کسی سے بھتہ لینے والے) کرتوت اور غیرسیاسی سنجیدہ پن کے ساتھ سا تھ آپس کی لڑا ئیاں اور ایک دوسرے کو نیچا کرنے اور پیروں تلے مسلے رکھنے کی فطرت اور کینہ بھی شامل حال ہے تب ہی کسی کو اِنہیں توڑنے اور بکھیر نے کا موقعہ ملا ہے آج کراچی کے غیور اور کراچی کے ٹھیکیداروں کو ہمیشہ آنکھیں بند کرکے اپنا ووٹ دینے والے شہری سوفیصدی یہ سمجھ رہے ہیںکہ اِنہوںنے اپنے ظاہر اور باطن عمل سے دوسروں کو خود موقعہ فراہم کیا ہے تو کسی نے اِس موقعے کا بھر پور فائدہ اُٹھایا ہے ورنہ آج یہی خود صحیح ہوتے تو کسی کو ماضی کی طرح کیا لگی پڑی تھی کہ کو ئی اِن کی دہلیز پر پَر بھی مارتا آج اللہ نے اِنہیں خود کو سنبھالنے اور اپنی اصلاح کرنے کا ایک موقعہ دے دیا ہے تو یہ آپس میں دستِ گریبان ہونے کے بجائے اپنا کڑا احتساب خود کریں اور ماضی کی اپنی ہر طرح کی ظاہری اور باطنی پُرتشدت سیاسی کارروا ئیوں سے توبہ کرتے ہوئے اَب ٹھیک طرح سے مُلکی سیاسی عمل کا حصہ بنیں اور مُلک اور شہر کی مثبت سیاست میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالیں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com